یہ ہے امریکی ویزے کے حصول کی کنجی

ڈاکٹر عائشہ آزادی  اتوار 14 فروری 2016
سیاہ فام ناراض اور اُکھڑے اُکھڑے نظر آئے، بورڈنگ کاؤنٹر پر سوالات کا تانتا ۔  فوٹو : فائل

سیاہ فام ناراض اور اُکھڑے اُکھڑے نظر آئے، بورڈنگ کاؤنٹر پر سوالات کا تانتا ۔ فوٹو : فائل

جن دنوں میں اپنا تحقیقی مقالہ پیش کرنے برازیل جانے کی تیاری کررہی تھی دوست، ہم درد اور بہی خواہ برازیل اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کا درمیانی فاصلہ ناپتے اس فکر میں تھے کہ کسی طرح امریکا کی سرزمین کو بھی شرف باریابی بخش دیا جائے۔ سنانے والے سنایا کرتے تھے کہ پاسپورٹ پر امریکی ویزا اسے کچھ ایسی وی آئی پی حیثیت عطا کرتا ہے کہ بہت سے ممالک تائب ہوکر آپ کو بغیر ویزے کے آمد پر ایئرپورٹ پر ہی ویزے لگاکر دیتے ہیں اور کئی ایک امریکیوں کی بصیرت پر کچھ اس طرح آنکھ بند کرکے بھروسا کرتے ہیں کہ ان کے ملک کا ویزا لگا دیکھ کر آپ کو اپنے ملک کا ویزا تین دن میں ای میل کردیا کرتے ہیں۔

ان دلیلوں میں اثر پذیری کی تاثیر تو تھی مگر دل کی گہرائیوں میں ایک لاشعوری سا خوف بھی تھا کہ کہیں ویزوں میں یہ ’’ملکہ ویزا‘‘ مجھے ان عمومی تجربوں سے محروم نہ کردے جو اپنے سرسبز و شاداب پاسپورٹ کے ساتھ مختلف ملکوں کے ایئرپورٹوں پر دھکے کھاتے ہوئے مجھے ہوتے رہے تھے۔

جب اس پاسپورٹ کو اور خود مجھے ایک جیسی شک بھری نظر سے دیکھتے ہوئے اضافی سوالات کیے جاتے یا مجھے اور میرے دیگر ہم وطنوں کو ’’اسپیشل سیکیوریٹی‘‘ لائنز میں پیش ہونے کا ’’موقع‘‘ ملتا۔ اس قسم کے تجربات کو عزیز رکھنے کی وجہ ’’خوداذیتی‘‘ نہیں بل کہ یہ حقیقت ہے کہ خود داری پر پڑنے والی ایسی چوٹیں ملکی جذبۂ تعمیر کو مہمیز دیتی ہیں اور جب کسی بھی ایسے تجربے کے بعد باعزت گلوخلاصی کا مژدہ سننے کو ملتا ہے تو شاید میری آنکھوں میں فتح مندی کی کوئی چمک ضرور پیدا ہوتی ہے جو سامنے والے کے چہرے پر انسانیت نواز سی مسکراہٹ لے آتی ہے۔

شاید سننے والوں کو یہ بات کچھ عجیب سی لگے کہ وطن کو خود ماں کہا جاتا ہے مگر کئی موقعوں پر اپنے پاسپورٹ کی بے توقیری پر میرے جذبات وطن کے لیے اس ماں کے سے ہوگئے جس کو اس کی اولاد چاند کا ٹکڑا لگتی ہے، مگر جو دنیا کی نظر میں معمولی حیثیت کی حامل ہے، چور اور بے ایمان ہے، لیکن جب لوگ اس کی غیرمعمولی معصومیت کے قائل ہوجاتے ہیں تو ماں کی آنکھوں میں فخر اور فتح مندی امڈ آتی ہے، کہ دیکھا میں تو پہلے ہی جانتی تھی۔

بہرحال، سوچ بچار اور تذبذب میں دن گزر رہے تھے کہ ایک ساتھی ڈاکٹر صاحب نے اپنے حالیہ تجربے کی روشنی میں انکشاف کیا کہ اب تو امریکا کا وزٹ ویزا تین سے چار دن میں لگ جاتا ہے، یا کم از کم لگنے یا نہ لگنے کا فیصلہ آپ کے سامنے ہوتا ہے اور مہینوں کے لیے پاسپورٹ بھی نہیں اٹکتا۔ مبلغ 160 ڈالر فیس جمع کروادیں، کم سے کم ویزا لگتا ہے پانچ سال کے لیے، جس پر آپ بار بار وہاں آ اور جاسکتے ہیں۔

ان مشوروں کی روشنی میں بالآخر میں نے بھی ویزے کی درخواست کا آن لائن فارم بھر ڈالا۔ فیس جمع کروائی تو واقعی اگلے تین چار دن بعد اپنی مرضی اور فرصت کے مطابق انٹرویو کا وقت طے کرنے کی سہولت بھی آن لائن ہی موجود تھی۔ یوں فارم بھرنے کے ٹھیک تین دن بعد میں کراچی کے امریکی قونصل خانے میں تھی۔

جو حفاظتی اقدامات کے لحاظ سے کسی قلعے سے کم نہیں اور وہاں نہ صرف یہ کہ واقعتاً چڑیا بھی پر نہیں مارسکتی بل کہ عملے کے علاوہ کوئی شخص بھی پر مارنے کا مجاز نہیں۔ قونصل خانے میں ہم وطنوں کا شدید نظم و ضبط دیکھ کر کسی قدر گُھٹن کا احساس ہوا اور ایک آدھ مرتبہ اس قلعے سے بھاگ کھڑے ہونے کا خیال بھی آیا، مگر پھر کچھ حساب کتاب لگایا کہ اس سے 50 فی صد نظم و ضبط اگر اس قونصل خانے کے باہر موجود ہو تو شاید وطن عزیز ایک ایسی جنت بن جائے کہ امیگریشن کے لیے اپلائی کرنے والوں کی قطار ہی نہ رہے۔

اس طرح کی سوچوں کے ساتھ جب میں ویزا انٹرویو کے لیے اپنی باری کا انتظار کررہی تھی تو دل ہی دل میں طے کرچکی تھی کہ میں بھی موصوف ویزا آفیسر کو اسی قدر عزت و رعایت دوں گی جس قدر یہاں میرے اپنے وطن میں کھڑے ہوکر مجھے ملے گی۔ آخر میرے پاس کھونے کو کچھ نہیں پانے کو ایک ویزا ہے، جو مل گیا تو ابن بطوطہ سے ابن انشاء تک کے سفر ناموں کی قطار میں، اگرچہ ان سے بہت نیچے، ایک میرا سفرنامہ بھی شامل ہوجائے گا۔

اس عزم کے ساتھ جب انٹرویو کی کھڑکی کے پاس آئی تو ویزا آفیسر پر نظر ڈالتے ہی احساس جاگا کہ یہ شخص ہالی وڈ کی فلموں میں سیکرٹ سروس کے خطرناک اور بے رحم ایجنٹ کا کردار بخوبی ادا کرسکتا ہے۔

ادھر اُن صاحب نے میرے کسی قدر سنجیدہ انداز اور جذبات سے عاری چہرے کو دیکھتے ہوئے کچھ سلام دعا پر مشتمل کلمات کہے جنھیں میں نے کنجوسی سے ناپ تول کر اسی قدر لوٹایا جس قدر مجھے وصول ہوئے۔ اگلا سوال براہ راست اور فوری تھا،’’آپ امریکا کیوں جانا چاہتی ہیں؟‘‘ میں نے کسی قدر بے اعتنائی اور مضبوط لہجے میں جواب دیا،’’اصل میں میں برازیل جارہی ہوں جس کا ویزا پاسپورٹ پر موجود ہے اور اخراجات وہاں میزبانوں کے ذمے ہیں۔ چناںچہ میں کچھ پیسے اپنے پاس سے خرچ کرکے امریکا کی سیر اور عزیزوں دوستوں سے ملاقات کرنے کی خواہش مند ہوں۔‘‘

یہ سن کر ویزا آفیسر کے چہرے پر نقش سیکرٹ سروس ایجنٹ کی چھاپ کسی قدر مدہم پڑگئی اور اس نے اگلے تین ساڑھے تین منٹ تک میری تعلیم، ملازمت، میڈیکل اسپیشیلیٹی اور اس سے متعلق ذمے داریوں کے بارے میں چند معقول اور متعلقہ سوالات کرکے مسکراتے ہوئے اطلاع دی،’’آپ کو ویزا دیا جاتا ہے۔ آپ 24 گھنٹے بعد اپنا پاسپورٹ امریکن ایکسپریس کے آفس سے لے لیں۔‘‘ ویزے کے حصول کی کنجی یہی ہے کہ وزٹ ویزے کے لیے اپلائی کیا ہے تو ایمان داری سے ثابت کریں کہ آپ کے تمام مالی و جذباتی مفادات پاکستان ہی سے وابستہ ہیں اور آپ کا پرائے دیس میں غیرقانونی طور پر قیام پذیر ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔

ویزا مل جانے کے بعد بھی یہ طے کرنا باقی تھا کہ امریکا کی سیاحت کا شوق ابھی پورا کرلیا جائے یا بعد کے کسی موقع کے لیے اٹھا رکھا جائے۔ ادھر امریکا میں مقیم عزیزوں، دوستوں سے رابطہ ہوا تو سیرِدوعالم کے ذوق کے ساتھ ساتھ رشتوں کی محبت نے بھی جوش مارا۔ بالآخر جب برازیل جانے میں ایک ہفتے سے بھی کم کا وقت رہ گیا تھا تو اس بات کا قطعی فیصلہ ہوا کہ امریکا تک کا ٹکٹ بنایا جائے اور ہیوسٹن میں خالاؤں کے پاس قیام کا لطف لیتے، شکاگو میں دادی جان اور چچاؤں کی گرم جوش اور والہانہ محبت سے شاد کام ہوتے، نیویارک کی روشنیوں کی چکا چوند سے آنکھوں کو خیرہ کیا جائے، مگر ساتھ ہی اس فرمان نبوی (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی روشنی میں کہ ’’علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘ دل میں ایک اور تمنا بھی رہ رہ کر جاگتی تھی کہ امریکا کی عظمت کی عمارت تو اس کی علمی وسائنسی تحقیق کی بنیادوں پر کھڑی ہے۔

کسی طرح وہاں کی عظیم الشان طبی تحقیق کی میر کارواں یونی ورسٹیوں یعنی ہارورڈ اور جان ہاپکنز میں بھی کچھ وقت گزارا جائے۔ کیا عجب وہاں علم کے کچھ موتی بکھرے پڑے ہوں کہ مجھ جیسی غریب ترقی پذیر ملک کی غم زندگی اور غم روزگار سے نبرد آزما ڈاکٹر بھی کچھ سمیٹ کر اپنے دامن میں ٹانک لے۔

ان خوابوں، خیالوں، اندیشوں اور امیدوں کے ساتھ وہ دن آگیا جب میں برازیل میں طبی کانگریس میں شرکت کے بعد ریوڈی جینرو کے گلیلیوایئرپورٹ سے امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن جانے کے لیے یونائیٹڈ ایئرلائن کی فلائٹ میں سوار ہونے کی منتظر تھی۔ امریکی ویزا تازہ تازہ لگا تھا، فکر کی یقیناً کوئی بات نہیں تھی۔ آرام سے یونائیٹڈ ایئر لائن کے بے شمار بورڈنگ کاؤنٹرز میں سے ایک پر پہنچی، جہاں ایئرلائن کا خشک سے چہرے اور روکھے مزاج والا نمائندہ موجود تھا۔ سفر کی تفصیلات، ملازمت، تعلیم اور ریو میں ہونے والی کانگریس سے متعلق دستاویزات کی فائل میرے پاس موجود تھی، مگر موصوف کے سوالات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔

پانچ منٹ، دس منٹ، پندرہ منٹ۔ تقریباً ہر سوال کا زبانی جواب دستاویزی ثبوت سمیت میرے پاس موجود تھا۔ خوف تو یقیناً نہیں محسوس ہوا مگر کچھ الجھن سی ہوئی۔ بعض دفعہ ایک ہی بات تین تین بار، کہاں سے کہاں جارہی ہیں کس کے پاس، کیوں، کہاں کہاں جانا ہے، سامان میں کیا کچھ ہے، کیا اس کے علاوہ بھی کچھ اور ہے، کیا آپ کو یقین ہے اور کچھ نہیں ہے؟ امریکا میں ہیوسٹن سے شکاگو ہوائی جہاز سے جانا ہے تو واپسی کا ٹکٹ نیو یارک سے کیوں ہے، شکاگو سے نیو یارک کیسے پہنچنے کا ارادہ ہے، واپسی کب ہے کیا واقعی اسی تاریخ کو واپسی ہے؟

تھوڑی دیر میں مجھے احساس ہوا کہ دیگر کاؤنٹرز پر موجود مسافر تیزی سے فارغ ہورہے ہیں اور میں وہیں ہوں۔ ساتھ ہی ایک باغیانہ مایوسی حملہ آور ہوئی کہ شاید ان کی نظر میں گندمی رنگت اور مسلمانوں کے لباس میں سفر کرنے والی خاتون کوئی تعلیم یافتہ اور زندہ دل مہم جو روح نہیں بل کہ صرف اور صرف مشکوک ڈرگ اسمگلر یا شاید خودکش حملہ آور ہی ہوسکتی ہے، چاہے اس کے پاسپورٹ پر امریکی ویزا بھی جگمگارہا ہو۔

جب سوالات کے پہاڑوں تلے شکوک کو بنیاد فراہم کرتی کوئی ننھی سی چوہیا تک برآمد نہ ہوسکی تو یونائیٹڈ ایئر لائن کے نمائندے نے ’’اسپیشل سیکیوریٹی چیک‘‘ کی مہر لگاکر بالآخر آگے جانے کی نوید سنائی۔ اس کی لگائی مہر پر جب میں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اب کی بار کسی قدر محجوب ہوکر ارشاد فرمایا،’’آپ کے ہاتھ میں پکڑے سامان کی خاص تلاشی ہوگی۔

اس میں فائدہ یہ ہے کہ آپ سب سے پہلے جہاز میں داخل ہوںگی۔‘‘ یہ سن کر کوفت بھری بے زاری کے ساتھ ضایع ہوتے وقت کا انتقام لینے کا ایک ہی طریقہ میرے پاس تھا جسے استعمال میں لاتے ہوئے میں نے بھی نہایت چڑچڑے پن سے اپنی طرف سے پہلا سوال داغ ہی دیا،’’میں نے راستے کے لیے حلال کھانے کی درخواست کی ہوئی ہے، ذرا اس کو کنفرم کریں۔‘‘ میری بات پر نمائندے کے استخوانی چہرے پر ایک دو رنگ آکر گزر گئے اور پھر اس نے کمپیوٹر اسکرین پر جھکے جھکے تصدیق کردی،’’جی ہاں! آپ کے مطلوبہ کھانے کا انتظام ہے۔‘‘

ان مراحل سے گزر کر جب مجھے بالآخر یونائیٹڈ ایئرلائن کے کشادہ ہوائی جہاز میں داخلے کا پروانہ ملا تو ذہنی و جسمانی تھکن غالب سی آنے لگی تھی۔ ریو سے ہیوسٹن تک دس گھنٹے کی پرواز کے دوران ایک ہی احساس ہوا کہ سروس اور گلیمر کے لحاظ سے یہ امارات کی ایئرلائنز سے خاصے دور اور فضائی میزبانوں کے انتخاب کے معاملے میں حسن و نزاکت کے نہیں صرف جسمانی مضبوطی اور عملیت پسندی کے قائل ہیں۔ حلال کھانے کے نام پر بدمزہ سبزیوں پر مشتمل خوراک سب سے پہلے عنایت ہوئی اور اس کے بعد ہزاروں فٹ کی بلندی پر ہی میں گہری نیند کی وادیوں میں ایسے اتری کہ پھر آنکھ ہیوسٹن کے جارج بش ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے وقت ہی کھلی۔

اس ایئرپورٹ پر قدم رکھتے ہوئے ذہن عجیب و غریب احساسات کی آماج گاہ بنا ہوا تھا جنھیں کوئی نام دینا آسان نہیں۔ سب سے پہلے تو ایئرپورٹ کا نام جس شخص سے منسوب تھا وہ اس قدر متنازعہ یا صاف لفظوں میں ایسا بے رحم جارح ثابت ہوا ہے کہ اس کی ہوس نے عراق و افغانستان میں پنپتینہ جانے کتنے معصوم خوابوں کو بے رحم اژدھے کی طرح نگل کر اس پورے علاقے کو انسانیت کا قبرستان بنادیا ہے۔ ایئرپورٹ کے صاف ستھرے فرش کے نیچے شام و فلسطین کے شہدا کا لہو بہتا محسوس ہوا تو اذیت اور کسک کی لہر سینے میں اٹھی اور دل میں آئی کہ واپس نہیں جاسکتی تو کم ازکم اس عمارت سے باہر نکل جاؤں جہاں رات کے اس آخری پہر دیواروں پر استعمار کے مہیب سائے لرزاں محسوس ہورہے تھے۔

ایئرپورٹ پر توقع کے برعکس کسی قسم کی پوچھ گچھ کے بجائے مناسب رکھ رکھاؤ والا استقبال ہوا اور بہت سے سفید فام یورپی باشندوں کے برعکس مجھے امیگریشن کاؤنٹر پر صرف اتنی دیر لگی کہ جتنی دیر میں امیگریشن افسر یہ طے کرسکے کہ میرا خالص وزٹ ویزا ہے یا بزنس پلس وزٹ ویزا بنتا ہے۔ یوں میں تھوڑی ہی دیر میں ایئرپورٹ کے باہر تھی جہاں خالہ جان (صبیحہ) اور فرید خالو والہانہ استقبال کے لیے موجود تھے۔ خالہ جان کے گلے لگ کر امی کا سراپا محسوس کیا اور اگلے ہی لمحے معلوم ہوا کہ پاکستان سے میرے بارے میں پوچھنے کے لیے امی پاپا کئی کالز کرچکے ہیں۔ چناںچہ پہلا کام انھیں اطلاع دینا تھا کہ میں بخیریت پہنچ چکی ہوں۔

اب میں اس سرزمین کا نظارہ کر رہی تھی اور اس کی فضاؤں میں سانس لے رہی تھی جس کا شاید دنیا میں سب سے زیادہ تذکرہ کیا جاتا ہے، جو ہماری زمین پر سب سے زیادہ جدید ہے کہ پندرہویں صدی کے آخری عشرے میں دریافت ہوا اور اگر افریقی غلاموں پر انسانیت سوز مظالم کی آماج گاہ بنا تو ابراہام لنکن سے مارٹن لوتھر کنگ جیسے فرزندوں کی جنم بھومی بھی رہا، جنھوں نے آزادی، انسانیت اور مساوی انسانی حقوق کے مرتے ہوئے تصورات کو زندہ کیا اور بلاشبہہ عہدنو میں اپنے ملک کو دنیا بھر کے انسانوں کے لیے چاہت کا ایک ایسا مرکز بنادیا کہ عشروں سے ہر دوسرا تیسرا آدمی امریکی ویزے، گرین کارڈ یا مستقل شہریت کے خواب دیکھ رہا ہے۔

ہاتھ میں مشعل تھامے امریکی مجسمہ آزادی، عہد نو میں خواتین کے وقار کا ضامن سمجھ لیا گیا ہے کہ اس دور میں حقوق نسواں، جمہوریت اور مساوات کے بیشتر تصورات امریکی فضاؤں میں پروان چڑھے۔ امریکیوں کی برطانیہ اور پھر غلامی کے خلاف لڑی جانے والی جنگیں ہی بیشتر جدید تصورات کو ان کا موجودہ روپ دینے کا سبب بنی ہیں، مگر شاید یہ افسوس اور عبرت کا مقام بھی ہے کہ عاقبت نااندیش پالیسی اور ہوس ملک گیری کے جدید ہتھکنڈوں نے امریکیوں کو دنیا میں سب سے غیرمحفوظ، ان کے سفارت خانوں کو سب سے زیادہ ’’ہائی رسک ٹارگٹ‘‘ اور امریکی قیادت کو دنیا میں سب سے زیادہ نفرت سے دیکھی جانے والی قیادت بنا دیا ہے۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ امریکی عوام کو حکم رانوں کی ساحری یہ یقین دلائے ہوئے ہے کہ دنیا اس لیے ان کے خلاف ہے کیوںکہ وہ انھیں آزاد اور مساوی انسانی حقوق کا پاسبان نہیں دیکھ سکتی، بل کہ ان کے ان عزیز تصورات کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔ کاش امریکی عوام کا اجتماعی شعور یہ جان سکے کہ دنیا اس لیے ان کے خلاف ہو رہی ہے کیوںکہ دنیا بھر کے انسان بشمول مسلم دنیا کے پسے ہوئے عوام اپنے لیے بھی اس آزادی، مساوات اور قانون کی حکم رانی کا خواب دیکھتے ہیں جسے ان کے کٹھ پتلی حکم رانوں نے امریکی سام راج سے گٹھ جوڑ کرکے ایک ناقابل حصول خواب بنا رکھا ہے۔

ایک طرف امریکی استعمار نے دنیا کو گرفت میں لے رکھا ہے تو انسان دوستی سے حیوانوں تک کے حقوق کی پاس داری نے وہاں کے لوگوں سے ایک انوکھا رومان بھی وابستہ کردیا ہے۔ بہت سے امریکی اپنا ملک اور آسائشیں چھوڑ کر افریقہ کے جنگلوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں تو کئی غریب اور کم خوراکی کے مارے بچوں پر اپنا دھن دولت لٹاتے نظر آتے ہیں۔

کولمبس نے اس دنیا کو دریافت کیا اور پھر دریافت در دریافت کا ایسا سلسلہ چلا کہ تحقیق و جستجو کو ان امریکیوں نے اپنی عادت ثانیہ بنالیا۔ ہیوسٹن شہر کے حسین فلائی اوورز، مرکز شہر کی بلند عمارتیں، ناسا کا ستاروں پر کمند ڈالنے کی جستجو کرتا ادارہ اور صاف ستھری سڑکوں پر ٹریفک کا اعلیٰ ترین نظم و ضبط، ہر چیز ہی خوب سے خوب تر کی جستجو کی عکاس ہے۔

جہاں نظر ڈالیں سلیقہ اور نظم و ضبط، جیسے ہر چیز گڑیا کے گھر میں سلیقے اور نفاست سے اپنی جگہ رکھ دی جائے۔ موسم کے لحاظ سے ہیوسٹن ایک آئیڈیل شہر ہے کہ سردی اور گرمی تو پڑتی ہے مگر شدید موسموں کا گزر نہیں۔ تیل کی دولت سے مالا مال ریاست ٹیکساس کا دارالحکومت ہونے کے ناتے یہ شہر تجارتی و صنعتی سرگرمیوں کا مرکز تو ہے مگر اس قسم کی ہلچل اور شور و شغب سے کسی قدر دور ہے جو اکثر بڑے شہروں کا مزاج بن جاتا ہے۔

شاپنگ سینٹرز میں ’’گیلریا‘‘ قابل ذکر ہے، جہاں کہا جاتا ہے کہ سالانہ تین کروڑ افراد شاپنگ کرتے ہیں۔ یہاں بے حد کشادہ کمپلیکس کے اندر 400 سے زیادہ مشہور برانڈز کی دکانیں، چین ریسٹورنٹس، دو عدد ہوٹل اور بچوں کی دل چسپی کے ’’پلے ایریا‘‘ موجود ہیں۔ گیلریا کے علاوہ ولیم ٹاور شہر کے قلب میں واقع بلند ترین عمارت ہے۔ 64 منزلہ یہ عمارت خود ریاست ٹیکساس کی بھی چوتھی بلند ترین عمارت ہے اور اس میں واقع دفاتر سیاحوں میں بڑی دل چسپی کا باعث ہیں کہ فن تعمیر کا عمدہ نمونہ ہیں۔ شہر میں کھانے پینے کے بہت سے مراکز ہیں، جن میں کچھ خالصتاً پاکستانی آبادیوں کے بیچ ہیں اور اہل وطن میں خاصے مقبول ہیں۔

ایک ریسٹورنٹ میں جانے کا موقع ملا جس میں داخلے کے لیے ادائیگی کرنی تھی۔ اس کے بعد ’’سیلف سروس‘‘ تھی۔ نام غالباً ’’سوئیٹ ٹماٹو‘‘ تھا اور اس میں سب سے دل چسپ وہ جگہ تھی جہاں آئسکریم کی مشین سے آپ خود اپنی مرضی اور ذائقے کی آئسکریم کا پیالہ تیار کریں اور اپنی پسند کی اشیا سے آئسکریم کی سجاوٹ کریں۔ گویا مزہ دوآتشہ کریں۔

ہیوسٹن میں قیام کے دوران ہی ’’تھینکس گیونگ‘‘ کا تہوار آگیا جس میں امریکا بھر میں سب سے بڑی سیل لگتی ہے اور لوگ بعض اوقات اصل سے 70 فی صد کم قیمت میں دل کھول کر ضرورت و آسائش کی اشیا خریدتے ہیں۔ شہر شہر اور قریہ قریہ رنگوں اور روشنیوں سے سجایا جاتا ہے کہ اس کے فوراً بعد کرسمس کی آمد کی تیاریاں ہوتی ہیں۔ گھروں کے باہر خوب صورت روشنیاں اور سجاوٹی اشیا رکھ دی جاتی ہیں، جن کے چوری ہونے کا کسی کو خطرہ نہیں ہوتا۔

اس تہوار کے تعلق سے یہ حکایت سنی کہ یورپ میں مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ واریت کے مارے ہوئے پناہ گزین جب براعظم امریکا وارد ہو رہے تھے تو یہاں کے مقامی ریڈانڈینز نے انھیں گرم جوشی سے گلے لگایا اور دعوت کھلائی، مہربان بھائیوں سے ملوانے پر خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے یہ تہوار منایا جاتا ہے۔ اس روز مجھے شکاگو کے لیے پرواز کر جانا تھا۔ البتہ جانے سے پہلے خالہ زاد بہن عطیہ کے ہاں ’’تھینکس گیونگ‘‘ کے روایتی امریکی ٹرکی ودیگر اشیائے خورو نوش پر مشتمل ظہرانے کی دعوت یادگار رہی، جس کے فوراً بعد میں یونائیٹڈ ایئرلائن کی پرواز سے شکاگو کی طرف عازم سفر تھی۔

غالباً تھینکس گیونگ کا چمتکار تھا کہ جوس کے ساتھ ایک بے حد لذیذ بسکٹ کیک سے مسافروں کی تواضح کی گئی۔ ورنہ امریکا میں اندرون ملک پروازوں میں ہمارے ہاں ریل کے مسافروں کی طرح کباب پراٹھے کا توشہ لانا لازمی ہے ورنہ سفر ختم ہونے کا انتظار کریں کہ ایئرلائن والے آدھے گلاس سے زیادہ جوس دینے کے بھی روادار نہیں ہوتے۔ اندرون ملک پرواز کا ٹکٹ منہگا نہیں بل کہ اگر آپ کافی دن پہلے بکنگ کروالیں تو کافی سستا پڑتا ہے۔ تاہم ’’ہینڈ کیری‘‘ یعنی ہاتھ میں پکڑے سامان کے علاوہ کچھ سامان ہے یا ہاتھ میں موجود سامان کا وزن زیادہ ہوگیا ہے تو اضافی ڈالر تیار رکھیں کہ ایئرپورٹ پر سامان کی ٹرالی سمیت یہاں کچھ بھی مفت نہیں۔

شکا گو کے اوہیئر ایئرپورٹ پر لینڈنگ ہوئی، خیال آیا امریکی سیاست میں ہواؤں کے رخ کا تعین کرنے کے حوالے سے مشہور اس شہر کی ایک پہچان مزدوروں اور محنت کشوں کی اپنے حقوق کے لیے کی گئی جدوجہد اور اس سلسلے میں دی جانے والی لازوال قربانیاں بھی ہیں، جن کی یاد میں یکم مئی کو دنیا بھر میں یوم مزدور منایا جاتا ہے۔

دل میں اس شہر کی تاریخی عظمت کا احساس لیے باہر آئی تو بدر چچا اور مصطفی چچا اتنی محبت اور بے قراری سے بڑھ کر ملے کہ اتنے سالوں کی دوری کا گمان تک نہیں رہا۔ گھر پہنچنے پر دادی جان جو رشتے میں پاپا کی ممانی ہیں اور دیگر منتظر چچیوں، پھوپھو اور ان کے بچوں سے ملاقات ہوئی، تو مجھے لگا جیسے میرے لیے امریکا ہی پاکستان بن گیا ہے۔

ان تمام نوخیز کنزنز کو حصول علم کی جدوجہد میں مصروف اور غم روزگار کے جھمیلوں میں والدین کا ہاتھ بٹاتے دیکھ کر سمجھ آیا کہ کام یاب معاشرے نئی نسل کی ذہنی اخلاقی اور فنی تربیت کرکے کیوںکر انھیں معاشرے کے ذمے دار اور کار آمد شہری بناتے ہیں اور ہم کسی طرح کسی پیشے کو حقیر اور کسی کو باعث عزت قرار دے کر بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کھیپ کی کھیپ تیار کرنے میں مشغول ہیں، جو عملی زندگی میں قدم رکھتے وقت کسی بھی قسم کے سابقہ تجربے سے محروم ہوتے ہیں اور براہ راست ’’افسر‘‘ بننے کے خواب دیکھتے ہیں۔

شکا گو شہر پاکستانی تارکین وطن کی پسندیدہ اقامت گاہ بھی ہے۔ وہاں اہل وطن اتنی بڑی تعداد میں آباد ہیں کہ ایک گلی یا سڑک تو قائداعظم محمد علی جناح کے نام سے موسوم ہوگئی ہے۔

ہندوستانی اور بنگلادیشی نژاد چہرے بھی ہر سو نظر آتے ہیں۔ طہورہ ریسٹورینٹ منیر انکل سے ملاقات کا مقام بھی ٹھہرا، جن سے رابطہ برس ہا برس سے ای میلز اور ٹیلی فون تک محدود تھا، مگر جن کی محبت کی خوش بو بچپن سے ساتھ رہی تھی۔

طہورہ ریسٹورنٹ کی مٹھائیاں، چاٹ، چنے، سموسے اور دیگر چٹخارے پورے امریکا میں پاکستانیوں میں مشہور و مقبول ہیں۔ سچ پوچھیں تو وطن عزیز میں ملاوٹ اور جعل سازی اس قدر عام ہوچکی ہے کہ خود مجھے بھی طہورہ کی چاٹ، کراچی کے مشہور مراکز میں ملنے والی چنا چاٹ سے کہیں زیادہ صاف ستھری اور ذائقہ دار محسوس ہوئی۔

شکاگو میں جہاں سفید فام افراد سے زیادہ زمانہ حال کے ایشیائی تارکین وطن نظر آتے ہیں، وہیں جابجا یہودیوں سے بھی ٹاکرا ہوتا ہے، جن میں سے بیشتر سر پر چھوٹی سیاہ ٹوپیوں، لمبی داڑھی اور ہاتھ میں تسبیح کے ساتھ الگ ہی پہچانے جاتے ہیں۔ یہودی خواتین کے ڈھکے سر لمبے لمبے اسکرٹ ان کی مذہبی شناخت کو نمایاں کرتے ہیں۔ سر ڈھکنے کا انداز مسلمان خواتین کے حجاب سے مختلف ضرور ہوتا ہے مگر مقصد وہی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابراہیمی مذاہب میں سے جدید ترین مذہب اسلام کس طرح اپنے پیشرو مذاہب یہودیت اور عیسائیت کی منطقی و حتمی تکمیل ہے۔

امریکا کے بارے میں میرا ذاتی دل چسپ مشاہدہ بظاہر بے دین معاشرے میں قدم قدم پر موجود چرچ ہیں۔ ساتھ ہی یہودیوں اور مسلمانوں کا اپنی اپنی مذہبی شناخت اور ظاہری حلیے پر بالعموم سختی سے کاربند رہنا کسی قدر معنی خیز ہے۔ وہاں میں جتنے پاکستانیوں سے ملی ان کے بارے میں یہ احساس غالب رہا کہ شعوری طور پر وہ پاکستان سے شناخت کا رشتہ کم سے کم کرنے کی فکر میں ہیں اور پوری طرح امریکی فرزند زمین کہلانا چاہتے ہیں۔

تاہم مذہبی عقائد اور اسلام کی رسی کو انھوں نے لاشعوری طور پر کچھ اور مضبوطی سے تھام لیا ہے۔ ان کی اگلی نسل شاید امریکی مسلمانوں کا ایک خوب صورت چہرہ ثابت ہوسکے گی۔

شکاگو میں قیام کے دوران مجھے مرکزِشہر میں عظیم لیک مشی گن اور ان بلند و بالا عمارتوں کے نظارے کا موقع بھی ملا، جن کا مجموعی فن تعمیر بلاشبہہ ایک عجوبہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ولسن ٹاور تو خیر 108 منزلہ بلند ترین عمارت ہے ہی جس کی چھت پر شیشہ نما چھجا نکالا گیا ہے۔ جب آپ اس کی انتہائی بلند شیشے کے فرش پر کھڑے ہوکر نیچے نظر ڈالتے ہیں تو مارے خوف کے سانس اٹکنے لگتی ہے، اور ایک ممکنہ خطرہ دل کی دھڑکن روکتا ہے اگر شیشہ ٹوٹ گیا تو!

شہر کا قلب جو امریکا میں ڈاؤن ٹاؤن کہلاتا ہے، عموماً تمام دفاتر، کالجز، یونی ورسٹیز اور سرکاری عمارتوں کا مرکز ہوتا ہے، جب کہ لوگ اس کے گردونواح میں رہائشی علاقوں میں رہتے ہیں۔ مرکز شہر کے علاوہ آمدورفت کے لیے ذاتی گاڑی یا ٹیکسی کے علاوہ کوئی اور ذریعۂ سفر نہیں ہے۔ شکاگو چوںکہ ایک بڑا شہر ہے، اس لیے نئے نئے تارکینِ وطن اس کے مرکز میں رہنا پسند کرتے ہیں کہ آمدورفت کے ذرائع میسر ہیں۔

جونہی میں اس علاقے میں داخل ہوئی یہاں کی عمارتوں کے نظارے نے مجھے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ کئی بار مجھے خود کو یقین دلانا پڑا کہ ان عظیم الشان بلند و بالا عمارتوں کو جو ایک بے مثال پینٹنگ کی طرح سامنے آتی ہیں میں اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں۔ چوں کہ مجھے ڈزنی لینڈ، میامی کے ساحل اور ہالی وڈ کا حیرت کدہ دیکھنے کا موقع نہیں ملا، اس لیے میں شکاگو کے ڈاؤن ٹاؤن کے انوکھے فن تعمیر کو امریکا کی یاترا کا سب سے بے مثال نظارہ قرار دوں گی۔

شکاگو سے رخت سفر باندھنے کا خیال آیا تو اگلی منزل بالٹی مور شہر تھا، جہاں میری دل چسپی کی واحد وجہ جان ہاپکنز یونی ورسٹی، اسپتال اور اس کے ذیلی اداروں میں سے ایک بلوم برگ اسکول آف پبلک ہیلتھ تھا۔ والد صاحب کی خواہش اور حوصلہ افزائی ہی تھی کہ میں نے بالٹی مور جانے پر کمر کس لی۔

چوںکہ ہوائی ٹکٹ کا پہلے سے انتظام نہیں تھا، چناںچہ میں بذریعہ بس پندرہ سولہ گھنٹے کے سفر پر کمربستہ تھی۔ اس میں کچھ فخر کا خفیہ پہلو بھی ہوتا کہ ایک تنہا پاکستانی لڑکی اکیلے اجنبی شہر کی طرف جائے اور واپس آکر اپنی ساتھی خواتین کو ایک قسم کی خودساختہ جرأت و بہادری کے قصے سنائے۔ تاہم شکاگو میں موجود خاندان کے جملہ بزرگوں کی مامتا اور رگ حمیت پھڑک اٹھی اور مصطفی چچا نے مجھے ہوائی جہاز کا ٹکٹ لاکر دیا۔

بالٹی مور میں میڈیکل کالج کے دوست اور ان کے اہل خانہ دریافت کرلیے گئے تھے، لہٰذا میں بالکل اکیلی تو نہ تھی، تاہم ایک جوش و خروش ضرور گدگداتا تھا کہ اس پورے سفر میں شاید یہاں میں بڑی حد تک خودمختار اور اپنی ذمے دار آپ ہوں۔ اجنبی شہر کے اجنبی راستے میری تنہائی پر یقیناً مسکرا نہیں رہے تھے، بل کہ ان کا اسرار مجھے اپنی طرف کھینچتا تھا۔ مخصوص امریکی فن تعمیر یہاں کی بلند عمارتوں میں بھی جھلکتا تھا تو بحری بندرگاہ کا یخ بستہ پانی مہم جوئی کی دہکتی آگ کو ٹھنڈا کررہا تھا۔

میرا مقصد تو جان ہاپکنز یونی ورسٹی کمپلیکس، لائبریری اور بلوم برگ اسکول میں وقت گزارنا اور پروفیسرز سے کچھ علمی بحثیں کرنا تھا، مگر آزادی کا ایک جانفرا احساس بھی تھا جو اس وقت کسی قدر کرکرا ہوا جب میرے ڈاکٹر کلاس فیلو نے تنبیہ کی کہ یہاں شام کے بعد اکیلی مت نکلنا، مجھ سے رابطے میں رہنا راستے مت بھولنا کسی اجنبی سے بات مت کرنا، پچاس سینٹ کے لیے یہاں قتل ہوجاتا ہے، پیسے مت نکالنا۔ اوہ میرے خدا میں نے منہ بناتے ہوئے سوچا کیا میں پاکستان ہی میں ہوں، وہی ماحول وہی حالات۔

بالٹی مور میں میرا خیال تھا کہ میں کم از کم حلال فوڈ چنیز کو ضرور خدمت کا موقع دوں گی کہ اور تو کہیں میرے میزبان مجھے خود سے کھانے پینے کے بارے میں سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتے تھے۔ میزبانی کی پاکستانی روایت وہاں پوری طرح زندہ تھی، مگر یہاں زاہد کی مسز نے ان کی جگہ سنبھال لی اور اپنے بے لوث انداز میزبانی اور لذیذ کھانوں سے اس طرح متاثر و مرعوب کیا کہ باہر سے کچھ کھانے کا خیال تک بھی دل میں نہیں آیا۔ البتہ ان کے ساتھ ہی لال قلعہ ریسٹورنٹ بالٹی مور میں جانا ہوا اور کراچی کی فضاؤں اور ذائقوں کے تذکرے رہے۔

بالٹی مور سے میری حتمی منزل نیو یارک تھی، جو یہاں آنے سے پہلے تک میری خوش گمانیوں میں اصل امریکا تھا۔ ٹوئن ٹاورز، پھر نائن الیون کے بعد وہاں تعمیر کردہ یادگار جو اس صورت بنائی گئی ہے گویا فرشتے معصوموں کی روحیں لے جارہے ہیں، مین ہٹن کے روشن بازار، ٹائمز اسکوائر جہاں اتنا رش رہتا ہے کہ چند منٹ وہاں کھڑے ہوجائیں تو دنیا کی ہر قومیت اور رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے انسان کو دیکھ لیں، وال اسٹریٹ جہاں کے بینک دنیا کی معاشی شہہ رگ کو کنٹرول کیے ہوئے ہیں اور پھر سمندر میں کھڑا امریکی مجسمۂ آزادی۔ ان مقامات کی سیر کا لطف ناہید آپا کی ہم راہی اور پُرخلوص میزبانی نے دوبالا کردیا۔

بالٹی مور سے نیو یارک تک کا چھے سات گھنٹے کا سفر بذریعہ گرین ہاؤنڈ بس طے کرنے کا فیصلہ کرنے میں میں آزاد تھی۔ کیلی فورنیا واقعے کے بعد تن تنہا بوسٹن جاکر ہاورڈ یونی ورسٹی کی فضاؤں کو محسوس کرنا ممکن نہ رہا تھا، چناںچہ نیو یارک اور اس سے جڑواں نیو جسی سٹی ہی اب میری مہم جوئی کا مرکز تھے، جس میں ساتھ رہنے کے لیے پرانے کلاس فیلوز عدنان اور نوشین اپنے اپنے اہل خانہ سمیت دوش بدوش تھے۔ خصوصاً کفایت شعاری سے خریداری میں عدنان نے، جو ذہنی و نفسیاتی مریضوں کے اسپتال میں بہ طور ڈاکٹر خدمات انجام دے رہے ہیں، ایسی مہارت حاصل کرلی ہے کہ میں مرعوب سی ہوگئی۔ جب میرے دوست مجھے بتاتے ہیں کہ ہم امریکا آئے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ایئرپورٹ سے نکل کر کہاں جانا ہے، جب میڈیکل لائسنس ایگزامز کی تیاری کے دوران گیس اسٹیشنز پر کام کرتے ہوئے وہ خوف ناک سرد موسم اور مشکل گاہکوں کی کہانیاں سناتے ہیں تو ان کے عزم و ہمت پر فخر کا احساس ہوتا ہے۔

امریکا مواقع کی سرزمین کہلاتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جس نے طرح طرح کے انسانوں کو اپنے دامن میں جذب کیا ہے۔ البتہ سیاہ فام امریکی اکثر اب بھی ناراض اور اکھڑے اکھڑے سے معلوم ہوتے ہیں۔ سب نہیں مگر اکثر کے انداز کی جارحیت اور بھاری تن و توش آپ کو کسی قدر ہم دردی اور تاسف میں مبتلا کردے گا۔ مواقع کی اس سرزمین پر سیاہ فام اپنے مواقع اب بھی ڈھونڈ رہے ہیں۔

دوسری طرف ایک ساتھی ڈاکٹر صاحبہ سے فون پر بات چیت رہی جو پاکستان میں سرجری میں اسپیشلائزیشن کررہی تھیں، مگر سب چھوڑ چھاڑ کر امریکا چلی آئیں یہاں کے امتحانات پاس کیے اور اب یہیں اعلیٰ طبی تربیت حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ میں نے پوچھا پاکستان میں تو آپ اب تک اسپیشلسٹ سرجن بن چکی ہوتیں ان کا جواب تھا، ’’عائشہ! میں وہاں لوگوں کے رویے سے تنگ آگئی تھی۔ وہاں میری قابلیت نہیں ظاہری شکل و صورت اور بلند قامت ڈسکس  کی جاتی تھی۔ میں وہاں مس فٹ تھی۔‘‘

امریکی سرزمین نے ان کی قابلیت کے ساتھ انھیں خود میں جذب کرلیا جب کہ یہاں صدیوں سے اقامت پذیر سیاہ فام اب بھی ’’مس فٹ‘‘ سے ہیں۔ امریکا صرف مواقع کی نہیں تضادات کی سرزمین بھی ہے۔ ادھر پاکستانی معاشرے کے ناخواندہ اور ذہنی پس ماندہ بونوں میں ایک بلند قامت تعلیم یافتہ خاتون جلاوطنی کی سزا وار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔