دَرگُزَر، اعلیٰ ظرف کی پہچان

خواجہ وجاہت صدیقی  جمعـء 12 فروری 2016
غلطی یا زیادتی کا مرتکب شخص زمین کی مانند ہے اور معاف کرنے والا مالی کی مانند۔ :فوٹو : فائل

غلطی یا زیادتی کا مرتکب شخص زمین کی مانند ہے اور معاف کرنے والا مالی کی مانند۔ :فوٹو : فائل

پیارے نبی اکرم ؐ نے فرمایا ’’ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے ترکِ تعلق رکھے، دونوں باہم ملیں تو یہ اس سے منہ موڑے وہ اس سے منہ موڑے۔ ان دونوں میں سے بہتر وہ شخص ہے، جو صلح میں پہل کر ے۔‘‘

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ’’جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔‘‘

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ’’ جو آدمی نرمی اختیار کر نے سے محروم رہا، وہ آدمی بھلائی سے محروم رہا۔‘‘

آج ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم درگزر کرنا بُھول چکے ہیں اور دوسروں کو بُرا کہنے یا سمجھنے میں بالکل بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ دراصل برائی کسی دوسرے شخص میں نہیں، ہماری نظر اور سوچ میں ہوتی ہے۔

جب کوئی شخص ہمارے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے، تو ہم اسے معاف کرنے کے بجائے اس کی ایک بھیانک تصویر معاشرے میں پیش کرتے ہیں۔ اور خود کو غلطیوں سے پاک تصور کر تے ہیں۔ اگر کوئی شخص غلطی کا مرتکب ہوا ہو تو اسے معاف کرکے ہم اپنا مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔

جب کہ غلطی کے مرتکب شخص کو معاف نہ کرنے سے معاشرے میں انتشار پھیلتا ہے۔ حالاں کہ کسی کی برائی پر پردہ ڈالنا اور اس کی انفرادی زیادتی کو معاف کردینا، اس کی برائی کو بیان کر نے اور انتقام لینے سے زیادہ آسان ہے، لیکن ہم ایسا کرنا نہیں چاہتے۔ کیوں کہ نفس اور شیطان کی چالوں میں پھنس کر ہم وہی غلط کام یعنی معاف نہ کر نا کررہے ہو تے ہیں، جو دوسری طرف غلطی یا زیادتی کا مرتکب شخص کرتا ہے۔ اس سے اچھے اور برے کا فرق مٹ جاتا ہے۔

غلطی یا زیادتی کا مرتکب شخص زمین کی مانند ہے اور معاف کرنے والا مالی کی مانند۔ چاہے زمین کتنی ہی زرخیز کیوں نہ ہو، اگر مالی اس میں پھل دار درخت نہ لگائے، وقت پر پودوں کی آب یاری نہ کر ے، ضرورت کے مطابق کانٹ چھانٹ نہ کر ے تو وہ درخت یا پودا پروان نہیں چڑھتا اور نہ ہی تن آور ہوکر پھل لاتا ہے۔ کیوںکہ اس کی بڑھوتری دیکھ بھال کرنے پر منحصر ہے۔

دیکھ بھال نہ ہو تو پھل دا ر درخت بھی خود رو جھاڑیوں کی طرح حالات کے رحم و کرم پر ہوتا۔ چاہے اسے کوئی کاٹ ڈالے یا جانور چر جائیں۔ یہی معاملہ انفرادی غلطی یا زیادتی کرنے والے اور معاف کرنے والے کے درمیان بھی موجود ہے۔ غلطی یا زیادتی کرنے والوں کی آب یاری جب معاف کر نے والوں کے ہاتھوں ہوتی ہے تو وہ معاشرے میں اعلیٰ اوصاف اور اچھی روایات کے امین ثابت ہو تے ہیں۔

ان سے امن، سلامتی اور خیر کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں اور وہ عالمِ انسانیت کے لیے خیر بن جاتے ہیں۔

زیادتی کے مرتکب شخص اور معاف کر نے والے کی مثال پنجرے اور اس میں بند پرندے کی سی ہے۔ سونے کے پنجرے میں بند پرندے کو وقت پر صحیح اور اچھی خوراک اور پانی نہ دیا جائے تو پرندہ چند گھنٹوں میں بے جان ہوکر مردہ ہوجائے گا اور اس کا تعلق پنجرے سے ختم ہو جائے گا۔ یعنی اس مردہ پرندے کو باہر نکال کر پھینکنا پڑے گا۔

بالکل اسی طرح غلطی کر نے والے کو جب معاف نہ کیا جائے اور اس کی بری تصویر معاشرے میں پیش کی جائے، تو محبت، امن، بھائی چارے اور انسانیت کی موت یقینی ہوجاتی ہے، جو جسم کی موت سے زیادہ خطرناک ہے۔ کیوں کہ جسم کی موت سے زیادہ سے زیادہ انسان مر جاتا ہے۔ لیکن اگر روح زندہ ہو، اور ایمان اور یقین کے ساتھ زندہ ہو تو جہنم کا ایندھن نہیں بنتا۔

اگر روح کی موت واقع ہوکر مردہ ہو جائے اور ایمان اور یقین کی دولت سے خالی ہو تو ہمیشہ کی زندگی جہنم کا ایندھن بن جاتی ہے، جو بہت اذیت ناک اور خطرناک ہے۔ یاد رکھیے روح کی غذا حقوق اﷲ اور حقوق العباد ہیں اور کسی کی انفرادی زیادتی جس سے پورا سماج متاثر نہ ہو کو معاف کردینا بھی بندوں کے حقوق میں سے ہے۔ اور یہ حقوق پورے کر نے والا ہی اﷲ کا دوست ہے اور یہ وہ لوگ ہیں، جنہیں نہ خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہو ں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔