کالم سے اردو بلاگرز تک

حمیرا اشرف  منگل 9 فروری 2016
ریٹنگ اور عوام میں مقبولیت ہی تنخواہ، مراعات کے لئے بنیاد ہے، لیکن اس صورت میں قلم کی کاٹ اور سچائی متاثر ہوتی ہے۔ فوٹو:سوشل میڈیا

ریٹنگ اور عوام میں مقبولیت ہی تنخواہ، مراعات کے لئے بنیاد ہے، لیکن اس صورت میں قلم کی کاٹ اور سچائی متاثر ہوتی ہے۔ فوٹو:سوشل میڈیا

کراچی جشنِ ادب (کراچی لٹریچر فیسٹیول) کے پروگرام کی فہرست میں میرے لیے سب سے زیادہ دلچسپی دوسرے دن کی ایک نشست میں تھی جس کا موضوع تھا، ’’کالم سے اُردو بلاگرز تک‘‘۔ گفتگو کے شرکاء میں وسعت اللہ خان، اصغر ندیم سیّد، مسعود اشعر، زاہدہ حنا اور مبشر علی زیدی شامل تھے، جبکہ وجاہت مسعود ماڈریٹر تھے۔ یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ سات ستاروں کی اس کہکشاں اور موضوع کی ہمہ جہتی مجھے صبح صبح اٹھا کر بے اختیار بیچ لگژری ہوٹل لے گئی۔ میری بے چینی کا عالم تو یہ تھا کہ 10 بجے شروع ہونے والے پروگرام کے لیے میں ساڑھے 9 بجے ہال میں تھی کہ پہلی صف میں جگہ مل سکے۔ گو میں کوئی سکہ بند بلاگر نہ سہی بلکہ اردو بلاگنگ کا نہال نو دمیدہ ہی ہوں لہذا میری توقع تھی کہ مجھے اردو بلاگنگ کے حوالے کافی مواد میسر آجائے گا اور لگے ہاتھوں بلاگرز کے حالات سے بھی واقفیت مل جائے گی نیز موجودہ بلاگ کی مورث اعلیٰ ”کالم نگاری“ سے بھی کچھ شناسائی ہوجائے گی۔

پروگرام کا آغاز اپنے مقررہ وقت پر ہوا اور مائیک جناب وجاہت مسعود صاحب کے حوالے کیا گیا۔ وجاہت مسعود سینئر صحافی ہیں، بہت سادہ اور سُبک لکھتے ہیں۔ ان کے کالمز اور بلاگ پڑھنے کا اتفاق رہا ہے اور ان میں کبھی مجھے کوئی مشرق و مغرب کے قلابے اور نشتر و کاٹ دکھائی نہیں دی۔ حالانکہ ان کے نقوش کا تیکھا پن مجھے سوچنے پر مجبور کرتا رہا ہے کہ جیسا سادہ ان کا قلم ہے شاید نطق ایسا سادہ نہیں، اور آج پہلے جملے سے لے کر پروگرام کے اختتام تک ان کی زبان کی شائستگی، شستگی اور روانی کی قائل ہوگئی، کم اور بر محل بولتے ہیں۔ تلفظ بہترین اور دھیما لب و لہجہ اس پر الفاظ کا چناؤ مانو موتی جڑے ہیں۔ حالانکہ تمام وقت میں ان کی بات چیت اپنے خیالات کے اظہار سے زیادہ ساتھی شرکاء کی مدح اور تعارف پر مبنی تھی جو اس جگہ بطور ماڈریٹر ان کے فرائض منصبی میں بھی شامل تھی۔  لیکن ان کی شخصیت کا دھیما پن سلگتی آنچ جیسا اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہا۔

وجاہت مسعود نے سب سے پہلے سینئر صحافی مسعود اشعر صاحب کو دعوت دی۔ مسعود اشعر صاحب ایک نوجوان سینئر معلوم ہوتے ہیں۔ وقت نے شاید آواز کی گھن گرج کو تو کم کردیا ہو لیکن کمر میں خم نہیں اور برجستگی اپنی جگہ موجود ہے۔ پھر منفرد لب و لہجے اور شائستہ اسلوب کے حامل اصغر ندیم سید صاحب کو دعوت دی گئی۔ اصغر صاحب سے آج سے 11 سال پہلے اپنے یونیورسٹی کے زمانے میں ایک بار گورنمنٹ کالج لاہور میں ملاقات ہوئی تھی، اس کے بعد سے اب ہم میں زمین و آسمان کی تبدیلیاں آگئیں، لیکن وہ تو اپنی جاندار آواز اور مزاج کی زندہ دلی سمیت بالکل ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ ایک قلم جس کی وسعتیں اپنا ثبوت آپ ہیں اور جن کا ہم عصر ہونا وجاہت مسعود کے لئے باعث فخر ہے، جناب وسعت اللہ خان صاحب کو بلاوا دیا گیا اور وہ اپنی شرارتی گول گول آنکھیں گھماتے اور ساتھ ساتھ زندگی کو پڑھتے اسٹیج پر وجاہت مسعود کے پہلو میں براجمان ہوگئے۔

صنف لطیف اور ان کا کہیں بھی تاخیر سے پہنچنا گو کہ اب زبان زد عام ہے، لیکن اب یہاں یہ اتفاق ہی تھا کہ محترمہ زاہدہ حنا صاحبہ اس سیشن کی اکلوتی خاتون کالم نگار ٹریفک کی زیادتی کے باعث وقت پر پہنچ نہ سکیں لہذا ان کے تعارف اور ان کے کالمز کے انسانی پہلو کی تعریف کے بعد سو لفظوں کے نوجوان کہانی کار مبشر علی زیدی کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی۔ یہ عجیب اتفاق ہی ہے کہ میں مبشرعلی زیدی اور مبشر زیدی دونوں کو ایک ہی ذات تصور کرتی تھی اور یہی سوچ رہی تھی کہ میرے برابر کی نشست پر بیٹھے ”زرا ہٹ کے“ والے مبشر زیدی کو بلا  کر ان کے جوڑی دار وسعت اللہ خان صاحب کے ساتھ بٹھایا جائے گا، لیکن سو لفظوں کی کہانیوں والے مبشر علی زیدی وسعت اللہ کے جوڑی دار نہیں بلکہ ایک دوسرے میڈیا گروپ سے منسلک صحافی ہیں، اور کہانیاں لکھنا ان کا شوق۔

سیشن کا باقاعدہ آغاز جناب انتظار حسین صاحب کی یاد سے کیا گیا، اس موقع پر انتظار صاحب کے دلکش اسلوب اور زبان کی چاشنی کو بالخصوص یاد کیا گیا۔ انتظار حسین کالم کو ایک ہی انداز سے لکھنے کے قائل نہ تھے لیکن جو زبان انہوں نے ایجاد کی تمام عمر وہ اسے اپنائے ساتھ لئے چلے۔ وجاہت مسعود نے مسعود اشعر صاحب کو دعوت دی کہ  وہ انتظار حسین صاحب کی کتاب سے کوئی اقتباس پڑھ کر سنائیں۔ پڑھا جانے والا اقتباس ناصر کاظمی کی یاد میں لکھا جانے والا مضمون تھا، مظفر علی سید، حنیف رامے، عبارت بریلوی و دیگر کی زبانی ناصر مرحوم کی یاد، اور یہ بھی اتفاق کہ پڑھا جانے والا مضمون بھی لکھاری کے انتقال پُرملال پر ان کی یاد پر ہی پڑھا گیا، بقول شہرت بخاری،

پرانی صحبتیں یاد آرہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے

مسعود اشعر کی زبان سے پڑھا جانے والا یہ شعر اور انتظار صاحب کے لئے ان کے جذبات، کہتے ہیں جانے والے چلے جائیں ان کی یاد دل سے کوئی نہیں مٹاسکتا، بلکہ میرے لئے تو انتظار حسین کہیں گئے ہی نہیں، مجھے محسوس ہوتا ہے وہ یہیں کہیں ہیں، انہیں سننے والوں میں کہیں انتظار حسین بھی بیٹھے ہیں۔

سیشن کا باقاعدہ آغاز کالم نگاری سے کیا گیا، پارلیمنٹ جو ملکی سطح پر سجتی ہے اور صوبائی سطح پر بھی اور ایک ان سب سے اہم پارلیمنٹ جو رائےعامہ کو ہموار کرنے اور ذہن سازی کا کام کرتی ہے وہ پارلیمنٹ ہے کالم نگاروں کی۔ کالم نگار جو ہمیں ملکی و حکومتی معاملات، سیاست، حالات حاضرہ، اندرونی و بیرونی سازشیں، عام لوگوں کے حالات، قدرتی عوامل سے لے کر مسائل و دلچسپی کے پہلو، یہاں تک کہ اب کھیل کھلاڑی ان کی ذاتی زندگیوں سے لے کر سیاست دانوں، مذہبی حلقوں اور کاروباری و عسکری حضرات ان کے شادی بیاہ اور طلاقوں کے حالات تک سب ہی کالمز کی زینت نظر آتے ہیں۔ وجاہت مسعود کہتے ہیں،

”کالم نویسی شخصی صحافت ہے جس میں ادارہ موجود بھی ہوتا ہے اور نہیں بھی“۔

کالم نویسی میں وسعت اللہ خان کی آواز مختلف بھی ہے اور طنز کی کاٹ لئے بھی۔ وہ کالم کی صنف میں ایک جدت یہ بھی لائے ہیں کہ وہ نہ صرف کالم لکھتے بلکہ پڑھ کر بھی سناتے ہیں۔ وجاہت مسعود کے سوال ”وسعت صاحب کیا بتانا چاہتے ہیں؟“ پر ان کا جواب تھا کہ میں خود نہیں جانتا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں، میں بس سگریٹ کی پنی کی طرح کاغذ قلم لے کر فٹ پاتھ پر جا بیٹھتا ہوں۔ آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا جاتا ہوں اور کالم بنتا جاتا ہے۔ اپنے آسان طرز نگارش پر ان کا کہنا تھا کہ ریڈیو کے لئے لکھنے سے ان کے انداز میں آسان اردو، آسان جملے، عام فہم اور سادہ نثر کی عادت پڑگئی۔ علم کا رعب تخلیق کے منبر پر قیف لگا کر قاری کے کانوں میں انڈیلنا بذات خود اسےغیر دلچسپ اور محض چوم کر طاق میں رکھنے کے لائق بنا دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ

”اگر مشاہدہ براہ راست ہے تو اس میں کلی پھندنے لگانے کی ضرورت نہیں بس تھوڑا نمک لگانے سے بھی گوشت مزیدار ہوجاتا ہے“۔

وجاہت مسعود کا اس پر برجستہ لقمہ تھا کہ،

’’زخم ہمارے ہوتے ہیں اور وسعت اس پر نمک چھڑکنے کا کام کرتے ہیں‘‘۔

زاہدہ حنا جو اب ہال میں تشریف لاچکی تھیں ان کو باقاعدہ اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی اور ساتھ ہی سوال بھی داغ دیا گیا کہ دیگر خواتین کی طرح نرگسی کوفتے، بریانی پکانے کی بجائے وہ کہاں اس کالم نویسی کے کام میں لگی ہیں۔ زاہدہ حنا عام انسان کی آواز ہیں۔ ان کے کام میں جانبداری یا جنس کی بنا پر امتیاز نہیں۔ وہ محض خواتین کے لئے مخصوص کردہ حوالوں پر نہیں لکھتیں بلکہ انسان کے لئے لکھتی ہیں، جو مرد وعورت دونوں ہو سکتے ہیں۔ زاہدہ نے تاخیر سے آمد پر معذرت کی اور پھر اپنی کالم نویسی پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کالم نگاری کی باقاعدہ ابتداء 1967 میں ”ایک خاتون کی ڈائری“ سے کیا، جس میں وہ شہر کی سماجی و ادبی تقریبات کا احوال نیز کتابوں پر تبصرے لکھا کرتی تھیں۔ اب ان کے موضوعات دنیا بھر میں لوگوں کے تجربات اور ان پر گزرنے والے عذاب کو محسوس کرنا اور ان پر قلم اٹھانا ہے، جبکہ سماج کی بالادستی میں زیادہ ترعورتیں پستی ہیں، اس لئے ان کے حق میں بھی لکھنا ضروری خیال کرتی ہیں۔

مبشرعلی زیدی کہتے ہیں کہ میں کہانی کو تلاش نہیں کرتا بلکہ کہانی خود چل کر میرے پاس آجاتی ہے۔ وہ ایک میڈیا چینل سے وابستہ ہیں اور روزانہ ان کا واسطہ مختلف کیسز اور جرم و سزا پر مبنی حالات سے پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں کہانی لکھ کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیتا ہوں اور پھر لوگوں کا فیڈ بیک بتا دیتا ہے کہ بات ان تک پہنچ چکی ہے۔ وسعت اللہ کے شرارتی حملے کہ ”مبشر کی ایک کہانی کے 107 الفاظ تھے“ پر مبشر علی زیدی کا برجستہ جواب یہی تھا کہ جب لوگ لفظ گنیں گے تو معنی پر بھی غور کرلیں گے۔

اصغر ندیم سید کہتے ہیں کہ میں نے جو کالم لکھے ان کا اصل مجرم مسعود اشعر ہے۔ وہ مسعود اشعر کو اپنے لکھنے کے لئے ایک تحریک گردانتے ہیں اور ان کو اپنے استادوں میں شمار کرتے ہیں۔ اصغر نے ابتدائی کالم نگاروں ابن انشاء، احمد ندیم قاسمی اور انتظار حسین صاحب و دیگر کو خراج تحسین پیش کیا۔ مسعود اشعر نے آج کے کالم نگار کے کردار پر روشنی ڈالی۔ وہ کہتے ہیں کہ کالم نگاروں کی افادیت سیاسی اعتبار سے بہت بڑھ گئی ہے۔ اب ہر سیاسی جماعت کے تجزیہ نگار ہیں جو کالم نگار کی ایک ایک سطر پر تجزیہ کرتے ہیں۔ کالم نگار لوگوں کو گمراہ  کر رہے ہیں، جو شے بکتی ہے وہی لکھتے ہیں۔

کالم نویسی کے حوالے سے جو بنیادی مسائل سامنے آئے ان میں سرفہرست کالم نگاروں کی سیاسی وابستگیاں اور ان کے نتیجے میں قلم کے ساتھ نا انصافی ہے۔ آج کا صحافی ریٹنگ پر چلتا ہے، کیوںکہ ریٹنگ اور عوام میں مقبولیت ہی تنخواہ، مراعات کے لئے بنیاد ہے، لیکن اس صورت میں قلم کی کاٹ اور سچائی متاثر ہوتی ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ ادارے کا دباؤ ہے۔ کالم نگار وہ لکھنے پر مجبور ہوتا ہے جو اخبار کا مالک لکھوانا چاہتا ہے۔ قلم کی مزدوری ہے اور پیسے کا کھیل، تیسرا اہم مسئلہ سہولت و سستی ہے۔ بڑے بڑے کالم نگار اپنی ایک ریسرچرز کی ٹیم تشکیل دیتے جو اعداد و شمار سمیت دیگر معلومات جمع کرکے دیتی ہے اور پھر اس صورت میں زبان کی عمومی اغلاط کے ساتھ ساتھ تاریخی غلطیاں بھی در آتی ہیں۔ ہماری ایک جامد سوچ یہ بھی کہ اردو میں کچھ بھی لکھ دیا جائے، سب چلتا ہے۔

مسعود اشعر نے اس رحجان پر بھی توجہ مبذول کروائی کہ جن کالمز یا مضامین میں ملک و قوم کی بُرائی اور تضحیک کا پہلو نکلتا ہے وہ جلد مقبول ہوجاتا ہے۔ اس کی اہم وجہ وہ تعلیم کی کمی اور تعلیمی نظام کے موجودہ ڈھانچے کو گردانتے ہیں۔ کالم نگاری کا ایک اہم مسئلہ سنسر شپ بھی ہے۔ کالم نگار کو بھی پابند ہونا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات اردو زبان کے محاورے بھی نا شائستگی کے نام پر قلم زد کردیے جاتے ہیں۔ کچھ مخصوص حالات، مخصوص شعبے اور مخصوص سیاسی حالات اور ملکی پالیسی، ان سب پر لکھنا شجر ممنوعہ ہی ہے۔ جیسے کہ زاہدہ حنا کا اپنا تجربہ تھا، فرماتی ہیں کہ برہنہ پا لکھنا بھی نا منظور قرار پایا۔ دوستو وسکی پر ادارت کی غربال سے نکل کر یہ کھلا کہ وہ تو”دوستو اور خاص مشروب“ کی بات کی گئی تھی۔

وسعت اللہ سے ایک سوال تھا کہ طنز اور تضحیک میں کیا فرق ہے؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جیسے شائستگی اور منافقت میں بال برابر فرق ہے، بہت احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح طنز اور تضحیک میں بھی فرق ہے جو روا رکھنا ہوتا ہے۔ باتیں بہت تشنہ رہ گئیں اور وقت ختم ہوگیا اور اس کا جو سب سے اہم نقصان ہوا وہ یہ تھا کہ کالم نگاری کی بھول بھلیوں، اس کی نوعیت، مسائل اور خصوصیات پر ہی روشنیاں ڈالتے رہ گئے اور گھڑیال نے اختتام کی طرف اشارہ کردیا۔ مسعود اشعر نے اردو بلاگنگ پر تھوڑا سا تبصرہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ سوشل میڈیائی بلاگنگ تک ہی محدود رہ سکی۔ ان کے خیال میں فیس بک اور دیگر سوشل میڈیائی ذرائع ابلاغ میں بلاگنگ نے سوچنے کا انداز بدل دیا ہے اور بہت سی معلومات  تک رسائی بس انگلی کی ایک حرکت تک محدود ہے۔ بلاگ اپنی سوچ کو بلا کم و کاست ابلاغ کرنے کا اہم ترین میڈیم ہے۔

بلاشبہ وسعت اللہ کی برجستگی، اصغر ندیم سید کی شگفتگی، مسعود اشعر کی شعلگی، زاہدہ حنا کے دھیمے لہجے کی نغمگی، وجاہت مسعود کی دل بستگی اور مبشرعلی زیدی کی لب بستگی سب ہی نے سماں باندھے رکھا، لیکن اردو بلاگنگ کے جس اہم موضوع اور وقت کے  تقاضے پر سیر حاصل گفتگو کی طلب تھی وہی ادھوری رہ گئی۔ مجھ سمیت بہت سے اردو بلاگرز سوچتے ہی رہ گئے کہ کچھ  ماضی کے خوشنما جھروکوں سے باہر، حال کے بلاگرز کے مسائل اور ان کے شعبہ بلاگنگ میں وسعت و مستقبل اور بطور پروفیشن روشن امکانات کی بابت کچھ اہم باتیں معلوم ہوسکیں گی تو، ایسا نہیں ہوسکا۔ میری یہی تجویز ہے کہ اردو بلاگنگ کے حوالے سے کوئی ایک دو روزہ  ورکشاپ نما سیشن منعقد کیا جائے تا کہ اس کے فروغ  میں پیش رفت ہو سکے۔

کیا آپ بھی بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ بلاگرز کے فروغ کے لیے ایک دو روزہ ورکشاپ نما سیشن منعقد کیا جانا چاہیے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

حمیرا اشرف

حمیرا اشرف

حمیرا اشرف ایک بلاگر، ایڈیٹر اور ترجمہ نگار ہیں۔ وہ رنگ، نسل، زبان، مذہب اور جنس کی بنیاد پر روا رکھے جانے والے امتیازی رویوں کی نفی کرتے ہوئے انسانیت اور محبت پر یقین رکھتی ہیں۔‎

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔