137 سال سے جاری طویل ترین سائنسی تجربہ 2100 میں ختم ہوگا

ویب ڈیسک  بدھ 10 فروری 2016
مشی گن یونیورسٹی میں کئی اقسام کے بیجوں کو زمین میں دبا کر ان کی افزائش کا تجربہ کیا جارہا ہے۔ فوٹو؛فائل

مشی گن یونیورسٹی میں کئی اقسام کے بیجوں کو زمین میں دبا کر ان کی افزائش کا تجربہ کیا جارہا ہے۔ فوٹو؛فائل

مشی گن: گزشتہ 137 سال سے جاری نباتیات کا تجربہ 2100 میں ختم ہوگا جسے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سائنسی تجربہ قرار دیا جارہا ہے۔

یہ تجربہ مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں کیا گیا تھا جس میں دیکھنا تھا کہ آیا صرف ایک بیج سے پودے نشوونما پاسکتے ہیں جسے اب 137 سال گزرچکے ہیں اور ماہرین کی نسل در نسل نے اس تجربے کا خیال رکھا ہے جو 2100 میں اختتام پذیر ہوگا۔

1879 میں اسے پودوں کے ایک ماہر ڈاکٹر ولیم جیمز بیل نے شروع کیا تھا جو سیکڑوں سال سے کسانوں کی جانب سے پوچھے جانے والے ایک سوال کےجواب میں شروع کیا گیا تھا کہ پودے کی اطراف اگنے والی گھاس پھوس کو کتنی مرتبہ اکھاڑا جائے کہ یہاں تک اس کی افزائش بالکل رک جائے۔ بیل نے خود عملی طور پر اس کا جواب پانے کے لیے یہ تجربہ کیا جس کے لیے دیکھنا تھا کہ بیج مٹی میں کتنے عرصے تک سرگرم رہتے ہیں۔

اس کےلیے 23 اقسام کی گھاس پھوس یا فصل کے لیے مضر جڑی بوٹیوں کو لے کر ہر ایک کے 50 بیج 20 ایسی بوتلوں میں رکھے guy جن کی گردن تنگ تھی اور اس میں نمی سے بھرپور مٹی ڈال کر رکھ دیا گیا، ہر بوتل کا ڈھکنا کھلا ہوا رکھا گیا جن میں بعض بوتلوں کو منہ کے بل الٹا رکھا گیا اور کچھ بوتلوں کو مٹی کے اندر دبا دیا گیا جب کہ ہر 5 سال کے بعد اس بوتل کا جائزہ بھی لیا گیا۔

بیل نے یہ تجربہ اپنے نوجوان ساتھی ہنری ڈارلنگٹن کو دیا جس کے بعد وہ مزید دو سائنسدانوں رابرٹ بنڈورسکی اور جین زیوارٹ کو ملا اور اب فرینک ٹیلوسکی کے پاس ہے جو یونیورسٹی کے نباتاتی باغ کے کیوریٹر بھی ہیں۔ اس ضمن میں آخری بوتل 2000 میں کھولی گئی تھی لیکن اس عمل کو خفیہ رکھا گیا تھا۔ اب تک نکالی جانی والی بوتلوں میں سے 23 پودوں میں سے صرف 2 پودوں بیج ہی پھوٹ پڑے اور ان میں نشوونما دیکھی گئی۔

ان میں سے ایک موتھ بوٹی ہے جس کے 50 میں سے 23 پودے اگنے لگے جب کہ ایک اور قسم کی جڑی بوٹی کا صرف ایک بیج ہی پھوٹا۔ اس تجربے کی آخری بوتل 2100 میں کھولی جائے گی جب کہ اس تجربے کا مقصد یہ ہے کہ بیجوں کو طویل عرصے تک رکھ کر نوٹ کیا جائے کہ ان میں افزائش کی صلاحیت ہے یا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔