کیا پانامہ لیکس بھی ’سازش‘ ہے؟

فرمان نواز  منگل 5 اپريل 2016
جن لوگوں کا نام پانامہ پیپرز میں ہے ان کو فوری طور پر الزامات کے ثبوت مانگنے چاہیے اور اگر ثبوت نہ دیے جاسکیں تو سینہ چوڑا کرکے آئیے گا لیکن اگر ثبوت مل جائیں تو حکمرانی کو چھوڑنے میں بالکل بھی تاخیر مت کیجیے گا۔

جن لوگوں کا نام پانامہ پیپرز میں ہے ان کو فوری طور پر الزامات کے ثبوت مانگنے چاہیے اور اگر ثبوت نہ دیے جاسکیں تو سینہ چوڑا کرکے آئیے گا لیکن اگر ثبوت مل جائیں تو حکمرانی کو چھوڑنے میں بالکل بھی تاخیر مت کیجیے گا۔

پاکستان کا شمار اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر ایک نیا موضوع انگڑائی لیتا ہے اور پھر ڈرائنگ روم، دفاتر اور دوستوں کی محافل میں اُسی موضوع پر لوگ تجزیے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ روز بھی ایسا ہی ہوا جب پانامہ پیپرز نے دنیا بھر کے ایسے سرمایہ داروں کی معلومات ریلیز کی جنہوں نے خفیہ طریقوں سے دولت کے انبار جمع کئے ہیں۔ ان دستاویزات میں پاکستانیوں سمیت دنیا بھر سے بڑے بڑے نام شامل ہیں جبکہ وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کا ذکر بھی اِس فہرست میں کیا گیا ہے۔ 

اس سے پہلے ہم آپ کو یہ بتائیں کہ یہ سارا معاملہ کیا ہے اور کس نے کیا کیا کارنامے سرانجام دیئے، بہتر یہ ہوگا کہ پانامہ پیپرز کا تھوڑا سا تعارف پیش کیا جائے۔ پانامہ پیپرز کو کارپوریٹ سروسز فراہم کرنے والی موزیک فونیسکا نے ترتیب دیا ہے۔ موزیک فونیسکا لاء فرم ہے جس کے پوری دنیا میں 40 دفاتر ہیں۔ اس فرم کی بنیاد 1977ء میں جارگن موزیک نے رکھی۔ بعد میں رامن فونیسکا نے بھی اِس میں شمولیت اختیار کرلی۔ مزے کی بات یہاں یہ ہے کہ جارگن موزیک، ارحرڈ موزیک کا بیٹا ہے اور یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ ارحرڈ موزیک نازی پارٹی کی آرمڈ ونگ کا حصہ رہ چکے ہیں، پھر بعد میں اُس نے امریکی سی آئی اے کیلئے کام شروع کردیا اور کیوبا کی جاسوسی کی۔ رامن فونیسک ایک ناولسٹ اور وکیل ہے۔ رامن فونیسک پانامہ کے صدر کا منسٹر کونسلر تھا اور پانامینسٹا پارٹی کا صدر تھا۔ رامن فونیسک کو مارچ 2016ء میں برازیلین آپریشن کار واش کی وجہ سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ آپریشن کار واش منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا مشن ہے جس کو برازیلین پولیس چلا رہی ہے۔

اب اِس کمپنی کو چلانے والے دونوں ہی حضرات متنازعہ شخصیت کے مالک ہیں، متنازعہ اِس لیے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی ایسے کاموں پر صرف کردی جو خفیہ طریقوں سے کیے جاتے رہے، لیکن کمال دیکھیے کہ آج اُن کی اولادیں دنیا بھر کے خفیہ طریقوں سے دولت جمع کرنے والوں کی تلاش کا کام کررہی ہیں، بلکہ ایک فہرست بھی جاری کردی ہے۔ پاکستان کے حالات اور یہاں ہونے والی بدعنوانی کو دیکھنے کے بعد ہم گمان ضرور کرسکتے ہیں کہ ان لیکس میں بہت حد تک حقیقت ہوسکتی ہے لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ضرور ہے کہ کہیں ایسے متنازعہ مالکان کے فرم کی رپورٹ دودھ کی دھلی ہوسکتی ہے؟

چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ پاکستان کے حکمراں خاندان نے ملکی دولت باہر بھجوائی لیکن ہمارے پڑوس بھارت کا کیا؟ کیا وہاں سب ایماندار ہیں؟ کیا وہاں بد عنوانی نہیں ہوتی؟ کیا وہاں کسی سیاست دان نے ملکی دولت باہر نہیں بھجوائی؟ جی کم از کم پانامہ لیکس تو ایسا ہی بتارہی ہیں، اگرچہ کچھ فنکاروں کا ذکر ضرور ہے جن میں امیتابھ بچن اور ایشوریا بچن کا نام سرفہرست ہے مگر سیاستدانوں کا نام اس فہرست میں شامل نہیں۔

یورپ والے بھی بڑے عجیب ہیں۔ پہلے ہمارے حکمرانوں کو خفیہ دولت جمع کرنے اور مغربی بنکوں میں محفوظ رکھنے کے طریقے بتاتے ہیں اور بعد میں خود ہی اُن کا بھانڈا پھوڑ دیتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ لیکن ایسی عادتیں تو بازاری عورتوں کی ہوا کرتی ہیں۔

اِن لیکس میں جن اہم شخصیت یا اُن سے جڑے افراد کا نام شامل ہیں وہ یہ ہیں۔

  • وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کے چار میں سے تین بچوں کا ذکر ہے۔
  • برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے والد کا ذکر ہے۔
  • روسی صدر پوٹن کے قریبی رفقا
  • چینی صدر کے بہنوئی
  • آئس لینڈ کے وزیراعظم سگمندر گنلاگسن (Sigmundur Gunnlaugsson)

سامراجی طاقتیں جس کسی قوم کے خلاف اقدام کرنا چاہتی ہیں تو سب سے پہلے میڈیا وار لڑی جاتی ہے۔ اگر مد مقابل قوت میڈیا وار کا شکار نہیں بنتی تو دوسرا مرحلہ معاشی پابندیوں کا ہوتا ہے اور تیسرا مرحلہ میدان جنگ کا ہے۔ جہاں یہ قوتیں اپنے ہتھیاروں کے زور سے جنگ جیتتی ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے ایک نیا ہتھیار میں سامنے لایا گیا ہے، ابھی کچھ ہی عرصے پہلے کی بات ہے جب دنیا بھر میں وکی لیکس کا چرچا تھا۔ ابھی اُن کی بازگشت ختم ہی ہوئی تھی کہ اچانک پانامہ لیکس میدان میں آگئی ہیں۔

جس طرح اوپر کہا کہ یہ عین ممکن ہے کہ جو کچھ اِن لیکس کے ذریعے بتایا گیا ہے وہ بالکل ٹھیک ہو کہ حکمراں خاندان اور دیگر سیاستدانوں نے ملکی دولت بیرون ملک بھجوائی ہو لیکن اِس کا ذمہ دار میں سیاستدانوں کے بجائے عوام کو سمجھتا ہوں۔ یقیناً آپ میں سے بہت لوگ حیران ہونگے کہ بھلا یہاں عوام کہاں سے آگئی۔ دیکھیئے جناب! چاہے بات ہو مسلم لیگ (ن) کی یا پاکستان پیپلز پارٹی کی۔ یہی وہ دونوں جماعتیں ہیں جنہوں نے جمہوری دور میں سب سے زیادہ وقت عوام پر حکمرانی کی ہے، اور جمہوریت میں حکومتیں عوامی ووٹ سے بنتی ہیں یہ کسی کو بتانے کی ضرورت ہرگز نہیں۔ پھر یہ بھی آج کی بات نہیں کہ دونوں ہی جماعتوں پر مسلسل کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات لگتے رہے، لیکن اِن تمام تر الزامات کے باوجود عوام نے انہی جماعتوں کو ووٹ دیا اور اب بھی دیتے ہیں۔

یہ بھی ممکن ہے کہ آپ سوچ رہے ہوں کہ یہ پارٹیاں ووٹ سے نہیں بلکہ دھاندلی سے حکومت بناتی ہیں، اگر آپ کی یہ بات بھی مان لی جائے تب بھی قصوروار عوام ہی ہیں۔ آپ مزید سوال پوچھیں اِس سے پہلے ہی اِس سوال کا جواب بھی دے دیتے ہیں کہ اگر عوام واقعی یہ سمجھتی تھی کہ یہ جماعتیں دھاندلی سے حکومت میں آتی ہیں تو عوام نے خاموشی کیوں اختیار کیں؟

اِس لیے بہتر یہ ہے کہ حکومت اور سیاستدانوں کو کرپٹ اور چور کہنے سے پہلے آپ کو اور مجھے اپنے اپنے گریبانوں کو جھانکنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ کرپٹ ہیں تو ہم بھی کرپٹ ہیں کیونکہ ہم نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے ایسے جماعتوں کو بار بار حکمرانی کا تاج پہنایا ہے۔ لہذا اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ملک سے لوٹی ہوئی دولت باہر نہیں جائے تو کسی اور کو ٹھیک کرنے سے پہلے اپنا احتساب کیجیے۔

اگر آپ کو میری بات سے اختلاف ہے تو آئس لینڈ کے حالات کا جائزہ لے لیجیے جہاں کے وزیراعظم پر الزام لگنے کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد وزیراعظم ہاوس کے باہر جمع ہوگئے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ جب تک وزیراعظم استعفی نہیں دینگے اُس وقت تک اُن کا احتجاج جاری رہے گا۔

آخر میں ایک التماس اُن تمام سیاستدانوں اور تمام ہی ایسے افراد سے ہے جن کا نام پانامہ پیپرز میں ہے کہ اگر آپ ٹھیک ہے اور کبھی کوئی دولت بیرون ملک نہیں بھیجی تو فوری طور پر ثبوت فراہم کیے جائیں اور اگر ثبوت نہ دیے جاسکیں تو ایسے تمام لوگوں کے سامنے سینہ چوڑا کر کے آئیے گا اپنی بے گناہی کا ثبوت دیجیے، لیکن اگر آپ ایسا نہ کرسکیں تو خدارا عوام سے اپنے کیے کی معافی مانگیے، عوام سے بھی بڑھ کر رب سے معافی مانگیے کہ اُس نے آپ کو خلق خدا کی خدمت کا موقع دیا لیکن آپ نے یہ قیمتی موقع ضائع کردیا۔

پانامہ لیکس کے ذریعے سامنے آنے والے حقائق کو کیا آپ ٹھیک سمجھتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔