پاکستان پر فلمیں بنانے والو ! موضوعات حاضر ہیں

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 10 فروری 2016
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

(شرمین عبید چنائے اور ان کے ہم خیالوں کے نام)

پچھلے ایک کالم میں محترمہ شرمین عبید سے گزارش کی تھی کہ ارضِ وطن کی برائیاں اور بدصورتیاں تلاش کر کے دنیا کو دکھانے کے بجائے اس کی اچھائیاں اور خوبصورتیاں اجاگر کریں ، زندہ معاشروں کے شہری اپنے ملک کو اپنا گھر سمجھ کر اس سے محبّت کرتے ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ ہر گھر کے کچھ منفی پہلو بھی ہوتے ہیں،ہر گھر کے کچھ تاریک گوشے تلاش کیے جا سکتے ہیں اور اپنے میڈیا کے ذریعے ان کی نشاندہی کی جا سکتی ہے لیکن گھر کا باسی اس کی گندگی صاف کرنے یا صفائی کے عمل میں حصہّ ڈالنے کے بجائے اگر گندگی پورے محلّے کو دکھاتا پھرے کہ ’’ یہ دیکھو ، اتنا گندا ہے میرا گھر، یہ کوئی رہنے کے قابل ہے؟‘‘ تو اسے کوئی بھی تحسین کی نظروں سے نہیں دیکھے گا۔

زندہ قومیں اپنے ملک کومادر ِ وطن کہہ کر پکارتی ہیں اور اس کا ماں کی طرح احترام کرتی ہیں ، اگر کوئی دولتمند تماش بین اعلان کرا دے کہ جو شخص چوک میں آکر اپنی ماں کو گالی دیگا یا ماں کی بدصورتی بیان کریگا تو اسے انعام دیا جائیگا اور پھر پیسے کی خاطر ماں کی کوئی بیٹی یا بیٹا شہر کے بازاروں میں ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دے کہ شہر والو! دیکھو میری ماں کتنی بدصورت ہے اس کے چہرے پر داغ ہیں ، اس کے ہاتھ جلے ہوئے ہیں، یہ عزّت کے قابل نہیں تو دیکھنے اور سننے والے اس پر لعنت اور پھٹکار ہی بھیجیں گے۔

مجھے یا د ہے چند سال پہلے جب میں شیخو پورہ رینج کا ڈی آئی جی تھا، ایک روز ایک دانشورملنے آیاجو دوست بھی تھا اور قابلِ احترام بھی ۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک ڈَوکو مَینٹری فلم بنا رہا ہے جسکے لیے اسے پولیس کی کچھ مدد درکا رہے، میں نے فورََا حامی بھر لی اور اپنے اسٹاف آفیسر ڈی ایس پی کو بلا کر ہدایات دے دیں۔

فلم کا موضوع پوچھا تو کہنے لگا ’’چائلڈ لیبر‘‘۔ میں نے کہا ’’ کس ملک کی؟‘‘کہا ’’پاکستان میں چائلڈ لیبر‘‘ مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے بجلی کا تار چھو گیا ہو، میں نے کہا کہ آپ میرے ملک کی کسی خامی یااس کے منفی پہلو کی دنیا میں نمائش کرنے جا رہے ہوں اور میں آپکی مَدد کروں اس کا تصوّر بھی نہیں کیاجا سکتا ، ایسا کر کے میں اپنے آپ کو قومی مجرم سمجھونگا،جب آپ میرے پاکستان کے حُسن کی نمائش کا پروگرام بنائیں گے تو اُسوقت میرے پاس آئیے میں آپکی ہر طرح سے مدّد کرونگا، فی الحال تشریف لے جائیں، میں ڈالروں کے لیے ملک کے خلاف فلمیں بنانے والوں سے ہاتھ بھی نہیں ملانا چاہتا۔

پچھلی تحریر میں ملک کے خوشنما پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کے لیے چند موضوعات کی نشاندہی کی تھی اگر وہ ناکافی ہیں تو کچھ اور سن لیں !

جب دہشت گر د درندوں نے آرمی پبلک اسکول کے ڈیڑھ سو معصوم طلباء کو گولیوں سے بھون دیا اور پورے صوبے پر خوف کے سائے منڈلانے لگے، اسکول بند ہو گئے ، والدین دہشت زدہ ہو کر اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے ڈرنے لگے تو شہید طلباء کے کلاس فیلوز اور اسکول فیلوز کا کیا ردّ ِعمل تھا؟ کیا وہ ڈر کر چھپ گئے ؟کیا وہ دبک کر گھر بیٹھ گئے ؟ کیا انھوں نے اُن خونی کمروں میں دوبارہ جاکر پڑھنے سے انکار کر دیا؟ہر گز نہیں، وہ والدین سے ضد کر کے، خطرات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے اسکول آئے،دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے اور اسی ادارے میں تعلیم جاری رکھنے کا عہد کیا۔

اِسی اسکول کے طلباء نے دہشت گردوں کوللکار کر کہا ’’ بچوں پر گولی چلاتے ہوئے تمہیں شرم آنی چاہیے‘‘انھی بہادر طلباء نے جلوس نکالااور تقریر یں کرتے ہوئے کہا ’’ او دہشت گردو ! تم نے اسلام کا جعلی لبادہ اوڑھا ہوا ہے ، مسلمانوں کے پیغمبر حضرت محمد ﷺ تو جنگ میں بھی بچوں اور عورتوں پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں دیتے تھے، تم ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ کے پیروکار نہیں تم ابو جہل اور ابو لہب کے پیرو کار ہو‘‘ اور کوئی کیسے بھول سکتا ہے کہ گولیوں سے زخمی ایک ننھے طالب علم نے ماتھے پر پٹی باندھی ہوئی تھی جس پر اس نے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا ؎

ہزار بار میں پیوندِ خاک ہو جاؤں
مرا وطن میرے پروردگار! زندہ رہے

کیا ان جذبوں کو بھلایا جا سکتا ہے ؟ کیا ان جذبوں کو اجاگر کرنے اور دنیا کو دکھانے کے لیے کوئی فلم نہیں بنائی جا سکتی ؟

کچھ اور بھی سن لیں ! اے پی ایس پر ہی حملے کے دوران برستی گولیوں میں جب طلباء اور اساتذہ جان بچانے کی کوشش میں ادھر اُدھربھاگ رہے تھے تو اسکول کی پرنسپل مسز طاہرہ قاضی ایک بار گیٹ پر پہنچ گئیں اور ان کے عزیز انھیں گاڑی میں بٹھا کر لے جانے لگے تو ان کے کانوں میں گولیوں کی آواز پڑی، اسکول کی سربراہ کو فرض نے پکارااور پھرمامتا نے جوش مارا تو یہ کہہ کر گاڑی سے نکل آئیں کہ””میرے بچوں پر گولیاں چل رہی ہوں اور میں اپنی جان بچا کر چلی جاؤں یہ نہیں ہوسکتا، میں پہلے اپنے بچوں کو بچاؤں گی‘‘ اور عینی شاہد بتاتے ہیں کہ وہ کلاس رومز کی طرف دوڑتی ہوئی گئیں، قاتلوں اور معصوم بچوں کے درمیان چٹان بنکر کھڑی ہوگئیں اور اپنے معصوم طلباء کو بچاتے ہوئے شہید ہو گئیں۔ عظیم معلمّہ نے اپنے خون سے لکھ کر دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان کی ٹیچر فرض کی ادائیگی میں کہاں تک جا سکتی ہے اور قربانی کے جذبوں سے سرشار اس دھرتی کی ماں آگ اور خون کے کتنے دریا عبور کر سکتی ہے۔

کیا یہ روح پرور واقعات کسی شرمین عبید کی فلم کا موضوع نہیں بن سکتے؟

چارسدہ یونیورسٹی کے پروفیسر حامدکی بہادری اور ہنگو کے طالب علم اعتزاز حسین کی قربانی کے واقعات بھی شرمین عبید چنائے کو inspire نہیں کرتے؟کچھ اوربھی سن لیں ! پشاور شہر کی انتہائی مصروف سڑک پر ضلع کچہری کے سامنے گیٹ پر پولیس کانسٹیبل فضل رحیم اپنی ڈیوٹی پر کھڑا تھا کہ اسے ایک مشکوک شخص کچہری کی طرف آتا ہوا نظر آیا، اس نے اسے رکنے کا اشارہ کیا ، مگر مشکوک شخص نے کانسٹیبل کو مخاطب کر کے کہا ’’یہ دیکھو میں نے خود کش جیکٹ پہن رکھی ہے ۔

میری تم سے کوئی دشمنی نہیں میرا ٹارگٹ کچہری ہے تم پیچھے ہٹ جاؤ اور اپنی جان بچاؤ ‘‘ فضل رحیم کو پتہ چل گیا کہ اس کے سامنے موت کھڑی ہے، وہ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ سکتا تھا، پیچھے ہٹ سکتا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اسے اپنے پیارے بچے یاد آئے ہونگے، بیوی کا چہرہ سامنے آیا ہوگا،بوڑھی ماں کا بھی خیال آیا ہوگا مگر فرض کی پکار، اپنے محافظ ہونے کا خیال اور دوسروں کی جانیں بچانے کا جذبہ ہر خیال پر غالب آیا اور اس نے دہشت گرد کو للکارا ’’ہینڈزاپ‘‘دہشت گرد نے اسے پھر اپنے آپ کو بچانے کا موقع دیتے ہوئے کہا ’’میرے سامنے سے ہٹ جاؤ میں موت ہوں‘‘ پولیس کانسٹیبل نے للکا ر کر جواب دیا ’’تم موت ہو اور میں محافظ ہوں، میں نے یہ وردی اپنے آپ کو نہیں دوسروں کو بچانے کے لیے پہن رکھی ہے۔

میں تمہیں کچہری میں موجود شہریوں تک نہیں پہنچنے دونگا !‘‘یہ کہہ کر حوالدار نے خود کش بمبار کو یعنی موت کو جپّھا ڈالابمبار نے جیکٹ کی پِن نکال لی ، دھماکا ہوا دہشت گرد جہنّم واصل ہوا اور قوم کے محافظ نے اپنی جان دیکر سیکڑوں شہریوں کی جانیں بچا لیں۔ کیا یہ بھی آپکی فلم کا موضوع نہیں بن سکتے؟ اگر آپ میرے وطن کے محافظوں کی شجاعت اور سرفروشی کی سچّی داستانیں دنیا کو سنانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو کچھ اور سن لیں !

رابعہ ایک مڈل کلاس کی پڑھی لکھی لڑکی تھی جسکی شادی ایک سرکاری ملازم سے ہو گئی، اسے اپنے جہیز میں ملی ہوئی جیولری اور امّی کی تیّار کردہ خوبصورت رضائیوں سے بہت پیار تھا، اگر گھر میںکوئی مہمان آ جاتا تو بھی رابعہ کی خواہش ہوتی کہ اس کی جہیز کی رضائی نہ نکالی جائے اور پرانی رضائیوں یا کمبلوں سے ہی کام چل جائے۔

اکتوبر 2005 کے قیامت خیز زلزلے نے ہزارہ ڈویژن اور آزاد کشمیر کے ہزاروں گھروں کو ملیا میٹ کر دیا، لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے، ہزاروں کی تعداد میں لوگ مکانوں کے ملبوں تلے دفن ہو گئے،ان میں اسکولوں کے معصوم بچّے بھی تھے۔ زلزلہ زدگان کی تصویروں اور کہانیوں نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ ملک کے کونے کونے سے نوجوان والنٹئیر متاثرین کی امداد کے لیے دوڑ پڑے، ہر شہر اور ہر قصبے میں ان کے لیے امدادی سامان اکھٹا ہونے لگا۔

زلزلے کے چند روز بعدرابعہ اپنے خاوند کے ساتھ میز پر کھانا کھانے بیٹھی تو اس کی اخبار پر نظر پڑ گئی۔ اخبار پڑھتے پڑھتے اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور وہ یہ کہہ کر میز سے اُٹھ گئی کہ’’ ہمارے بھائی اور بہنیں آسمان تلے پڑے ہیں وہ عرش سے فرش پر آگئے ہیں ، ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں اور ہماری میزیں کھانوں سے بھری ہوں یہ کتنی شرم کی بات ہے‘‘ پھر اس نے اپنے خاوند کو اُس بات پر قائل کیا جسکی اسے ھر گز توقع نہ تھی۔

علی الصبّح ایک قابلِ اعتبار جماعت کے ریلیف کیمپ کے سامنے ایک کار رُکی جس میں سے رابعہ اور اس کا خاوند قاسم باہر نکلے کار کے پیچھے ایک ٹرک آکر رُکا، قاسم نے کیمپ ورکر سے کہا ’’ میری بیگم زلزلے کے متاثرین کی مدد کے لیے رضائیاں اور جیولری دینا چاہتی ہیں‘‘۔ ورکر نے ٹرک دیکھ کر کہا ’’گھر کی ساری رضائیاں؟‘‘ اب قاسم سے پہلے رابعہ بولی ’’ہاں ! یہ میرے جہیز کی ساری رضائیاں ہیں ان کی ہم سے زیادہ ہمارے ان بھائی بہنوں کو ضرورت ہے جنکے پاس کچھ بھی نہیں بچا‘‘اس کے بعد جیولری دیکھ کر ورکر نے کہا’’ باجی ! آپ جیولری میں سے کچھ تو رکھ لیں‘‘ رابعہ یہ کہہ کر کار میں بیٹھ گئی’’ اِسوقت اس کے حقدار وہ ہیں میں نہیں، مجھے میرا خالق اور مالک اور دے دیگا‘‘۔

کوئی ہے جو فلم کے ذریعے وطنِ عزیز کے ان خوشنما پہلوؤں کو اجاگر کرکے اور دنیا کو پاکستان کے باشندوں کے ان بے مثال جذبوں اور کارناموںسے آگاہ کرے۔ وطن ِ عزیز کی محبّت میں کوئی ایسا کرے تو اسے آسکر ایوارڈ بیشک نہ ملے ہم اسے محمد علی جناح ؒ ایوارڈ دلائیں گے اور آسکر ایوارڈ سے زیادہ رقم انعام میں دیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ راقم خود بھی پشاور ، کوئٹہ، کراچی ، لاہور یا اسلام آباد کے کسی چوک پر جھولی پھیلا کر کھڑا ہو گیا تو ملک سے محبّت کرنے والے اس جھولی میں آسکر ایوارڈ سے کئی گنا زیادہ رقم ڈال دیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔