ہم کرایہ دار یا مالک

عبدالقادر حسن  بدھ 10 فروری 2016
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

خیبر پختونخوا کا صوبہ جہاں اپنی مکمل سیاسی حکومت کی وجہ سے خوش نصیب ہے وہاں اس کی سیاسی خوش نصیبی نے ایک پلٹا کھایا اور اس کا عالی مرتبت مثالی گورنر مستعفی ہو گیا۔ سردار مہتاب خان عباسی اس کے گورنر تھے جو اپریل 2014ء سے اس صوبے کو اپنی حکومت اور اقتدار کی لذت سے مستفید کر رہے تھے۔

ان کے اقتدار کے دوران ان سے مجھے ایک ملاقات کا شرف حاصل ہوا میں پشاور گیا تو ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دوران گفتگو انھوں نے اپنے اس بڑے گھر کے مین گیٹ یعنی کالی سلاخوں والے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس گیٹ کے دونوں حصوں کے کواڑوں کی تہہ میں مٹی جمی ہوئی ہے جو اپنا حال یوں بتاتی ہے کہ اسے کوئی چھیڑتا نہیں ہے اور اس کی تہوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ گیٹ کبھی بند نہیں ہوتا اور دن رات عوام کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔

گورنر ہاؤس کے اس گیٹ کے روایات کو پامال کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے انتظامیہ اس پر خوش نہیں ہے لیکن میں اس سے بہت خوش ہوں کیونکہ میں گورنر بن کر نہیں رہتا ایک پاکستانی بن کر رہتا ہوں جسے یہ ذمے داری سونپ دی گئی ہے۔ اس ملاقات میں گفتگو کے دوران گورنر نے مجھ سے کہا تھا کہ ہم پاکستانی اس ملک میں کرایہ دار بن کر رہتے ہیں مالک بن کر نہیں۔ ان کے گورنر ہاؤس کے مین گیٹ کے آہنی کواڑوں کی تہوں میں اتنی مٹی جمع نہیں ہوتی کہ وہ نہ بند ہو سکیں نہ کھل سکیں۔

یہ مٹی ان کو ایک ہی زاویے میں قید  کر دے اور ان کی حرکت پر پابندی لگا دے مگر یہ سب اب ہوتا ہے پہلے کبھی نہیں۔ گورنر ہاؤس گورنر ہاؤس ہوتا ہے۔ صوبے کا سب سے بارعب گھر جس کے بند دروازے اور اونچی دیواریں اپنے اندر اقتدار کی تلوار کو صیقل  کرتی رہتی ہیں۔ عوام کے لیے ایک وزیر اعلیٰ ہوتا ہے وہ ادھر آیا جایا کریں نہ کہ گورنر ہاؤس کی توقیر کو روندتے رہیں۔

عباسی صاحب کوئی 22 ماہ تک گورنر رہے اور اس دوران انھوں نے اس عہدے کی حاکمانہ روایات کو فائلوں میں بند ہی رکھا۔ گورنر ہاؤس کی عمارت ہر صوبے کے گورنر کی ہوا کرتی ہے ہمارے پنجاب کے گورنر کی بھی ایک عمارت ہے جس کے قریب سے گزرنا بھی احتیاط کا کام ہے اس کے دو گیٹ ہیں جو پولیس کے پہرے میں جکڑے رہتے ہیں کسی کی کیا مجال کہ وہ پہرہ داروں کی اجازت کے بغیر ان دروازوں کو انگلی بھی لگا سکے۔ لاہور کے گورنر ہاؤس کی وسیع و عریض عمارت کے در و دیوار ننگے تھے یعنی دیواروں کے سروں پر کوئی تکلف نہیں برتا گیا تھا۔

یہ عمارت اسی طرح سادہ دیواروں کی حفاظت میں زندگی بسر کرتی رہی تا آنکہ ہمارے سامنے اس گھر میں عوامی لوگوں کا اقتدار داخل ہو گیا۔ ہم نے کئی بار سنا کہ متوقع گورنر جناب مصطفیٰ کھر نے کہا ہے کہ وہ گورنر ہاؤس کے باہر کسی سبزہ زار پر اپنا تمبو گاڑ لیں گے جو ان کا گورنر ہاؤس ہو گا چنانچہ جب گورنری کے عہدے پر جناب کھر  صاحب فائز ہوئے تو ہم رپورٹر اس سبزہ زار کو تلاش کرتے رہے جو گورنر صاحب اپنے خیمے کے لیے پسند کریں گے لیکن کسی سبزہ زار میں تمبو تو کیا نصب ہونا تھا ان سادہ دیواروں پر جو نہ جانے کتنے برسوں سے اسی طرح چلی آ رہی تھیں ہم نے دیکھا کہ ان کی سادگی میں رنگ بھرا جا رہا ہے چنانچہ ان دیواروں پر لوہے کا جنگلہ لگ گیا اور ان کی حفاظتی طاقت میں مزید اضافہ ہو گیا۔

کھر صاحب کا گورنر ہاؤس پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گیا۔ یہ تو گورنر ہاؤس کی چار دیواری کی بات تھی اس عمارت کے اندر بھی بہت کچھ ہوتا رہا۔ یہاں ایک پہاڑی ہے جس پر ایک بیٹھک بنی ہوئی ہے۔ گورنر لوگ یہاں بھی بیٹھتے ہوں گے لیکن اس بیٹھک کو نیا عوامی انداز دے دیا گیا اور اس کے اندر ایسے آلات لگا دیے گئے جو گرمیوں میں یہاں سردی کے موسم کا سماں پیدا کر دیتے تھے اور مئی جون میں بھی یہاں سردیوں والا لباس پہنا جاتا تھا کیونکہ یہاں ان مصنوعی سردیوں میں ولایتی بوتل کھلتی تھی اسکاچ پر شام کی محفل گرم ہوتی تھی اور اگر سردی کا احساس پیدا ہوتا تو پھر یہ نشہ نہ جانے کتنا بڑھ جاتا تھا چنانچہ گورنر ہاؤس میں ایک سرد خانہ بنا دیا گیا جہاں عوامی حکومت کے تھکے ماندے حکمران اپنی تھکاوٹ دور کر سکتے تھے۔

باہر شدید گرمی اندر شدید سردی اور اس سردی میں ولایتی شراب یوں زندگی کا ایک دن مکمل ہو جاتا۔ یاد گار دن جو کسی بے مہار  اقتدار میں ہی مل سکتا تھا اور قدرت نے عوامی پارٹی کو اقتدار دے کر عوامی قیادت کی ہر شرط پوری کر دی تھی۔ حالات کی فیاضی کا آپ اندازہ کر لیں۔ میں آج بھی لاہور کا گورنر ہاؤس جب بھی دیکھتا ہوں تو مجھے پشاور کے گورنر ہاؤس کے اس مقیم جناب مہتاب عباسی کی یہ بات یاد آتی ہے کہ ہم اس ملک میں کرایہ دار بن کر رہتے ہیں مالک بن کر نہیں۔

میں جو لاہور شہر کا ایک مستقل کرایہ دار ہوں خوب جانتا ہوں کہ کرایہ دار کون ہوتا ہے۔ میں جس مکان میں کرایہ دار بن کر اترتا ہوں وہاں سب سے پہلے غسل خانہ دیکھتا ہوں اور اس میں پانی کی سپلائی جب کہ خواتین باورچی خانہ اور اس کی ٹوٹیوں میں پانی کی آمد ۔ پانی کی سپلائی میں خرابی مالک مکان کا پہلا فرض ہوتا ہے کہ اسے دور کرے۔ اب میں چونکہ ایک تجربہ کار کرایہ دار بن چکا ہوں اس لیے کسی مکان کی ضروریات پوری کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور مالک مکان اس سے انکار نہیں کر سکتا چنانچہ پہلے تو میں ضروریات کا جائزہ لیتا ہوں پھر ان کو پورا کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔

مالک مکان کو ان کا مجھ سے زیادہ پتہ ہوتا ہے چنانچہ وہ انھیں پورا کر دیتا ہے تا کہ اسے کرایہ وصول کرنے میں کوئی دقت نہ ہو۔ بطور کرایہ دار میری شہرت اچھی ہے ویسے مشہور یہ ہے کہ اخبار نویس اور وکیل کو مکان کرایہ پر نہ دو لیکن اس اخبار نویس نے کبھی کسی مالک مکان کو شکایت کا موقع نہیں دیا بلکہ ایک مالک مکان نے تو مجھے شکریے کا خط بھی لکھا کہ میں نے کرایہ بھی پورا ادا کر دیا اور اس کے کہنے پر مکان بھی خالی کر دیا۔

میں نے یہ خط سنبھال کر رکھ لیا ہے کہ کسی غلط قسم کے مالک مکان سے واسطہ پڑ گیا تو اسے قائل کرنے میں یہ خط بہت مدد گار ہو گا ویسے کئی احباب نے یہ خط اور مکان دیکھ کر مجھے احمق ہونے کا خط لکھا ہے کیونکہ یہ مکان خالی کرنے والا نہیں تھا بلکہ اس پر تو تاحیات قبضہ کرنا تھا لاہور شہر میں ایک پہاڑی کے سامنے کھلی سڑک پر یہ کھلا مکان کسی خوش ذوق ہندو کا تھا جسے بعد میں ایک خان افسر نے اپنی برادری کے ایک خاندان کو مستقل الاٹ کر دیا۔ لاہور میں کرایہ داری اور مالکان مکان کے بارے میں مجھے ایک کالم ضرور لکھنا چاہیے جو میرے جیسے کرایہ دار لاہوریوں کے لیے رہنمائی کا کام کرتا رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔