ویلنٹائن ڈے پر گھر سے غائب ہونے کے کامیاب بہانے

قیصر اعوان  ہفتہ 13 فروری 2016
یہ تحریر اُن سادہ لوح بڑوں کو خبردار کرنے کے لئے ہے جو اپنے آپ کو دور اندیش اور زمانہ شناس تو سمجھتے ہیں مگر اکثر ویلنٹائن ڈے پر ان چکروں اور بہانوں کا شکار بن جاتے ہیں۔  فوٹو: فائل

یہ تحریر اُن سادہ لوح بڑوں کو خبردار کرنے کے لئے ہے جو اپنے آپ کو دور اندیش اور زمانہ شناس تو سمجھتے ہیں مگر اکثر ویلنٹائن ڈے پر ان چکروں اور بہانوں کا شکار بن جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

بہانہ نمبر 1

’’بیٹا! ذرا میرا یہ موبائل فون تو چیک کرنا، ابھی صبح ہی تو چارج کیا تھا مگر تھوڑی ہی دیر میں بند ہوگیا، دوبارہ چارج بھی نہیں ہو رہا۔‘‘ ابو نے پریشانی کے عالم میں موبائل ارسلان کو پکڑاتے ہوئے کہا۔ ’’ابّو! مجھے تو لگتا ہے کہ آپ کا سیٹ ویسے ہی فارغ ہوگیا ہے، بہتر ہے نیا خرید لیں۔‘‘ اُس نے موبائل ابّو کو پکڑایا اور پھر سے پڑھائی میں مگن ہوگیا۔

’’بیٹا! یہ ابھی Repair نہیں ہوسکتا کیا؟ کیا پتہ کس وقت کوئی اہم کال آجائے، آجکل اس کمبخت کے بغیر گزارہ بھی تو نہیں ہے۔‘‘ ابّو کے لہجے میں بہرحال گزارش تھی۔ ’’ابّو! اس وقت؟ اُس نے گھڑی دیکھتے ہوئے حیرانی سے پوچھا؟ ’’تو کیا ہوا بیٹا، ابھی نو بجے ہیں، تمہیں زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے لگ جائیں گے، بازار تو ویسے بھی دو بجے سے پہلے بند نہیں ہوتے اور ٹریفک تو ساری رات ہی چلتی رہتی ہے‘‘۔ ابو نے اُسے موبائل اور پیسے پکڑاتے ہوئے کہا۔ اُسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا، یہ وہی ابّو تھے جنہوں نے اُس کے نو بجے کے بعد گھر سے نکلنے پر پابندی لگا رکھی تھی۔

’’اوئے تیرا ابّو کے موبائل کی بیٹری اُلٹی کرکے ڈالنے والا فارمولا تو بڑا کامیاب نکلا، چھٹی بھی مل گئی اور ڈنر کے پیسے بھی۔ میں بس تھوڑی دیر میں تیری طرف پہنچ رہا ہوں، تو نے میرا خریدا ہوا گفٹ تو پیک کروا دیا تھا ناں؟ چل ٹھیک ہے میں ذرا تیری ہونے والی بھابھی کو بھی کال کرکے بتا دوں کہ میں آ رہا ہوں، بیچاری پریشان ہو رہی ہوگی‘‘۔ اُس نے بائیک سٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔

بہانہ نمبر2

’’نہیں یار! تجھے بتایا تو ہے کہ میں نہیں آسکتا، بھائی نہیں مانیں گے، اور میں اُن کی حکم عدولی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘ اُس نے بھائی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اُونچی آ واز سے کہا اور جیسے ہی بھائی قریب آئے اُس نے جان بوجھ کر کال کاٹ دی۔ ’’کہاں جانا ہے؟ کس کا فون تھا؟‘‘ پلان کے عین مطابق بھائی نے اُس کی ساری باتیں سُن لی تھیں۔ ’’بھائی وہ میرا دوست فرحان ہے ناں، اُس کے بھائی کی آج مہندی ہے، سب دوست انوائیٹڈ ہیں، ضد کر رہا ہے کہ میں بھی آؤں۔‘‘

’’تو چلے جاؤ ناں یار، اگر وہ ضد کر رہا ہے تو‘‘ بھائی نے خلافِ معمول نرمی سے کہا۔ ’’مگر بھائی مہندی کا فنکشن ہے، نہ جانے کتنی رات ہوجائے فنکشن ختم ہونے تک، رہنے ہی دیتا ہوں۔‘‘ اُس نے مایوسی سے کہا۔ ’’ تو پھر کیا ہوا! باہر کے دروازے کی چابی ساتھ میں لے جاؤ، واپسی پر خود ہی دروازہ کھول لینا۔ اور میری گاڑی لے جانا، باہر کافی ٹھنڈ ہے بائیک لے کر جانا مناسب نہیں ہے‘‘۔ بھائی نے کار کی چابی اُس کی طرف اُچھالتے ہوئے کہا۔

’’واہ یار! بھائی کی کار میں تو ڈیٹ پر جانے کا مزہ آجائے گا‘‘۔ اُس نے چابی کیچ کرتے ہوئے دل ہی دل میں کہا۔

بہانہ نمبر 3

’’سنو بہن! آج اپنے بیٹے پر ذرا خصوصی نظر رکھنا، ما شاء اللہ سے جوان ہے، خوبصورت ہے، یہی تو عمر ہوتی ہے بچوں کے بگڑنے کی۔ میں نے سنا ہے کہ آج کے دن لڑکے لڑکیاں سرِعام عشق لڑاتے پھرتے ہیں، بے شرم‘‘۔ صغراں نے اپنی پڑوسن کو ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا۔

’’شکریہ بہن! مگر میرا بیٹا بالکل بھی ایسا نہیں ہے۔ اُسے تو پڑھائی سے ہی فرصت نہیں ہے، ان چکروں میں کیا پڑے گا۔ ابھی کل اُس کا دوست ہمارے گھر کمبائن اسٹڈی کے لیے آیا ہوا تھا، دونوں رات 12 بجے تک بیٹھ کر پڑھتے رہے ماشاء اللہ سے، آج یہ جائے گا اُس کے گھر پڑھنے کے لئے‘‘۔ بیچاری پڑوسن نے معصومیت سے بیٹے کی صفائی دی، آگے تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔

بہانہ نمبر 4

’’ہیلو۔۔۔ ہیلو احمر۔۔۔‘‘

’’بیٹا میں احمر کا ابو بول رہا ہوں، احمر تو آج جلدی سوگیا ہے، خریت ہے؟‘‘

’’نہیں انکل، خریت نہیں ہے، میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے، اور 1122 والے مجھے ہاسپٹل لے کر جا رہے ہیں، گھر والے بھی سب شادی پر گئے ہوئے ہیں، دوست نے درد سے کراہتے ہوئے کہا‘‘۔

’’کس ہاسپٹل میں بیٹا؟ میں ابھی احمر کو بھیجتا ہوں تمھارے پاس، تم پریشان مت ہو۔‘‘

’’احمر بیٹا یہ کچھ پیسے بھی رکھ لو، کہیں بھی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اگر ہاسپٹل والوں نے اُسے مرہم پٹی کرکے ڈسچارج کردیا تو ٹھیک ورنہ بے شک وہیں اُس کے پاس رات رہ لینا‘‘۔ احمر کی تو لاٹری لگ گئی تھی، رات دیر سے گھر آنے کی اجازت اور پیسے دونوں ہی مل گئے تھے، وہ دل ہی دل میں اپنے دوست کی ایکٹنگ کو سراہ رہا تھا۔

بہانہ نمبر5

’’یہ ٹائم ہے تمھارے گھر آنے کا؟ کہاں تھے اتنی رات تک؟ تمہارا فون بھی آف جا رہا تھا؟‘‘ نعمان ابھی گھر میں ہی داخل ہی ہوا تھا کہ ابّو نے سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔ ’’سانس تو لے لینے دیں‘‘ ہمیشہ کی طرح یہ امّی تھیں۔

’’گھر واپس آرہا تھا کہ راستے میں دو لڑکوں نے گن پوائنٹ پر میرا موبائل چھین لیا، دہشت گردوں کی وجہ سے آجکل بہت سختی ہوگئی ہے، اس لئے تھانے گیا ہوا تھا رپورٹ درج کروانے۔‘‘ نعمان کے ابّو جو ابھی کچھ دیر پہلے تک غصّے میں آگ بگولہ ہورہے تھے نعمان کی بات سن کربالکل ٹھنڈے پڑگئے۔

’’سوری ابّو! ابھی پچھلے مہینے ہی تو خرید کر دیا تھا آپ نے، میں نے مزاحمت کی کوشش تو کی تھی مگر اُن کے پاس پسٹل تھا اس لئے‘‘ وہ اپنا موبائل چِھن جانے پر بہت افسردہ دکھائی دے رہا تھا۔

’’نہیں بیٹا نہیں، ایسے موقع پر مزاحمت بالکل نہیں کرتے، خدانخواستہ اگر کچھ ہوجاتا تو؟ موبائل کا کیا ہے اور آجائے گا، 40، 30 ہزار کے موبائل کے پیچھے اپنی جان داؤ پر لگا دینا بھی تو کوئی دانشمندی نہیں ہے‘‘۔ اور یوں نعمان اپنا موبائل بیچ کر اپنی دوست کو ویلنٹائن ڈے پر سونے کی رِنگ گفٹ کرنے میں کامیاب ہوگیا، وہ بھی بغیر کسی کو پتہ چلے۔ موبائل کا کیا ہے وہ تو ابو نیا خرید ہی دیں گے۔

نوٹ

یہ تحریر اُن سادہ لوح بڑوں کو خبردار کرنے کے لئے ہے جو اپنے آپ کو دور اندیش اور زمانہ شناس تو سمجھتے ہیں مگر اکثر ویلنٹائن ڈے پر ان چکروں اور بہانوں کا شکار بن جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے حربے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ آپ کو بیوقوف بنانے اور پیسے بٹورنے کے لئے، لہذا آپ کو اپنی آنکھیں اور دماغ دونوں کھلا رکھنے کی ضرورت ہے۔ اِس طرح کے بہانے صرف آپ کے بیٹے یا بھائی نہیں بناسکے، بلکہ یہ عین ممکن ہے کہ آپ کی چھوٹی بہن یا بیٹی بھی اِس طرح سے جھوٹ بول کر گھر سے نکل سکتی ہے۔ لیکن اگر آپ کو ایسی حرکتیں بُری نہیں لگتی تو پھر تو مسئلہ ہی ختم کہ بچوں کو جھوٹ کا سہارا لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔

کیا آپ نے کبھی بہانا بناکر اِس طرح ویلنٹائن ڈے منایا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔