این ٹی ایس؛ نیشنل ٹھگ سروس

عثمان حیدر  ہفتہ 2 اپريل 2016
اگر متعلقہ اداروں نے این ٹی ایس کے اس مالی و تکنیکی کردار پر گرفت نہ کی تو نوجوانوں میں بے روزگاری اور میرٹ کا قتل جاری رہے گا۔

اگر متعلقہ اداروں نے این ٹی ایس کے اس مالی و تکنیکی کردار پر گرفت نہ کی تو نوجوانوں میں بے روزگاری اور میرٹ کا قتل جاری رہے گا۔

یوں تو پاکستان میں کئی ایسے ’’باکمال‘‘ ادارے موجود ہیں، جن کے کمالات ہم آئے روز دیکھتے رہتے ہیں لیکن نیشنل ٹیسٹنگ سروس المعروف این ٹی ایس نامی ادارے کی تو بات ہی الگ ہے۔ مختلف تعلیمی اداروں کیلئے داخلہ امتحان منعقد کرانے کی غرض سے بنایا جانے والا یہ نام نہاد غیر منافع بخش ادارہ اب سینکڑوں سرکاری و غیر سرکاری اداروں کیلئے مختلف اسامیوں پر بھرتی کیلئے ’’ریکروٹمنٹ ٹیسٹ‘‘ کی مد میں اپنے کمالات کی بناء پر سالانہ کروڑوں روپے کا منافع کما رہا ہے۔

چند ماہ قبل ایکسپریس نیوز پر اس ادارے اور اس کے کرتا دھرتا حضرات کے’’کمالات‘‘ کے حوالے سے ایک مفصل رپورٹ نشر کی گئی اور قومی اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی کی جانب سے بھی اس ادارے کا آڈٹ کرانے کی خبریں سامنے آئیں، لیکن پھر ہمیشہ کی طرح یہ معاملہ بھی داخل دفتر کردیا گیا۔ ایک طرف این ٹی ایس کے مالی معاملات مشکوک ہیں تو دوسری طرف امتحانی طریقہ کار نے بھی پڑھے لکھے نوجوانوں کے مستقبل پر تلوار لٹکا رکھی ہے۔ چند جنرل ٹیسٹ چھوڑ کر این ٹی ایس کے اکثر امتحانی پرچہ جات انتہائی غیر معیاری اور غیر متعلقہ نصاب سے بھرے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک کی ممتاز جامعات سے تعلیم یافتہ نوجوان اپنے ہی متعلقہ شعبہ کے امتحانی پرچہ جات حل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ ایم فل اسلامیات کے داخلہ ٹیسٹ میں آدھے سے زیادہ سوالات ریاضی اور سائنس سے متعلق پوچھے جاتے ہیں تو بیالوجی کے ٹیسٹ میں آدھے سے زیادہ نمبر کمپیوٹر، انگریزی اور کیمسٹری کے بارے میں ہوتے ہیں۔

اگر حادثاتی طور پر این ٹی ایس متعلقہ مضمون کے سوالات پر مبنی پرچہ بنا بھی لے تو جہاں بیچلر ڈگری کی پوسٹ ہے وہاں ماسٹرز لیول کے سوالات پوچھے جاتے ہیں اور جہاں ماسٹرز لیول کی پوسٹ ہو وہاں پی ایچ ڈی لیول کے سوالات کی بھرمار ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں پنجاب میں اسکول ایجوکیٹرز کیلئے لیا گیا ٹیسٹ این ٹی ایس کے کمالات کی ایک تازہ مثال ہے۔ پنجاب بھر میں 33 ہزار اسامیوں کیلئے لاکھوں امیدواروں نے یہ ٹیسٹ دیا۔ اکثر امیدوار تو ایسے تھے جو نویں، چودھویں اور سولہویں اسکیل کے تینوں امتحانوں میں شریک ہوئے۔ این ٹی ایس کے بنائے گئے پرچے کے اکثر سوالات امیدواروں کے سر پر سے گزر گئے کیونکہ نویں اسکیل کی پوسٹ کیلئے نہ جانے دنیا کی کس کس کتاب سے انتہائی بے تکے سوالات پرچے کی زینت بنادیئے گئے۔

امتحان تو اسکول استاد بھرتی کرنے کیلئے لیا جا رہا تھا جب کہ سوالات انجینئرنگ اور میڈیکل کی کتابوں سے پوچھے جا رہے تھے، جو امیدوار ابھی سرکاری نوکری کیلئے امتحان کے مراحل سے گزر رہے تھے ان سے پرچے میں سروس بک کے رموز و اوقاف کے بارے میں استفسار کیا جا رہا تھا کہ سروس بک کے فلاں خانے میں فلاں جگہ پر کیا لکھا جاتا ہے؟ اور یہ کہ کالی روشنائی سے لکھا جاتا ہے یا نیلی سے؟ عربی استاد کے پرچے میں عربی کے سوالات کم اور سائنس و انگریزی کے سوالات زیادہ تھے۔ بھرتی عربی کا استاد کرنا ہے اور سوال یہ پوچھا جا رہا تھا کہ انسانی جسم کے کس حصہ میں آئرن کی مقدار کا زیادہ ذخیرہ پایا جاتا ہے؟ اور جب نتیجہ آیا تو سینکڑوں امیدوار ایسے تھے جو نویں اسکیل کے پرچے میں تو ناکام ہوگئے لیکن وہی امیدوار سولہویں اسکیل کے پرچے میں کامیاب قرار دے دیئے گئے۔ نتیجہ کا یہ رجحان کیا این ٹی ایس کا پول کھولنے کیلئے کافی نہیں؟

غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ایجوکیٹرز کی تعیناتی کیلئے لئے گئے امتحان میں کل ملا کر 10 فیصد سے بھی کم امیدوارکامیاب ہوئے ہیں اور اب یہ حالت ہے کہ سیٹیں زیادہ ہیں اور کامیاب امیدوار کم۔ اس صورتحال سے ’’نمٹنے‘‘ کیلئے اطلاعات ہیں کہ این ٹی ایس دوبارہ امتحان منعقد کرنے والا ہے اور اس مد میں امیدواروں سے ایک بار پھر کروڑوں روپے نکلوانے کا منصوبہ زیر تکمیل ہے۔

کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ شاید این ٹی ایس ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت ایسے پرچے ترتیب دیتا ہے کہ کم سے کم امیدوار کامیاب ہوں تاکہ ایک مرتبہ پھر ان کی جیبوں سے فیس کی مد میں لاکھوں روپے ہتھیائے جاسکیں۔ انہی مالی قلابازیوں کی بنیاد پر این ٹی ایس کو نیشنل ٹیسٹنگ سروس کی بجائے نیشنل ٹھگ سروس کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے این ٹی ایس کے امتحان میں ناکام ہوجانے کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں کہ یا تو جن جامعات سے ان امیدواروں نے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کی ہیں وہ یونیورسٹیاں تھرڈ کلاس ہیں یا پھر این ٹی ایس کا امتحانی نظام تھرڈ کلاس ہے۔ حالات و واقعات دوسری وجہ کے درست ہونے کی طرف واضح اشارہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر متعلقہ اداروں نے این ٹی ایس کے اس مالی و تکنیکی کردار پر گرفت نہ کی تو نوجوانوں میں بے روزگاری اور میرٹ کا قتل جاری رہے گا، جو پہلے سے مسائل زدہ پاکستان کو مستقبل میں مزید مشکلات کا شکار کر دے گا۔

این ٹی ایس کے امتحانوں میں یہی صورتحال برقرار رہی تو شاید آج سے سو سال بعد دادیاں اپنے پوتے پوتیوں کو واٹس ایپ پر کہانیاں سناتے ہوئے بتائیں گی کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ملک میں ایک ارب پتی خیراتی امتحانی ادارہ تھا، جو اسلامیات کے پرچے میں سو میں سے 70 سوال بیالوجی کے پوچھتا تھا اور حیرت انگیز بات یہ تھی کہ کئی لوگ اس پرچے میں کامیاب بھی ہوجاتے تھے۔

این ٹی ایس سے متعلق بیان کیے گئے نکات سے کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
عثمان حیدر

عثمان حیدر

بلاگر کا تعلق لیہ سے ہے۔ یو ای ٹی ٹیکسلا سے انجینئرنگ گریجویٹ ہیں اور آج کل واسا لاہور میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات ہیں۔ گزشتہ چھ برس سے مختلف موضوعات پر کالم اور بلاگز لکھ رہے ہیں۔ فیس بک آئی ڈی usman.haider.7503 ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔