- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- وزیر اعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو کر دی
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
ڈیٹا سینٹرز کی زیرِ آب منتقلی
فیس بُک، ٹویٹر، یا جی میل اور یاہو میل میں موجود ہمارا ڈیٹا ان کی مالک کمپنیز کے سرورز میں محفوظ ہورہا ہوتا ہے۔ مائکرو سوفٹ، گوگل، فیس بُک جیسی کمپنیاں جن کے صارفین کی تعداد کروڑوں بلکہ اربوں میں ہے، ان کی تمام معلومات وسیع و عریض ڈیٹا سینٹرز میں موجود ان گنت سرورز میں محفوظ ہوتی ہیں۔
بہ الفاظ دیگر ڈیٹا سینٹرز ان کمپنیوں کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ ان میں ذرا سی گڑبڑ ہونے کی صورت میں صارفین کو مہیا کی جانے والی مختلف سروسز متاثرہوسکتی ہے۔ دنیائے انٹرنیٹ کی بڑی کمپنیوں نے اپنے صارفین کے ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے لیے وسیع و عریض عمارتیں قائم کی ہیں، جنہیں ڈیٹا سینٹرز کہا جاتا ہے، مگر اب مائکرو سوفٹ ایسے ڈیٹا سینٹرز کو زیرآب منتقل کرنا چاہتی ہے۔
بل گیٹس کی کمپنی ان دنوں ڈیٹا سینٹر کے ماڈل یا پروٹوٹائپ کی آزمائش کررہی ہے جو سطح سمندر سے کئی سو فٹ کی گہرائی میں رہتے ہوئے کام کرسکتے ہیں۔ اس منصوبے کو ’’پروجیکٹ نیٹک‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت چار ماہ کے عرصے میں آٹھ فٹ قطر کا حامل ایک خصوصی ڈیٹا سینٹر بنایا گیا جسے ایک فولادی کیپسول میں محفوظ کیا گیا تھا۔ اس ’کیپسول‘ کو کیلیفورنیا کے ساحل سے تھوڑی دور تیس فٹ کی گہرائی میں رکھا گیا ہے۔
مائکروسوفٹ کا دعویٰ ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب کوئی ڈیٹا سینٹر زیرآب پہنچایا گیا ہے۔ کیپسول کے اوپر ایک سو مختلف سینسرز بھی نصب کیے گئے ہیں جو دباؤ، اندرونی فضا میں نمی اور دیگر عوامل کی نشان دہی کریں گے۔ کیپسول نما ڈیٹا سینٹر فعال رہنے کے لیے 300 ڈیسک ٹاپ کمپیوٹروں کے مساوی توانائی خرچ کرتا ہے۔ انجنیئروں نے اس ڈیٹا سینٹر کی کام یاب آزمائش کی، اور مائکروسوفٹ کی کلاؤڈ کمپیوٹنگ سروس کے ذریعے اس پر کمرشل ڈیٹا پروسیسنگ پروجیکٹس چلائے۔
کام یاب آزمائش کے بعد مائکروسوفٹ نے زیرآب کام کرنے والے ڈیٹا سینٹر ڈیزائن کرنے پر کام کا آغاز کردیا ہے۔ ان کی جسامت آزمائشی ڈیٹا سینٹر سے آٹھ گنا زیادہ ہوگی۔
مائکروسوفٹ کا دعویٰ ہے کہ ڈیٹا سینٹرز کے زیرسمندر منتقل ہونے سے نہ صرف انٹرنیٹ کی رفتا میں اضافہ ہوگا بلکہ ان سے جُڑے کئی مسائل بھی حل ہوجائیں گے، جن میں سرفہرست کُولنگ ہے۔ ڈیٹا سینٹرز میں چلنے والے سرورز گرمائش خارج کرتے ہیں۔ انھیں ٹھنڈا رکھنے کے لیے کولنگ سسٹم لازمی ہے جس کی تنصیب اور اسے فعال رکھنے پر کثیر لاگت آتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ بڑی مقدار میں بجلی بھی خرچ کرتے ہیں۔
سمندری پانی ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے ڈیٹا سینٹرز کے لیے اضافی کولنگ سسٹم کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ چناں چہ کولنگ سسٹم کی تنصیب اور اسے فعال رکھنے پر آنے والے اخراجات نیز توانائی کی بچت ہوگی۔ علاوہ ازیں سمندری لہروں کی ماحرکیاتی توانائی ( یا ہائیڈروکائنیٹک انرجی ) کا کمپیوٹنگ پاور کے لیے استعمال بھی ڈیٹا سینٹرز میں توانائی یا بجلی کی کھپت محدود کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زیرآب ڈیٹا سینٹرز کو موجودہ ذرائع سے بجلی کی طلب باقی نہیں رہے گی۔ انھیں سمندری لہروں کی حرکت سے بجلی بنانے کا نظام فعال رکھے گا۔
دنیا کی نصف آبادی ساحل سمندر سے 120 میل کے علاقے میں بستی ہے۔ ساحل سمندر کے قریب ڈیٹا سینٹرز کی موجودگی سے ڈیٹاسینٹرز اور صارفین کے درمیان فاصلہ کم ہوجائے گا چناں چہ انھیں تیزرفتار انٹرنیٹ دست یاب ہوسکے گا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔