لیاری گینگ وار

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 10 فروری 2016
tauceeph@gmail.com

[email protected]

سندھ کی سیاست میں بھونچال آگیا ‘رینجرز نے ایک سال بعد عزیر بلوچ کی گرفتاری ظاہرکردی‘ جس کا براہ راست تعلق پیپلز پارٹی کی قیادت سے جوڑا جا رہا تھا، جس کی وجہ سے سندھ حکومت، وفاق سے مفاہمت پر تیار ہوئی اور رینجرز اختیارات کے نوٹیفیکیشن پراتفاق ہوگیا۔ لیاری کی خانہ جنگی کی تاریخ بہت قدیم ہے‘ یہ لڑائی گزشتہ صدی کے آخر میں شروع ہوئی۔

لیاری کی آبادی  کے ایک بڑے حصے کا تعلق بلوچستان اور ایرانی بلوچستان سے ہے، بلوچستان میں چلنے والی ہر تحریک کا مرکز لیاری رہا ہے ، مگر 2000 سے بلوچستان میں چلنے والی قوم پرست تحریک کو لیاری میں جگہ نہ ملی اور یہ سب کچھ گینگ وارکی وجہ سے ہوا ‘ یہ گینگ وارکیسے شروع ہوئی اس کی کوئی واضح تاریخ تو نہیں مگرگینگ وار میں ملوث ایک گروہ نے جب رحمن ڈکیت کی قیادت میں لیاری پر قبضہ کرنا چاہا تو رحمن ڈکیت کے ایک سابق معاون کے علیحدہ گروہ بنانے کے بعد اس جنگ میں تیزی آگئی‘ یہ کہا جانے لگا تھا کہ اس گینگ وارکے خاتمے کے بجائے ایک گروپ کی سرپرستی شروع کردی گئی ۔

اس طرح خانہ جنگی میں شدت آگئی‘ اغوا برائے تاوان‘ بھتہ‘ ٹارگٹ کلنگ اور دیگر جرائم کم نہ ہوسکے‘ پیپلز پارٹی کے قائدین نے اس صورتحال کی سنگینی کا احساس نہیں کیااور مزاحمت کرنے کے بجائے گینگ وارکے کارندوں سے مفاہمت کی پالیسی اختیار کی‘ یوں یہ مجرم‘ سیاسی میدان میں داخل ہوگئے‘ ان لوگوں کو معتبر سمجھا جانے لگا۔

گینگ وار نے لیاری کی سیاسی‘ معاشی‘ سماجی صورتحال کو بری طرح متاثر کیا‘ سیاسی سرگرمیاں تھم گئیں‘ سیاسی کارکن یا تو لیاری چھوڑنے پر مجبور ہوگئے‘ یا گوشہ نشین ہوگئے‘ اس طرح کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں جن میں سرفہرست روزانہ شام کو ہونے والے فٹ بال کے مقابلوں کی رونق ختم ہوئی۔ فلم‘ تھیٹر سمیت ہر قسم کی ثقافتی سرگرمیاں اس جنگ کی نذر ہوئیں‘ اقتصادی ترقی رکی، لیاری  میں قائم قومی بینکوں کی شاخیں  دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئیں‘ کاروباری حضرات بھتے کی پرچیوں اور اغوا برائے تاوان کی دھمکیوں کے بعد کاروبار بند کرنے پر مجبور ہوگئے۔

بھتہ نہ دینے پر کلاشنکوف کی گولیوں کا نشانہ بننے کے خوف کی وجہ سے شہر کے مختلف علاقوں کا رخ کیا‘ کاروبارکے لیے آنے والوں نے یہاں کا راستہ چھوڑ دیا ‘ جھٹ پٹ مارکیٹ‘ ایران ‘ افغانستان اور دوسرے ممالک کے سامان کا مرکز ہوتی تھی‘ مگر آئے روز فائرنگ کے بعد گاہکوں کے لیے اس مارکیٹ میں دلچسپی ختم ہوگئی‘ اس صورتحال کے باعث جائیدادوں کی قیمتیں گرگئیں‘ لوگ کم قیمت پر اپنے مکانات اوردکانیں فروخت کرنے پر مجبورہوئے‘ گینگ وار کے گروہوں نے لیاری سے متصل علاقوں میں لوٹ مار‘ بھتہ اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں شروع کردیں۔

اس صورتحال کا براہ راست نشانہ شیر شاہ کی کباڑی مارکیٹ بنی‘ جہاں بھتہ نہ دینے پرکئی دکانداروں کو قتل کیا گیا‘ صرافہ بازار اور اطراف کی مارکیٹیں بھی ان کے دائرہ اثر میں آگئیں‘ اسی دوران ایک گروہ کا سرغنہ رحمن ڈکیت ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ساتھیوں سمیت مارا گیا ‘ اس پولیس مقابلے کے نگران ایس پی چوہدری اسلم( مرحوم) تھے‘ لیاری میں رحمن ڈکیت کے لیے ہمدردی کے جذبات تھے اورکہا جاتا تھا کہ رحمن ڈکیت اور اس کے ساتھی نوجوانوں نے بینظیر بھٹوکی کراچی آمد پر شاہراہ فیصل پر ان کے حفاظتی دستے کے فرائض انجام دیے تھے‘ اورکارساز پر خودکش حملے کے بعداس دستے نے بینظیر بھٹو کو اپنی حفاظت میں بلاول ہاؤس منتقل کیا تھا۔

لیاری جنرل اسپتال کا ایک سابق وارڈ بوائے عزیر بلوچ رحمن ڈکیت کا جانشین قرار پایا اور عزیر نے سردارکا خطاب اپنے نام کے ساتھ منسوب کیا ‘ سردار عزیر بلوچ کے مضبوط ہونے کے بعد لیاری میں نئی تبدیلیاں نظر آنے لگیں‘ پہلی دفعہ لیاری میں مذہبی انتہا پسندوں کی کمین گاہیں قائم ہوئیں‘کراچی میں بعض عبادت گاہوں پر خودکش حملہ کرنے والے نوجوانوں کا تعلق لیاری سے ظاہر ہوا ‘اس دوران صوبائی وزیرداخلہ ذوالفقار مرزا کا کردار ابھرکر سامنے آیا‘ اب لیاری امن کمیٹی کے نام سے ایک الگ جماعت قائم ہوئی‘ لیاری امن کمیٹی کے عہدیداروں کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔

اس امن کمیٹی نے ایم کیو ایم کے خلاف ایک نئی جنگ شروع کردی‘ یہ جنگ اس وقت کے صدرآصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی کے سراسر خلاف تھی‘ امن کمیٹی اور ایم کیو ایم کے جھگڑے کے باعث مہاجر بلوچ فساد برپا کرنے کی کوشش کی گئی‘ یہ کوئی حقیقی فساد نہیں تھا‘ مگر اس جھگڑے نے اردو اور بلوچی بولنے والے بہت سے نوجوانوں کی جانیں لے لیں اور اب امن کمیٹی کے  کارکنوں کا دائرہ پورے شہر میں پھیل گیا‘ شہر بھر سے مختلف لوگوں کو اغوا کرکے لیاری لایا جاتا اور بھاری تاوان کے عوض ان کو چھوڑ دیا جاتا‘ یہ وہ وقت تھا جب بلوچستان میں اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بدامنی کا دور شروع ہوا ‘ مگر ماضی کے برعکس لیاری اس صورتحال میں خاموش رہا‘ اس لڑائی نے لیاری کے عوام کی زندگیوں پر منفی اثرات ڈالے۔

لیاری میں پولیس اور رینجرز کا آپریشن ہوا ‘ امن کمیٹی پر پابندی لگی‘ اس کے ایک رہنما حبیب جان فرار ہوکر لندن چلے گئے‘ باقی کو پیپلز پارٹی نے جماعت سے نکال دیا ‘کراچی آپریشن کی بنا پر لیاری میں امن قائم ہوا ہے‘ عزیر بلوچ‘ بابا لاڈلہ سمیت کئی افراد دبئی فرار ہوئے‘ عزیر بلوچ کی گرفتاری کی خبریں آنا شروع ہوگئیں‘ عزیر بلوچ کو حکومت سندھ واپس نہ لا سکی‘ مگرایجنسیوں نے عزیر کو پاکستان منتقل کرکے سیف ہاؤس میں محفوظ کردیا تھا ۔

رینجرز کے اختیارات میں اضافے کے نوٹیفکیشن کے جھگڑے کی بنیاد پر گرفتاری ظاہر کی گئی‘ عزیرکو عدالت میں پیش کیا گیا اور اس کے مبینہ بیانات کے فوٹیجز نجی ٹی چینلز پر چلنے لگیں‘ ان فوٹیجز کے جواب میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے بیانات کا شور مچ گیا‘ مگر اس حقیقت کو نظر اندازکیا گیا کہ عزیرکے صرف پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں سے تعلقات نہیں تھے اور بھی اہم افراد اس کی سرپرستی کرتے تھے۔

ماہی گیروں کو متحرک کرنے پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کی کوششوں میں اہم کردار ادا کرنے والے سعید بلوچ اور ان کے تین ساتھیوں کو گینگ وار میں ملوث گروپ سے منسلک کرنے سے کئی سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ سعید بلوچ نوجوانی سے ترقی پسند تحریک سے منسلک ہوئے انھوں نے مزدوروں اور ماہی گیروں کے حالات کار بہتر بنانے، خطے کے ممالک کی مزدوروں کی تنظیموں میں اشتراک پیدا کرنے اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف رائے عامہ ہموارکرنے کی تحریکوں میں بنیادی کردار ادا کیا ۔ سعید بلوچ سابق آمر صدر پرویز مشرف کے کے خلاف چلنے والی وکلاء تحریک میں متحرک رہے۔

ہمیشہ جمہوری تحریکوں سے منسلک رہے اور عدم تشدد کو اپنی زندگی کا محور بنالیا ۔ اب عزیز بلوچ کی ایک سال بعد گرفتاری ظاہر ہونے پر سعید بلوچ کو مقدمات میں ملوث کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ معاملات کسی اور طرف اشارہ کررہے ہیں ۔ عزیر بلوچ ایک کرمنل ہے ، اس کی سرپرستی کس نے کی اورکن مقاصد کے لیے کی ، اس معاملے پر یہ اہم باتیں ہیں۔ عزیر بلوچ کی گرفتاری کے بعد اب لیاری سے ہر قسم کے کرمنل کا خاتمہ ضروری ہے ،تاکہ لیاری کے عوام پُر سکون ماحول میں زندگی گزارسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔