باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

سعد اللہ جان برق  جمعرات 11 فروری 2016
barq@email.com

[email protected]

موت کے بارے میں اگرچہ ادیان عالم اور دانیان جہان نے ایسا بہت کچھ کہا ہوا ہے کہ جس سے موت کا خوف کچھ کم ہو جائے کسی نے اسے محض ایک تبدیلی سے تعبیر کیا ہے کسی نے انسانی روح کا روح اعلیٰ سے ملاپ کا نام دیا ہے کسی نے اسے منزل کہا ہے کہ

اس گزر گاہ سے پہنچیں تو کہیں منزل تک
جو بھی گزرے گی گزاریں گے گزرنے والے

مطلب یہ کہ موت ایک بہت بڑا موضوع رہا ہے اور ان سب کہا سنی کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اس عظیم الشان ڈر اور خوف بلکہ ابوالہول کی دہشت کم کی جائے کیونکہ جس بلا سے نجات ناممکن ہو وہ ہو ہی جائے کیوں کہ کسی حادثے سے زیادہ اس کا ڈر بہت ہی جان لیوا ہوتا ہے، لیکن ان سب اقوال اور فلسفوں کے باوجود موت بہرحال ایک تلخ بہت ہی تلخ حقیقت ہے نہ صرف اس گزر گاہ سے گزرنے والوں کے لیے بلکہ اس سے تعلق رکھنے والے ان تمام لوگوں کے لیے جو اس سے کسی نہ کسی قسم کا تعلق اور رشتہ رکھتے ہوں جو جاتے ہیں وہ یہ کہہ کر دل کو تسلی دے لیتے ہیں کہ

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

ایک لحاظ سے یہ درست بھی ہے کیونکہ تصوف کے نقطہ نظر سے یہ دنیا میں جو کچھ بھی ہے اسی ایک وجود کی کثرت ہے اور موت اس کثرت کا وحدت کی طرف سفر ہے یا دوسرے الفاظ میں فصل کا وصل میں بدلنا ہے، دریا جب سمندر میں اترتا ہے تو دریا کا وجود باقی نہیں رہتا ہے یا یوں کہئے کہ دریا کو سمندر میں اترنے کے لیے اپنا وجود قربان کرنا پڑتا ہے

بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا

لیکن بقول غالب یہ سب دل کو خوش رکھنے کے خیال ہیں ورنہ موت سے کون ہے جو نہیں ڈرتا کیوں کہ تمام ڈروں اور خوفوں کا نقطہ عروج یہی ڈر ہی ہے اس لیے کہا ہے کہ ڈر ہر کسی کو لگتا ہے لیکن کوئی ظاہر کرتا ہے اور کوئی ظاہر نہیں کرتا، جناب انتظار حسین بھی اس راہ پر ہوئے جس پر بقول انشاء اللہ خان انشاء

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

ہم نہیں جانتے کہ جناب انتظار حسین کی وفات پر کس کس کے اوپر کیا کیا اثرات پڑے ہوں گے اور کس کس نے کیسا کیسا محسوس کیا ہو گا لیکن ہمارا دکھ سب سے الگ قسم کا ہے، حالانکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جس نے دنیا میں پہلی سانس لی وہ آخری سانس ہی کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے جس نے زندگی کے راستے پر پہلا قدم اٹھایا وہ آخری قدم تک بھی پہنچے گا اسی لیے تو سعدی ؒ نے فرمایا ہے

خیرے کن اے فلاں و غنیمت شمار عمر
زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند

یعنی بھلائی کر اور فرصت عمر کو غنیمت جان اس سے پہلے کہ یہ آواز آئے کہ فلاں نہیں رہا، اس لحاظ سے انتظار حسین جیسے لوگ کامیاب اور قابل ستائش ٹھہرتے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد بھی ان کی بھلائی ان کا کام اور ان کا نام باقی رہتا ہے۔ جانا تو ہر کسی کو ہوتا ہے، ویسے تو یہ دور کچھ عجیب بلکہ انتہائی غریب سا دور ہے کہ جس میں اہل قلم اور اہل حرف کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور داناؤں نے اسے سب سے بڑا المیہ قرار دیا ہے کہ بدنصیب ہوتی ہے وہ قوم جس میں اہل قلم و حرف کو لوگ نظر انداز کرنے لگتے ہیں لیکن پھر بھی ابھی ہماری بدنصیبی میں تھوڑی بہت کسر باقی ہے کہ تھوڑے ہی سہی لیکن پھر بھی کچھ لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو اہل قلم و حرف کی قدر کرتے ہیں اور جب تک ایسے لوگ باقی رہیں گے جناب انتظار حسین جیسے لوگ مر تو جائیں گے لیکن مٹیں گے نہیں کیوں کہ

ہر گز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
(وہ ہر گز نہیں مرتا جس کا دل عشق سے زندہ ہو، گویا دنیا کے جریدے پر ہمارا نام ثبت ہو گیا ہے)

مرنے کے بعد بھی زندہ رہنے والے لوگ بڑی تیزی سے کم ہوتے چلے جا رہے ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ جس رفتار سے بڑے لوگ کم ہوتے چلے جا رہے ہیں اسی رفتار سے ’’بن‘‘ نہیں رہے ہیں، کیونکہ بڑا بننے کے جو راستے آج کل زیادہ مروج اور مقبول ہیں ان میں صرف بونے ہی پیدا ہو سکتے ہیں یا چڑھتے ڈھلتے سورج کے وقت کی پرچھائیاں جن کی لمبائی اور بڑائی کسی ’’سورج‘‘ کی رہین منت ہوتی ہے اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ

جہل خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے

خیر یہ تو ایک ایسا المیہ ہے جس پر کسی کا زور نہیں چلتا، لیکن ایسے دور میں یہ بھی ہو جاتا ہے کہ بڑے لوگوں کی جدائی اور بھی زیادہ کھلنے لگتی ہے، کسی کے پاس دولت بے شمار ہو تو خرچنے میں اسے کوئی خاص احساس زیاں نہیں ہوتا لیکن جس کی جیب میں صرف ’’چند‘‘ ہی باقی رہ گئے ہوں وہ ایک ایک پیسہ جانے پر بھی بہت زیادہ دکھ محسوس کرتا ہے یہی حال ہمارا بھی ہے، ہم اپنے ذاتی نقصان کی بات اس لیے کر رہے ہیں کہ اب کہیں جا کر کچھ بڑے لوگوں کی صبحت نصیب ہوئی تھی، ان سے ملاقاتیں تو ایک دو ہوئی تھیں وہ بھی ملاقاتیں کم اور ’’دور دور نظارہ کیجیے‘‘ کا مفہوم زیادہ رکھتی ہیں چند تقریبات میں سرسری مصافحے اور سلام دعا کو ملاقات تو نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ جو ایکسپریس میں ان کا پڑوس نصیب ہوا تھا اس سے ہمیں بڑی خوشی ہوئی تھی۔ کسی پسندیدہ شخص کی ہمسائیگی کا فخر بھی تو کچھ کم نہیں ہوتا، ویسے تو ایکسپریس کے سارے کالم نگار ہمسایہ ہونے کے ناطے ہمیں عزیز ہیں لیکن ان تین بزرگوں کا ’’سایہ‘‘ پا کر ہم دھنئے ہو گئے تھے وہ جو کسی نے کہا ہے کہ

کہاں ہم اور کہاں یہ مقام اللہ

جناب حمید اختر مرحوم، جناب انتظار حسین اور خدا تادیر زندہ و سلامت رکھے عبدالقادر حسن، تو ہمارے لیے بہت بڑے فخر تھے کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ ہم کیا ہیں ایک دور دراز گاؤں کے پینڈو وہ بھی پختون اور اسے میسر آئے اتنے بڑے بڑے چھتنار اور سایہ دار بلکہ (ثمر دار بھی) پیڑوں کی ہمسائیگی، یعنی ہم بھی کسی شمار و قطار میں آ گئے تھے ہماری تو یہ آرزو تھی کہ

یارب اندر کنف سایہ آں سرو بلند
گرمن سوختہ یک دم بنشینم چہ شود

یوں کہئے کہ ہم مٹی کا وہ ٹکڑا تھے جو شیخ سعدی ؒ کو حمام میں ایک محبوب کے ہاتھ سے ملا تھا اور اس ٹکڑے کی خوشبو پا کر شیخ سعدی ؒ نے پوچھا کہ تم مشک ہو یا عنبر، اور مٹی کے ٹکڑے نے جواب دیا تھا یہ مٹی کا ٹکڑا آپ ہمیں فرض کر لیں کہ

بگفتا من گِل ناچیز بودم
ولے یک مرتے باگل نشینم
کمال یار من در من اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم

(کہا کہ میں ہوں تو وہی ناچیز مٹی، لیکن ایک مرتبہ ایک پھول کے ساتھ نشست ہوگئی، اور یوں اس پھول کی خوشبو مجھ میں بھی آ گئی، وگرنہ میں تو سر بہ سر مٹی ہی ہوں)

لیکن لگتا ہے ہماری قسمت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے کہ پہلے حمید اختر صاحب کا سایہ رخصت ہو گیا اور اب انتظار حسین صاحب کی گھنی چھاؤں نہیں رہی، خدا جناب عبدالقادر حسن کو طویل عمر اور ہمیں ان کی رفاقت نصب کرے، رہے مرحوم انتظار حسین تو اگرچہ یہ صحبت مختصر رہی لیکن ہمارا قیمتی سرمایہ ہے

حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد
روئے گل سیر نہ دیدم کہ بہار آخر شد

(افسوس کہ یار کی صحبت پلک جھپکنے میں ختم ہو گئی، ابھی پھولوں کا چہرہ بھی نہ دیکھ سکا کہ بہار ختم ہو گئی)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔