- رضوان کی انجری سے متعلق بڑی خبر سامنے آگئی
- بولتے حروف
- بغیر اجازت دوسری شادی؛ تین ماہ قید کی سزا معطل کرنے کا حکم
- شیر افضل کے بجائے حامد رضا چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نامزد
- بیوی سے پریشان ہو کر خودکشی کا ڈرامہ کرنے والا شوہر زیر حراست
- 'امن کی سرحد' کو 'خوشحالی کی سرحد' میں تبدیل کریں گے، پاک ایران مشترکہ اعلامیہ
- وزیراعظم کا کراچی کے لیے 150 بسیں دینے کا اعلان
- آئی سی سی رینکنگ؛ بابراعظم کو دھچکا، شاہین کی 3 درجہ ترقی
- عالمی و مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں اضافہ
- سویلین کا ٹرائل؛ لارجر بینچ کیلیے معاملہ پھر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھیج دیا گیا
- رائیونڈ؛ سفاک ملزمان کا تین سالہ بچے پر بہیمانہ تشدد، چھری کے وار سے شدید زخمی
- پنجاب؛ بےگھر لوگوں کی ہاؤسنگ اسکیم کیلیے سرکاری زمین کی نشاندہی کرلی گئی
- انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے پی ایچ ایف کے دونوں دھڑوں سے رابطہ کرلیا
- بلوچ لاپتہ افراد کیس؛ پتہ چلتا ہے وزیراعظم کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ
- چوتھا ٹی20؛ رضوان کی پلئینگ الیون میں شرکت مشکوک
- ایرانی صدر کا دورہ اور علاقائی تعاون کی اہمیت
- آئی ایم ایف قسط پیر تک مل جائیگی، جون تک زرمبادلہ ذخائر 10 ارب ڈالر ہوجائینگے، وزیر خزانہ
- حکومت رواں مالی سال کے قرض اہداف حاصل کرنے میں ناکام
- وزیراعظم کی وزیراعلیٰ سندھ کو صوبے کے مالی مسائل حل کرنے کی یقین دہانی
- شیخ رشید کے بلو رانی والے الفاظ ایف آئی آر میں کہاں ہیں؟ اسلام آباد ہائیکورٹ
انقلاب چین کے دوران پاکستان کے ’’آم‘‘ چین میں مقدس سمجھے جانے لگے تھے، دلچسپ تحقیق
بیجنگ: آم بلا شبہ پھلوں کا بادشاہ ہے اور ہر زمانے میں نہ صرف پسند اور شوق سے کھایا جاتا رہا ہے بلکہ کچھ ممالک میں تو اسے خاص مقام بھی حاصل رہا ہے جس میں چین بھی شامل ہے کیونکہ وہاں آم پاکستان کی جانب سے پہلی بار بھیجے گئے تھے جسے وہاں کے حکمرانوں نے اسے مقدس پھل کا درجہ دے دیا۔
نصف صدی قبل جب چین اپنی حالیہ تاریخ کے سب سے مشکل اور پر آشوب دہائی سے گزر رہا تھا جس کے بعد وہاں انقلاب نے انگڑائی لی لیکن اسی دور میں چینی قوم ایک خاص قسم کے جنون میں مبتلا ہوگئی جو تھا آم کا جنون تھا جب کہ برطانوی چینل کے رپورٹر بنجامن رام نے چین کے اس دور میں آم کے ساتھ ان کے سلوک کو بڑے دلچسپ انداز میں دنیا کے سامنے رکھا ہے جسے اس سے پہلے شاید کوئی ہی جانتا ہوگا۔
بنجامن کے مطابق 1966 میں ماؤ زے تنگ نے طالب علموں کے ریڈ گارڈز کو رجعت پسند حکام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوجانے کو کہا جس پر ملک میں خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا اور اس کے کارکن جہاں جاتے اپنے ساتھ ریڈ ڈائری رکھتے جسے وہ اپنا سب سے بڑا ہتھیار سمجھتے تھے لیکن 1968 میں جب طالب علموں کے تصادم میں اس کے 5 کارکن مارے گئے اور سیکڑوں زخمی ہوگئے تو اس نے اپنے کارکنوں کا حوصلہ بڑھانےکے لیے انہیں پاکستان سے آئے ہوئے 40 آموں کا تحفہ بھیجا اور یہیں سے چین میں آم کے مقدس سفر کا آغاز ہوا۔
تاریخ داں فریدا مرک کے مطابق اس وقت شمالی چین میں کوئی بھی آموں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا اس لیے آموں کا تحفہ حاصل کرنے کے بعد کارکن ساری رات انہیں دیکھتے اور سونگھتے رہے اور یہ جاننے کی کوشش کرتے رہے کہ یہ جادوئی پھل آخر ہے کیا جب کہ اسی دوران ان کو چیئرمین ماؤ کی جانب سے ایک اہم پیغام موصول ہوا جس میں ان کو یہ نوید سنائی گئی تھی کہ آج سے مزدور طبقہ ملک میں ہر سطح پر رہنمائی کرے گا تو کارکنوں میں آم کو تہذیبی انقلاب کے خاتمے اور ماؤ کی کامیابی کی نشانی سمجھا جانے لگا۔
انقلاب کی ایک اہم کارکن کا کہنا ہےکہ ماؤ کی جانب سے انہیں ایک فیکٹری میں آموں کا تحفہ موصول ہوا جسے دیکھ کر سب حیران ہورہے تھے اور لوگوں میں آپس میں بحث چھڑ گئی کہ اس پھل کے ساتھ کیا کرنا چاہیےاوربڑے بحث و مباحثے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے محفوظ کر لیا جائے جس کے بعد ایک اسپتال تلاش کیا گیا جہاں اس کو فارمل ڈیہائڈ گیس میں رکھ دیا گیا۔ دوسرے مرحلے میں ان آموں کی مومی شکل تیار کی گئی اور ہر شکل کو کانچ کے ایک خول میں محفوظ کر دیا گیا اور پھر ہر انقلابی کارکن کو اس مومی آم کا تحفہ بھیجا گیا۔
بنجامن لکھتے ہیں کہ ماؤ کے تمام کارکنوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ اس مقدس پھل کو احترام سے تھامیں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کی سرزنش بھی کی جاتی تھی۔ ایک اور کارکن اپنی ڈائری میں لکھتا ہے کہ جب اسے مومی آم کا تحفہ ملا تو اس وقت تک یہ پھل ایک مقدس حیثیت اختیار کر چکا تھا جب کہ اسی دوران کہیں سے اصلی آم آئے تو اسے کارکن ڈھول کی تھاپ پر ایک جلوس کی شکل میں ہوائی اڈے سے فیکٹری تک لے کر آئے۔ اس دوران سارے راستے سڑک کے دونوں جانب لوگ آم کے دیدار کے لیے کھڑے تھے جب کہ آم کی اہمیت کا یہ حال تھا کہ ان کارکنوں نے صرف ایک آم شنگھائی کی ایک فیکٹری تک پہنچانے کے لیے پورے جہاز کا انتظام کیا تھا اور جب ایک آم گلنے سڑنے کے قریب پہنچ گیا تو کارکنوں اس کا گودا نکال کر اسے پانی میں ابالا اور اس مقدس پانی سے ہر کارکن ایک ایک چمچہ پیا۔
کیمبرج یونیورسٹی کے ایک لیکچرر کا کہنا ہےکہ کارکنوں نے آم ملنے کے پہلے دن ہی اسے ایک یادگاری حیثیت دے دی تھی جس کا احترام اور حتیٰ کہ پرستش لازمی تھی جب کہ اس دوران یہ آم ملک کے طول و عرض میں سفر کرتے رہے اور ان کے ساتھ کئی مقدس جلوس بھی نکالے گئے اور پھر جلد ہی یہ آم کارکنوں میں عقیدت کا درجہ حاصل کر گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ رسومات کو بدھ مت اور تاؤ مت کی صدیوں پرانی روایات کی طرز پر ادا کیا جاتا تھا جن میں آم کو ایک اونچے چبوترے پر رکھاجاتا جس کے آگے تمام فیکٹری کارکنان ادب سے جھکتے تھے۔ چین میں اشیائے خورد و نوش کو ایک علامت کے طور پر استعمال کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے اسی لیے ماؤ کی طرف سے ملنے والے اس پھل کے تحفے کو بھی خوش بختی کی علامت سمجھا گیا۔
کمیونسٹ پارٹی کے پروپیگنڈا ڈیپارٹمنٹ کے لیے بھی یہ آم ایک تحفہ ثابت ہوئے اور جلد ہی اسے گھریلو استعمال کی اشیا جیسے بستر کی چادروں، برتنوں، اور واش بیسن وغیرہ پر بھی ڈیزائن کیا جانے لگا۔ اس کے علاوہ آم کی خوشبو والے صابن اور آم کے ذائقے والے سگریٹ بھی متعارف کروائے گئے۔ اکتوبر 1968 میں بیجنگ میں قومی دن کی پریڈ میں بھی آم جا بجا نظر آئے اور جن لوگوں نے اس پھل کے مقدس ہونے پر اپنے تحفطات کا اظہار کیا ان کو سخت سزائیں بھی دی گئیں۔ ایک گاؤں میں ایک دندان ساز کو آم کو شکرقندی سے تشبیہ دینے پر سر عام پھانسی دے دی گئی۔
آخر 18 ماہ بعد آم کا یہ جنون ماند پڑ گیا اور پھر یہ وقت بھی آگیا کہ بجلی غائب ہونے کے دوران ان آموں کو موم بتیوں کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ماؤ زے تنگ کی اہلیہ جیانگ کنگ نے بھی (جنہیں مغرب میں ’مادام ماؤ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا) اپنے کارکنوں کو آم بھیج کر پرانے جوش کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی۔ کارکنوں نے ان کے اس تحفے کا شکریہ ادا کرنے کی خاطر ایک فرض کی طرح ان رسومات کو ادا تو کر دیا لیکن ان میں پہلے جیسا جوش و جذبہ موجود نہیں تھا۔
اگلے سال ماؤ زے تنگ بیمار پڑ گئے اور کسی جانشیں کے نہ ہونے کی صورت میں ان کی اہلیہ نے اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے ’’سانگ آف مینگو‘‘ کے نام سے ایک فلم بنائی لیکن کچھ ہی ہفتوں بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا اور فلم کی تشہیر روک دی گئی۔ شاید چین کی تاریخ میں یہ آم کا آخری باب تھا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔