پانامہ لیکس کا بھنور

لطیف چوہدری  پير 2 مئ 2016
latifch910@yahoo.com

[email protected]

موجودہ حالات پر کچھ لکھنے کا ارادہ تو نہیں تھا لیکن سیاست کے بعض ایسے پہلو سامنے آ جاتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی قلم پکڑنے کو دل چاہتا ہے۔میرا ساتھ ایسا ہی ہوا ہے ‘ ملکی سیاست کا بازار رش لے رہا ہے‘حکومت کا بحری جہاز پرسکون پانیوں پر تیر رہا تھا کہ اچانک پانامہ لیکس کے بھنور نے اسے آن گھیرا ہے۔حکومتی جہاز اس بھنور میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔وہ نکلنے کے لیے جتنی کوشش کرتی ہے بھنور اتنا ہی خطرناک ہوتا جاتا ہے۔

اپوزیشن سیاسی جماعتیں جارحانہ پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ حکمران جب کسی بحران میں پھنستے ہیں تو غلطی پر غلطی کرتے چلے جاتے ہیںجس سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے چلے جاتے ہیں‘ پھر حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے واپسی کا راستہ بھی نہیں ہوتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا ‘انھوں نے پہلے تو حالات کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں کیا‘وہ  اپوزیشن سے مذاکرات کو طول دیتے رہے ‘ انھیں جب سمجھ آئی ‘اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی اور پھر وہ کچھ ہو گیا جس کا انھیں گمان بھی نہیں تھا۔

پانامہ لیکس کا بحران بھی شاید کوئی دوسرا رخ اختیار کر لیتالیکن جناب وزیراعظم نے اسے اپنے اور اپنی حکومت کے گلے میں ڈال لیا‘ آ بیل مجھے مار والا محاورہ سب نے سن ہی رکھا ہے۔ اس کی عملی تفسیر ہمیں وزیراعظم صاحب کی تقاریر میں مل جاتی ہے۔ قوم سے دو مرتبہ خطاب کر کے انھوں نے اس بحران کی اونرشپ اپنے ذمے لے لی‘اب یہ کہنا کہ آف شور کمپنیوں میں ان کا نام نہیں ہے ایک بے معنی سی بات بن گئی ہے۔

اس معاملے کی تحقیقات کے لیے جب اپوزیشن کا دباؤ بڑھا توانھیں چاروناچار سپریم کورٹ کو خط لکھنا پڑا‘ اب اس سے اگلا بحران شروع ہو گیا‘ مجوزہ تحقیقاتی کمیشن کے لیے جو ٹی او آرز متعین کیے گئے‘ وہ دراصل معاملے کو سلجھانے کے لیے نہیں بلکہ مزید گند ڈالنے کے لیے ہیں۔سیدھی سی بات ہے کہ الزامات آپ کی فیملی پر ہیں ‘ تحقیقات بھی انھی کی ہونی چاہیے‘ اب یہ کہنا کہ 1947سے لے کر اب تک کا حساب کیا جائے ‘ اسے پانی میں مدھانی ڈالنے کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ کس کس نے قرضے معاف کرائے ‘ وہ کون ہیں جنہوں نے بینکوں سے لیے گئے قرضے ری شیڈول کرائے ‘ کن کن شخصیات نے ماضی میں بے ضابطگیاں کیں ‘ان معاملات میں ازسرنو پڑنے کا مطلب یہی ہے کہ نہ کھیلیں گے نہ کسی کو کھیلنے دیں گے۔پانامہلیکس سے سامنے آنے والی آف شور کمپنیاں گئیں بھاڑ میں۔

جب سے حالیہ بحران شروع ہوا ہے‘ اس کی وضاحت کے لیے وزیراعظم نے وہ فورم یا آپشن اختیارکیے جہاں ان پر کوئی سوال نہ کر سکے اور صرف وہ اپنی ہی صفائی پیش کرتے رہیں۔قوم سے کیے گئے خطاب کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب وہ قوم سے خطاب کر رہے تھے تو صرف خود ہی مخاطب تھے ‘ وہاں کوئی ان سے سوال نہیں پوچھ سکتا تھا۔ جس قوم سے وہ خطاب کر رہے تھے‘ وہ ان سے کوسوں دور تھے۔دیہات میں رہنے والوں میں تو اسے سنا بھی نہیں ہو گا۔ انھوں نے عوامی جلسوں سے خطاب کا آپشن لیا ‘ یہاں بھی وہ خود ہی بولنے والے تھے ۔

ان سے سوال کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ گزشتہ روز گورنر ہاؤس لاہور میں ان کی سینئر صحافیوں کے ساتھ جس ملاقات کا اہتمام کیا گیا ‘ وہ بھی در حقیقت قوم سے خطاب کی طرح ہی تھی۔ وہاں مخصوص میڈیا گروپ کے مخصوص صحافیوں کو مدعو کیا گیا۔ظاہر ہے وزیراعظم صاحب سے کسی نے کوئی ایسا سوال نہیں کیا جسے صحافتی زبان میں چبھتا ہوا سوال کہا جاتا ہے۔یہ مخصوص صحافتی حلقے انھیں تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ وہ ان کے سامنے سب اچھا کی تصویر پیش کرتے ہیں ۔

یہی کسی حکومت کی سب سے بڑی بدقسمتی ہوتی ہے کہ وہ حقائق کاسامنا کرنے سے خود بھی گھبراتی ہے اور کوئی انھیں آگاہ بھی نہیں کرتا۔ عرض یہ ہے کہ جو لوگ بھی وزیراعظم صاحب کویہ مشورہ دے رہے ہیںکہ وہ مخصوص میڈیا گروپ کے مخصوص صحافیوں کو ہی ملیں‘وہ ان کے اور ان کی حکومت کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ وزیراعظم کو صرف مخصوص صحافیوں سے ہی ملنا نہیں چاہیے بلکہ اس میڈیا اور صحافیوں سے بھی ملنا چاہیے جنھیں شاید مخالف سمجھا جا رہا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اگر وہ غیرجانبداریامخالف سمجھے جانے والے میڈیا پرسنز سے ملیں گے تو ہو سکتا ہے کہ وہاں سے کوئی بہتر مشورہ یا تجویز مل جائے جو پانامہ لیکس سے پیدا ہونے والے بحران کے حل کے لیے راہ عمل کا تعین کر سکے۔

وزیراعظم کو اور ان کے صلاح کاروں کو اس پہلو پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ عوام میں یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ وزیراعظم غیرجانبدار صحافیوں کے سوالوں سے گھبراتے ہیں ‘ایسے میں وہ پامانا لیکس کے معاملے پر غیرجانبدارانہ تحقیقات کیسے کرائیں گے۔ یہ تاثر حکومت کے لیے اچھا نہیں ہے ‘ اسے جلد از جلد دور کیا جانا چاہیے۔

پانامہلیکس میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا نام آیا تو انھوں نے پارلیمنٹ میں اپنی صفائی پیش کی۔ پارلیمنٹ میں ان پر زبردست تنقید ہوئی لیکن وہ گھبرائے نہیں‘انھوں نے سب کچھ خندہ پیشانی سے برداشت کیا ۔انھوں نے بڑے حوصلے اور تدبر کے ساتھ اپوزیشن ارکان کے سوالات کا جواب دیا۔ اب وہ اس بحران سے تقریباً نکل چکے ہیں۔ان کا بھی آف شور کمپنی میں نام نہیں تھا بلکہ ان کے والد کا نام تھا‘ لیکن ان پر پارلیمنٹ میں اس لیے تنقید ہوئی کہ انھوں نے پہلے اس کا انکار کیا تھااور پھر اسے تسلیم کیا۔انھوں نے پارلیمنٹ کے سامنے سچائی بیان کر دی اور سرخرو بھی ہو گئے۔

انھوں نے تنقید کے بعد اپنے اثاثے بھی قوم کے سامنے رکھ دیے۔ ہمارے ہاں صورت حال بالکل مختلف ہے۔ اس بحران کو شروع ہوئے تقریباً ایک ماہ ہونے کو ہے ‘ وزیراعظم پہلے تو علاج کے نام پر لندن چلے گئے ‘وہاں جو سرگرمیاں ہوئیں ‘ وہ سب کے سامنے ہیں۔ اب انھیں واپس آئے ہوئے بھی خاصے دن ہو گئے ہیں‘ انھوں نے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا اور نہ ہی ابھی تک پارلیمنٹ میں جانا مناسب سمجھا ‘ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہمارے سیاستدان جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو اہمیت کیوں نہیں دی جاتی۔

گزشتہ برس جب عمران خان اور طاہر القادری نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو اس وقت پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کر لیا گیا تھا ‘ پارلیمنٹ میں روز جمہوریت کے حق میں تقریریں کی جاتی رہیں‘یہ پارلیمنٹ ہی تھی جس نے اس بحران میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو اخلاقی برتری دلائی اور بلاآخر وہ اس بحران سے نکل گئی۔ لیکن اب کیا ہو گیا ہے کہ پارلیمنٹ کا اجلاس طلب نہیں کیا جا رہا۔ اب تو یہ ثابت ہو چکا ہے کہ نواز شریف کو پتہ چل چکا تھا کہ پانامہ پیپرز منظر عام پر آنے والے ہیں‘ حسین نواز نے پاکستانی میڈیا کو انٹرویو دیے‘ جن میں آف شور کمپنیوں اور لندن میں جائیداد کا اعتراف بھی کر لیا تھا‘ اصولی طور پر وزیراعظم کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا چاہیے تھا ‘ یہاں انھیں اپنی اور اپنے خاندان کی صفائی پیش کرتے ہوئے تمام اثاثوں اور آف شور کمپنیوں کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کر دینی چاہئیں تھیں۔

اس کے بعد اپوزیشن کے سوالات کا تحمل اور بردباری سے جواب دینا چاہیے تھا۔ جمہوریت میں ہر بحران کا حل پارلیمنٹ کے فورم سے ہی برآمد ہوتا ہے۔لیکن افسوس کہ وزیراعظم کے مشیروں نے انھیں یہ آپشن اختیار کرنے کا مشورہ نہیں دیا ‘ ویسے بھی یہ تاثر عام ہے کہ وزیراعظم کسی کا مشورہ نہیں مانتے ‘ اگر ایسا ہے تو یہ اچھا نہیں ہے۔یہ طرز عمل شہنشاہی تو کہلا سکتا ہے‘ جمہوری نہیں‘ جمہوریت میں اپوزیشن کی کڑوی باتیں سننی پڑتی ہیں اور شیریں لہجے میں جواب دینا پڑتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔