جب سر سید کو 500 اشرفیاں ملیں

ڈاکٹر ظفر سعید سیفی  ہفتہ 30 اپريل 2016
ہندوستان کے اولیں مسلم ڈاکٹروں میں شامل ایک معالج کا دلربا قصہ۔ فوٹو :فائل

ہندوستان کے اولیں مسلم ڈاکٹروں میں شامل ایک معالج کا دلربا قصہ۔ فوٹو :فائل

ڈاکٹر شیخ محمد احمد اینگلو میڈیکل کالج، کلکتہ کے پہلے مسلمان گریجویٹس میں شامل تھے۔ ان دنوں ہندوستان کی انگریز حکومت اپنی رعایا کی دل جوئی میں مصروف تھی۔

آمد و رفت اورترسیل و رسائل کی آسانی، قانون کی حکمرانی اور سائنس و ٹیکنالوجی کا فروغ اس کے اہم مقاصد تھے۔ نئے تعلیمی ادارے قائم ہونے لگے۔ نت نئے کارخانے بنے اور گلاسگو سے اسٹیم انجن اور ٹرینوں کے ڈبوں کی آمد آمد تھی۔کلکتہ کے قریب جمشید پور نامی شہر میں فولاد کا ایک بڑا کارخانہ قائم کیا گیا اور وہاں ریلوے پٹڑیاں اور دوسرے پرزہ جات بننے شروع ہوئے۔ اس اقدام سے انگریزوں کو دو مقصد مل گئے: ایک تو رعایا کو انگریزی تعلیم کی طرف راغب کرنا اور دوسرے آمدورفت کے وسائل بڑھا کر جلد سے جلد اپنی سپاہ کو مدد بہم پہنچانا۔

اس زمانے میں علمائے کرام انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے مخالف تھے۔ دوسری طرف سرسید احمد خان ایک کتاب ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ لکھ رہے تھے۔تب عجیب کسمپرسی کا عالم تھا۔ مغل سلطنت کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور تاریخ الٹے قدموں پیچھے ہٹ رہی تھی۔انگریزوں نے کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا اور میڈیکل اور سائنس کی تعلیم کے لیے بھی نئے کالج کھولے۔بعض مسلم نوجوانوں نے ان کالجوں کا رخ کیا اور پہلی دفعہ جدید سائنس اور میڈیکل کی اصطلاحوں سے واقفیت پائی ۔ انہی طلبہ میں میرے پر دادا،ڈاکٹر شیخ محمد احمد بھی شامل تھے ۔

تعلیم کے بعد وہ مہاراجا ناگپور، راؤ جی بھونسلے کے پرسنل فزیشن یا ذاتی ڈاکٹر مقرر ہوگئے۔ وہ انگریزوں سے جدید تعلیم حاصل کرچکے تھے۔ان کی خواہش تھی کہ دیگر مسلمان نوجوان بھی جدید تعلیم پا کر ترقی کریں۔اس دوران سرسید احمد خان نے کتاب ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ لکھ ڈالی۔ انہوں نے بہت خوبصورتی سے عروج و زوال کے فلسفے پر بحث کی اور مسلمانوں کو اکسایا کہ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جس کی بدولت وہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ انہوں نے انگلستان کی دانش گاہوں کا مطالعہ کیا اور کیمبرج و آکسفورڈ کی طرز پر علی گڑھ میں ایک تعلیمی ادارے کا ڈول ڈال دیا۔

ڈاکٹر شیخ محمد احمد نے 1867ء میں اپنی میڈیکل تعلیم مکمل کی تھی۔وہ ناگپور میں پریکٹس بھی کررہے تھے۔وہ چاہتے تھے کہ مسلمان انگریزوں کے شانہ بشانہ چلیں اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح علم کے میدان میں نئی راہیں تلاش کریں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ وہ فقیہہ ،ملا جیونؒ کے پوتے تھے جن کی کتاب ’’نور الانوار‘‘آج بھی درس نظامی کا حصہ ہے۔

اس دوران سرسید احمد خان نے انگلینڈ سے واپسی پر علی گڑھ میں اینگلو اورینٹل اسکول قائم کر لیا۔وہ پھر مالی لحاظ سے ا سکول اور بعد میں کالج کو خودکفیل بنانے کے سلسلے میں چندہ جمع کرنے لگے۔ بیگم صاحبہ بھوپال، نواب رامپور اور نظام دکن نے ان کا ہر ممکن امداد دی۔ایک بار افغانستان کے بادشاہ نے علی گڑھ کا دورہ کیا اور ایک طالب علم کو اسٹیج پر بلا کر سورۂ یوسف تلاوت کرنے کی درخواست کی۔ ماشاء اللہ وہ طالب علم حافظ قرآن تھا اور بہت خوبصورت لحن میں تلاوت کی۔ شاہ افغانستان اتنا روئے کہ رومال آنسوؤں سے تر ہوگیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال رہی اور علی گڑھ کا اسکول ترقی کرتا گیا۔

1890ء میں ایک دن ڈاکٹر شیخ محمد احمد نے مہاراجا ناگپور سے 500 اشرفیوں کا قرض مانگا اور کہا کہ قرضہ ہر ماہ ان کی تنخواہ سے کاٹ لیا جائے۔یہ تب بہت بڑی رقم تھی۔مگر مہاراج دل کا فیاض تھا، اس نے فوراً خزانچی کو حکم دیا کہ ڈاکٹر صاحب کو اشرفیاں فراہم کر دی جائیں۔ انہوں نے مہاراجا کو یہ تو نہیں بتایا کہ اتنی بڑی رقم کس لیے چاہیے لیکن اشرفیاں ملتے ہی علی گڑھ کی طرف کوچ کر دیا۔

سرسید احمد خان سے ڈاکٹر شیخ محمد احمد کی ملاقات دلچسپ ثابت ہوئی۔ اس کا حال دادا نے میرے والد ،ڈاکٹر سعید حامد کو کچھ یوں بتایا ’’جب ڈاکٹر صاحب علی گڑھ پہنچے تو عمر میں بڑے ہونے کی وجہ سے وہ ان کے بزرگ لگتے تھے۔ جب انہوں نے 500 اشرفیاں سرسید کو پیش کیں تو وہ بہت حیران ہوئے کہ وہ تو پیسا پیسا، آنہ آنہ جوڑ کر علی گڑھ کالج کی تعمیر کررہے تھے اور کہاں اب اتنا زر ِکثیر مل گیا۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ یہ تو بہت بڑی رقم ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ تم کام بھی تو بڑا کررہے ہو۔ اس کا نتیجہ آنے میں ایک صدی درکار ہوگی اور یہاں پڑھنے والے علوم و فنون میں دنیا بھر میں نام پیدا کریں گے۔

سرسید نے تب کہا کہ اگر وہ اپنا نام بتادیں تو ایک عمارت پر ان کا نام کندہ کرادیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ’’سید صاحب !نام نہیں کام کی قدر ہوتی ہے اور جو کام تم کررہے ہو اس کا نتیجہ آئندہ سو سال میں آئے گا۔ یہ بھی ایک امتحان ہے اور کامیابی انشاء اللہ ہمارا مقصد ہے۔ وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو مستقبل کی صحیح اور دوررس منصوبہ بندی کرلیں۔‘‘سرسید نے کہا ’’مجھے بہت شرمندگی ہے کہ میں آپ کی کوئی خدمت نہیں کرسکا۔‘‘

یہ نیکی کا بڑا کام تھا اور اس کا صلہ ڈاکٹر صاحب کو جلد مل گیا۔ہوا یہ کہ مہاراجا نے ان کے علی گڑھ جانے کے بعد اپنے منتظم کو ہدایت کی کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے گھر جائے اور دیکھے کے کتنے افراد گھر میں رہتے ہیں تاکہ ان کی ضروریات پوری کرسکیں۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب مشترکہ خاندانی نظام کے تحت اپنے والد، والدہ، دادا، دادی، نانا، نانی، بیٹیوں اور پوتوں کے ساتھ تقریباً 40 افراد کے اخراجات برداشت کر رہے ہیں۔

مہاراجا نے حکم دیا’’ ڈاکٹر صاحب کی واپسی سے قبل ان کے سبھی اہل خانہ کو نئی حویلی میں منتقل کردو۔ اور ہاں سواری کے لیے بگھی کے علاوہ ایک ہاتھی اور دو مہاوت بھی ساتھ کردو۔ جب ڈاکٹر صاحب واپس آئے تو ان کو پورا حال بتایا گیا۔نئی حویلی اتنی کشادہ تھی کہ پورا کنبہ سماگیا۔انھوں نے مہاراجا سے کہا کہ وہ اس پرانے گھر میں بھی پورے کنبے کی کفالت کررہے تھے۔ مہاراجا بولا ’’ ڈاکٹر صاحب! میں بھی تو آپ کا احسان مند ہوں کہ آپ کے علاج سے بھگوان نے مجھے صحت کی دولت بخش دی۔یہ بتائیے ،میں آپ کے لیے اور کیا کرسکتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے شکریہ ادا کیا اورچلے آئے۔جب ڈاکٹر صاحب ریٹائر ہوئے تو مہاراجا نے ناگپور اور رائے پور میں 1200 ایکڑ زمین انھیں تحفتہً دی جہاں دادا صاحب اور والد صاحب نے سنگتروں کا باغ لگایا۔

ادھر علی گڑھ ایک سکول سے کالج بنا اور کالج سے یونیورسٹی بن گیا۔ جب 1894ء میں دادا جان نے انٹرس کا امتحان پاس کیا تو ڈاکٹر صاحب اپنے بیٹے کو لیے دوبارہ سرسید کے پاس پہنچے۔ سرسید انھیں پہچان گئے مگر انہیں پتا نہ چلنے دیا۔ داخلہ فارم بھرتے وقت انہیں ڈاکٹر صاحب کا نام معلوم ہوگیا۔میرے دادا ،محمد حامد ساقی، مولانا محمد علی جوہر کے ہم جماعت تھے اور علی گڑھ کرکٹ ٹیم کے ممبر بھی ۔ بعد میں سرسید نے انھیں کہا ’’ تمہارے والد صاحب نے اس تعلیمی ادارے کو معقول رقم دی تھی پر نام نہیں بتایا اور نام کسی عمارت پر کندہ کرنے سے منع کردیا۔ مگر تم میرے طالب علم ہو اور طالب علم استاد کا کہا نہیں ٹال سکتا۔‘‘ لہٰذا ایس ایس پارک کے ایک حصّے میں انہوں نے ’’محمد حامد رائے پوری‘‘ کندہ کروادیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔