خرم کی ’’ بیک ڈور انٹری‘‘ کیسے ہوئی؟

سلیم خالق  جمعـء 12 فروری 2016
خرم کے ٹیلنٹ پر کسی کو شک نہیں مگر اچانک انھیں ٹیم میں شامل کرنا غلط فیصلہ ہے۔ فوٹو: فائل

خرم کے ٹیلنٹ پر کسی کو شک نہیں مگر اچانک انھیں ٹیم میں شامل کرنا غلط فیصلہ ہے۔ فوٹو: فائل

سلیکٹرز نے قومی راز کی طرح جس فہرست کو سینے سے لگا کر چھپائے رکھا آخرکار اس کا اب اعلان کر ہی دیا، نجانے اس میں کیا ایسی بات تھی جس کیلیے ہارون رشید کئی روز تک انتظار کرتے رہے،حالیہ مایوس کن کارکردگی کے بعد احمد شہزاد،صہیب مقصود اور عمر گل کے اخراج کا جاننے کیلیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں تھی،10 سال کا بچہ بھی یہ بتا سکتا تھا۔

اس بار دبئی کا دورہ کرنے کیلیے سلیکٹرز کو کوئی بہانہ بھی نہیں چاہیے تھا، پی سی بی نے ہارون رشید کو پی ایس ایل ٹیکنیکل کمیٹی کا سربراہ بنا کر ویسے ہی بھیج دیا تھا،اگر ایونٹ میں کارکردگی کی بنیاد پر قومی اسکواڈ منتخب کرنا تھا تو احمد شہزاد کو ایک اچھی اننگز کے بعد ڈراپ نہ کیا جاتا، بابر اعظم دورئہ نیوزی لینڈ میں عمدہ بیٹنگ کے بعد ویسے ہی سب کی نظروں میں تھے۔

رومان رئیس نے ایونٹ کے تین میچز میں اسلام آباد یونائٹیڈ کیلیے محض 2 وکٹیں لیں مگر خاصے کفایتی ثابت ہوئے اور اپنی لیفٹ آرم بولنگ سے شائقین کو متاثر کیا، وہ اس سے قبل انگلینڈ لائنز سے سیریز میں پاکستان اے کی جانب سے اچھا کھیل پیش کر چکے تھے اس لیے انتخاب پی ایس ایل کی مرہون منت قرار نہیں دیا جا سکتا،اسی سیریز میں لیفٹ آرم اسپنر محمد نواز نے بھی متاثر کن کھیل پیش کیا تھا، ایسے میں کیا وجہ تھی کہ اتنے دنوں تک سلیکٹرز نے ٹیم کا اعلان موخر کیے رکھا؟ یہ بھی کسی راز سے کم نہیں، البتہ سب سے بڑی مسٹری خرم منظور کا انتخاب ہے، وہ پاکستان کیلیے 7برس سے کوئی ون ڈے نہیں کھیل سکے۔

آخری ٹیسٹ 2014میں کھیلا تھا، پی ایس ایل کے 75 کھلاڑیوں میں انھیں کسی نے شامل کرنا مناسب نہ سمجھا، اب اچانک وہ ورلڈ کپ کیلیے 15رکنی پاکستانی ٹیم میں شامل ہو گئے، سلیکٹرز سے پوچھنا چاہیے کہ اس گوہر نایاب کو نیوزی لینڈ لے کر کیوں نہیںگئے، اب اچانک اتنے بڑے ایونٹ کیلیے کیسے ٹیم میں شامل کر لیا؟ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اب چیک اینڈ بیلنس نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی جس کی جو مرضی ہو کرتا چلا جا رہا ہے،خرم منظور کے ٹیلنٹ پر کسی کو شک نہیں مگر اچانک انھیں پاکستانی ٹیم میں شامل کرنا غلط فیصلہ ہے، اوپننگ بیحد اہم پوزیشن ہے۔

ایشیا کپ اور پھر ورلڈٹوئنٹی 20میں ان پر انحصار گرین شرٹس کو مہنگا پڑ سکتا ہے، یہی ہماری کرکٹ کا سب سے بڑا المیہ ہے، اظہر علی ون ڈے ٹیم میں نہیں تھے انھیں کپتان بنا کر واپس لایا گیا، اب خرم منظور کی ’’بیک ڈور انٹری‘‘ ہوئی ہے، مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، چیئرمین خاموشی سے دستخط کر دیتے ہیں انھیں کسی بات کی کوئی فکر نہیں،ہماری کرکٹ مسلسل زوال کی جانب سفر کر رہی ہے، چیف سلیکٹر ہو یا کوئی اور پیسہ کمانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا، ہارون رشید پی ایس ایل میں کمنٹری کرتے رہے انھیں ٹیم کی کوئی پروا نہیں تھی۔

چیئرمین نے ناراضی کا اظہار تو کیا مگر کوئی کارروائی نہیں کی، کم از کم لوگوں کو دکھانے کیلیے کوئی وارننگ لیٹر ہی جاری کر دیتے، جونیئر چیف سلیکٹر باسط علی چونکہ خاصے شعلہ بیاں انسان ہیں اس لیے بورڈ نے انھیں عہدہ سونپ کر خاموش کر دیا، اب وہ اعلیٰ حکام کے تو قصیدے پڑھتے رہتے ہیں مگر جونیئر ٹیموں کی کارکردگی کیسی ہے اس پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں، انھیں بھی ٹی وی پر آنے کا بہت شوق ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات ایسی ایسی باتیں بھی برداشت  کر لیتے ہیں جن پر دیگر لوگوں کا خون کھول جائے، البتہ مجھ سمیت کئی لوگ یہ دیکھ کر افسوس کرتے ہیں کہ ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر کو کیسے رسوا کیا جا رہا ہے، کبھی کبھی مجھے حیرت بھی ہوتی ہے کہ بورڈ سے منسلک افراد کو لاکھوں روپے تنخواہ اور دیگر مراعات ملتی ہیں۔

دیگر ذرائع آمدنی بھی ہیں اس کے باوجود انھیں کوئی چند ہزار روپے دے کر کمنٹری کا کہے یا کسی پروگرام میں شرکت کی دعوت دے تو معمولی رقم کیلیے دوڑے چلے جاتے ہیں، نجانے یہ لالچ کب ختم ہو گی، بورڈ کے سربراہ کئی بار دعوے کرنے کے بعد اس سلسلے کو روک نہیں سکے، ان کا اب کسی پر کوئی کنٹرول باقی نہیں رہا اسی لیے سب من مانیاں کر رہے ہیں۔

پاکستانی جونیئر ٹیموں کی حالیہ کارکردگی بھی سینئرز کی طرح ہے، حال ہی میں انڈر 19ٹیم نے ورلڈکپ میں کتنا ناقص کھیل پیش کیا وہ سب کے سامنے ہے، کئی سفارشی کرکٹرز ٹیم میں شامل ہوئے کسی نے اعتراض نہ کیا، میں اس بچے کا نام نہیں لکھ رہا کیونکہ وہ اتنا بُرا کرکٹر نہیں ہے لیکن والد کے بورڈ کا اعلیٰ افسر ہونے کے سبب ہمیشہ دباؤ کا شکار رہے گا، اگر شکیل شیخ چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا کرکٹ میں نام کمائے تو انھیں بورڈ سے الگ ہو جانا چاہیے۔

ورنہ ہمیشہ اعتراضات سامنے آتے رہیں گے اور ان کے بیٹے کا کیریئر بننے سے قبل ہی ختم ہو جائے گا، بورڈ نے ذاکر خان اور انتخاب عالم کو ڈائریکٹرز کے عہدوں سے ہٹا کر ٹیموں سے منسلک کر کے ایک اور مذاق کیا،74 سالہ انتخاب عالم کا ٹیم پر کتنا کنٹرول ہے اس کا اندازہ نیوزی لینڈ میں پابندی کے باوجود کھلاڑیوں کی سیلفیز دیکھ کر ہو گیا ہو گا۔

پورے ٹور میں ٹیم کی معلومات لیک ہوتی رہیں وہ کچھ نہیں کر سکے،اس عمر میں انھیں پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیلنا چاہیے وہ قومی کرکٹ سے کھیل رہے ہیں،اسی طرح ذاکرخان کی من مانیوں نے انڈر19کوچ کو ڈمی بنا دیا، میڈیا ڈپارٹمنٹ سے ہٹا کرآغا اکبرکا ٹیم کے ساتھ تقررکیا گیا اور وہ ابتدا میں کچھ کام کرنے کے بعد ٹیم مینجمنٹ کی خوشنودی کیلیے تردیدوں کے چکر میں پڑ گئے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سب کو سابقہ مراعات ہی مل رہی ہیں۔

بس بورڈ میں اب عمل دخل نہیں رہا،یہی ہماری کرکٹ کی تباہی کی وجوہات ہیں، سارے سفارشی بچ گئے، کمزور ملازم بے دخل ہوئے، آگے بھی یہی سلسلہ چلتا رہے گا، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں کیا ہو گا شائقین اسی تشویش میں مبتلا ہیں، ہم بس بہتری کیلیے دعا ہی کر سکتے ہیں جو کبھی نہ کبھی تو قبول ہو ہی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔