جمہوری منافقت

اکرام سہگل  ہفتہ 13 فروری 2016

کرپشن پاکستان میں پوری طرح زندہ و پایندہ ہے اور یہ کیفیت گزشتہ 6 عشروں سے جاری و ساری ہے۔ قائد اعظم کی رحلت کے اور 1951ء میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد بیورو کریٹس کی ایک منڈلی اور ان کے کاروباری دوستوں نے کرپشن کو ہوا دی۔ اگرچہ گزشتہ ایک دہائی تک  کرپشن کسی حد تک حدود میں رہی لیکن مشرف کی 2002ء میں شروع ہونے والی حکومت میں، جس کو سیاسی تڑکہ بھی لگا دیا گیا تھا، کرپشن کی رفتار ’’بے حد و حساب‘‘ ہو گئی۔ زرداری صاحب کے 5 سالہ دور میں کرپشن انتہائی عروج کو چھونے لگی۔ یہانتک کہ کرپشن کو باقاعدہ طور پر ایک ادارے کا درجہ حاصل ہو گیا۔

رشوت نظام عدل کو کرپٹ کر دیتی ہے جب کہ استغاثے کو سرکاری حکام کی بڑی تعداد روندتی ہوئی گزر جاتی ہے، جس سے اقتدار کی راہداریوں میں کرپشن کا اثر و رسوخ اور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ قانون کی حکمرانی کے لیے ٹھوس شواہد درکار ہوتے ہیں تا کہ ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے لیکن جب شہادت کے قوانین کمزور ہو جائیں تو پھر ان کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔کیا مجرمانہ کارروائیاں کرنے والے ایسے شواہد کھلے عام چھوڑ سکتے ہیں جن کی وجہ سے وہ گرفت میں آجائیں؟ اور ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے جو گواہی دینے کی جرات کرتے ہیں۔

پاکستان میں عمومی طور پر جب کہ سندھ میں خصوصی طور پر اپنے کاروباری مفادات کو بچانے کے لیے جان بوجھ کر تشدد کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں پر مجرم جمہوریت کے نام پر جرائم کرتے ہیں اور قانون کے نام پر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں (ایل ای ایز) پر مکمل تسلط  حاصل کر لیتے ہیں اور ’’قانونی طور پر‘‘ قانون کی مشینری کو اپنے ناجائز کام بروئے کار لانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سندھ میں لاقانونیت کا جو کھلے عام مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ نہ صرف استحصال کی عریاں مثال ہے بلکہ جمہوریت کے تصور کی سخت بدنامی اور پوری قوم کے اجتماعی ضمیر کی توہین کے مترادف ہے۔

ہمارے منتخب نمایندے اور نوکر شاہی کے ساتھ ساز باز کرنے والے اب کھلے عام مجرموں کی حمایت کر رہے ہیں تا کہ انھیں انصاف کے کٹہرے میں نہ لایا جا سکے۔ تفتیش اور استغاثے کے عمل کو جان بوجھ کر خراب کیا جا رہا ہے، جس حوالے سے ڈاکٹر عاصم کا مقدمہ ایک افسوسناک مثال ہے۔

انھیں عدالت میں لانے لے جانے کے لیے پولیس کی بھاری تعداد میں گاڑیوں کا استعمال ان کی طاقت کو ظاہر کرنے کے  لیے کیا جاتا ہے۔ لوٹی ہوئی رقم اثاثوں میں تبدیل کر لی جاتی ہے جس کے نتیجے میں سماجی عزت و تکریم حاصل ہوتی ہے۔ یہ رقوم اس قدر زیادہ ہوتی ہیں کہ اسے الیکشن کو خریدنے کے لیے بے دریغ انداز میں استعمال کیا جاتا ہے جب کہ اقتدار پر بھی یہی لوگ قابض ہوتے ہیں اور پھر نعرہ لگایا جاتا ہے ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘۔

یہ نعرہ زیادہ تر پی پی پی کے لیڈرز استعمال کرتے ہیں جو  فی الحقیقت ان کے دور حکومت میں ہونے والی کرپشن چھپانے کا ایک بہانہ ہے ، جن کی کچھ کہانیاں زرداری کے سابق دوست ذوالفقار مرزا اور عزیر بلوچ کی زبانی منظر عام پر آگئی ہیں۔ غیر موثر گورننس جو جان بوجھ کر کی جاتی ہے، اس سے ’’منظم جرائم‘‘ کی راہ ہموار ہوتی ہے اور یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ گئی ہے کہ کرپشن کا دہشت گردی کو ہوا دینے میں خاصا ہاتھ ہے۔ اس ضمن میں میڈیا کے بااثر حلقے کو بھی ساز باز میں شامل کیا جاتا ہے۔ عام پبلک کو ان چیزوں کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا لہٰذا وہ ان کی سرگرمیوں سے لاتعلق رہتی ہے گو کہ معاشرے پر اس کے اثرات بہت مضر مرتب ہوتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں منافقوں کی کوئی کمی نہیں جو  مذکورہ عناصر کے ساتھ عملی طور پر ملوث ہو جاتے ہیں اور ان کی کرپشن کو نظر انداز کرتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں بھی منظم جرائم ہوتے ہیں تاہم ان کے ساتھ دہشت گردی کی کارروائیاں منسلک نہیں ہوتیں۔ جب کہ ترقی پذیر ممالک میں منظم جرائم کا دہشت گردی سے لازمی گٹھ جوڑ ہوتا ہے۔ منظم جرائم کے ذریعے دہشت گردوں کو اسلحہ اور رقوم فراہم کی جاتی ہیں جب کہ کالے دھن کو قانونی بنانے کے لیے سرکاری دستاویزات تیار ہوتی ہیں۔ دہشت گردوں کے لیے محفوظ ٹھکانوں اور نقل و حمل کے ذرایع فراہم کیے جاتے ہیں۔

ان میں منشیات کے اسمگلروں کے علاوہ انسانی اسمگلنگ کرنے  والے گروہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ وہ سرکاری افسروں کو رشوت دیکر یا کئی حالتوں میں دھونس اور دھمکی کے ذریعے بھی اپنا کام نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دہشت گردی کو نظریاتی طور پر  بروئے کار لایا جاتا ہے جب کہ منظم جرائم کے پیچھے لالچ اور ہوس کارفرما ہوتی ہے۔ کراچی اس کی بہترین مثال ہے۔

دہشت گردی اور منظم جرائم کے اہداف مشترک ہوتے ہیں لیکن سیاسی اور اقتصادی مقاصد مختلف ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کا بڑا مقصد 1 موجودہ گورنمنٹ کو ’اسٹیٹس کو‘ کی تبدیلی کے ذریعے گرانا ہوتا ہے جب کہ منظم جرائم کے ذریعے در پردہ ایک متوازی حکومت تیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ظاہری طور پر وہ موجودہ حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔

2دہشت گردی بنیادی طور پر تشدد کا راستہ اختیار کرتی ہے جب کہ غیر متشدد منظم جرائم غیر آمادہ شہریوں کو راغب کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ 3 دہشت گردی کو تحریک سیاسی مقاصد کی وجہ سے ملتی ہے جس میں کہ علاقائی‘ قومی اور مذہبی جذبات کو مشتمل کیا جاتا ہے تا کہ اپنے مخصوص مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ مسلح جرائم کے لیے اقتصادی اہداف کو حاصل کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔

جب حکومت چلانے کی ذمے داری مجرموںکے سرپرستوں کے ہاتھ میں آ جاتی ہے تب قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں تفتیش و تحقیقات اور استغاثہ تیار کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں جو قابل فہم ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کیس  ایک طرف جرائم اور دوسری طرف سیاسی لیڈروں سے جڑتا ہے ۔کیا کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ انھوں نے اپنے قانونی اثاثوں میں سے کتنا ٹیکس ادا کیا ہے چہ جائیکہ ان کے غیرقانونی اثاثوں کی تحقیقات کی جائے۔

مہذب ملکوں کے لیڈر یقین رکھتے ہیں کہ وہ یکسر غیرقانونی ماحول میں بھی قانون کی عملداری قائم کر سکتے ہیں لیکن یہ اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ گورننس میں ایسی چیزوں کو شامل نہ کیا جائے جن کے بارے میں عام حالات میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر قانون کی کتابوں میں آدم خوری کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں۔ مہذب معاشرہ اس قسم کی باتوں کے بارے میں قانون سازی نہیں کرتا تاہم اگر کوئی ایسا انہونا واقعہ وقوع پذیر ہو ہی جائے تو سوال جواب کی شکل میں ایسی قانون سازی پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا انٹیلی جنس ایجنسیاں دہشت گردوں اور منشیات کے ڈیلروں کی پرائیویٹ گفتگو سرکاری اجازت کے بغیر سن سکتی ہیں؟ کیوں نہیں بالخصوص اگر مذہبی مقامات کے تقدس کے لیے کوئی خطرہ ہو تو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں بغیر کسی پیشگی سرکاری اجازت کے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے پابند ہوںگی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم اس حکومت کو ڈس مس کر سکتے ہیں جو کھلے عام کرپٹ عناصر کو تحفظ دیتی ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے شہریوں کے سکون قلب کی خاطر اور معصوم لوگوں کو قتل ہونے سے بچانے کی خاطر ایسا  کیا جانا چاہیے۔

ٹارگٹ کلرز کے خلاف بڑے سخت آپریشن کے بعد کرپشن کے خلاف کیا جانے والا آپریشن کافی سست روی کا شکار ہے جب کہ دعوے اس کے برعکس کیے جا رہے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اب عزم صمیم کے ساتھ اقدامات کیے جائیں۔ کرپشن کے خلاف کی جانے والی کارروائیاں مکمل طور پر صاف شفاف ہونی چاہئیں تاآنکہ قومی سلامتی کا کوئی مسئلہ کھڑا ہونے کا احتمال ہو۔ کرپشن کے بارے میں عوام کو تمام مطلوبہ معلومات دی جانی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔