چند توجہ طلب امور

مقتدا منصور  پير 2 مئ 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

آج کل پانامہ لیکس کی وجہ سے پوری سیاسی و سماجی فضا دانشورانہ آلودگی سے بوجھل ہے۔ روز روز نت نئے انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔ اسی دوران ایک پاکستانی فلم ’’مالک‘‘ کا قضیہ سامنے آیا، جس کی نمائش پر پورے ملک میں پابندی عائد کر دی گئی۔ گو کہ پابندی کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی، مگر پابندی کے لیے 1979ء کے موویز ایکٹ کی شق 9 کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ ان معاملات کے نتیجے میں پہلے سے متنازع ذرایع ابلاغ مزید متنازع ہو گئے ہیں۔ جب کہ ان کے درمیان تقسیم بھی مزید گہری ہوئی ہے۔ لہٰذا یہ دیکھنا ضروری ہو گیا ہے کہ وہ کون سی خرابیاں ہیں، جو ذرایع ابلاغ کو متنازع بنانے کا سبب بن رہے ہیں۔

پانامہ لیکس پر ملک کی سیاسی جماعتوں کے علاوہ ذرایع ابلاغ سمیت مختلف حلقوں میں اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث جاری ہے۔ مگر گزشتہ بدھ کو ایک میڈیا گروپ کے اخبارات میں اچانک یہ خبر اس شہ سرخی کے طور پر شایع ہوئی کہ ’’پانامہ لیکس کی خبروں میں نوازشریف کا نام غلطی سے دیا گیا۔ ICIJ نے غلطی تسلیم کر کے واپس لے لیا‘‘۔ اس خبر کی اشاعت نے متوشش شہریوں کو چونکا دیا۔

کیونکہ اس خبر سے یہ تاثر پیدا ہو رہا تھا، گویا ICIJ کے ذمے داران نے پیشگی جائزہ لیے بغیر مختلف اہم شخصیات پر الزام تراشیاں کر دی ہیں۔ لہٰذا شکوک و شبہات کا جنم لینا فطری بات ہے۔ مگر گزشتہ روز ہی سرکاری اشتہار شایع کرایا، جو تقریباً سبھی اخبارات میں شایع ہوا، جس میں متذکرہ بالا شہ سرخی کو حکومتی پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ حالانکہ بدھ ہی کی شام کو ایک سینئر صحافی کی ای میل کے جواب میں ICIJ نے اس خبر کو قطعی بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دے کر مذکورہ خبرکے جھوٹ کا پول کھول دیا۔ انھوں نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ  وزیراعظم کا نام روز اول ہی سے ان کے بچوں کے حوالے آ رہا ہے۔

یہ بات ہم سب کے ذہن میں ہے کہ دنیا بھر میں ذرایع ابلاغ اور ان سے وابستہ افراد کا مخصوص نظریات اور جماعتوں کے لیے نرم گوشہ ہوتا ہے، جس کا اظہار ان کے اداریوں اور اظہاریوں میں ہوتا ہے۔ مگر خبر کو توڑنے مروڑنے یا اسے kill کرنے کو پیشہ ورانہ بددیانتی تصور کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکا کے معروف اخبار Wall Street Journal کا جھکاؤ ریپبلکن پارٹی کی طرف ہے۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، کیونکہ مذکورہ اخبار نے ریپبلکن پارٹی کی جانب اپنے جھکاؤ کو چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ لیکن ساتھ ہی اس پر ریپبلکن پارٹی کے خلاف کسی خبر کو روکنے یا اسے Kill کرنے کا بھی کوئی الزام نہیں ہے۔ اسی طرح برطانیہ کا اخبار The Telegraph ٹوری پارٹی کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے، مگر اس کے صفحہ اول پر ایسی کوئی علامت نظر نہیں آتی۔

پاکستان میں دو تین دہائی قبل تک اخبارات و رسائل میں عمومی طور پر تین رجحانات پائے جاتے تھے۔ بیشتر اخبارات و رسائل سینٹرلسٹ یا باالفاظ دیگر پیشہ ورانہ طور پر آزاد خیال رجحانات کے حامل ہوا کرتے تھے۔ جب کہ چند اخبارات بائیں اور چند دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے۔ لیکن 2002ء کے بعد جب سے نجی شعبہ کو الیکٹرانک میڈیا چلانے کی اجازت ملی ہے، نظریاتی تقسیم تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ اس کی جگہ مفادپرستی پر مبنی غیر پیشہ ورانہ رویے زیادہ کھل کر سامنے آنے لگے۔ سیاسی جماعتوں کی کردارکشی، ان کی قیادتوں کے بارے میں استہزائیہ جملے اور بیہودگی پر مبنی طرزعمل نے ذرایع ابلاغ میں ایک نئے مگر منفی کلچر کو جنم دیا ہے۔ جس نے پروفیشنل ازم کی جگہ کمرشل ازم کو اولین ترجیح بنا دیا ہے۔ یوں عالمی سطح پر تسلیم شدہ صحافتی اقدار دم توڑ چکی ہیں۔

پاکستانی ذرایع ابلاغ میں نہ صرف پروفیشنل ازم ختم ہوا ہے، بلکہ اینکروں اور تجزیہ نگاروں کے اندرونی Biases بھی کھل کر سامنے آئے ہیں۔ بعض اینکروں اور تجزیہ نگاروں کا مختلف سیاسی شخصیات اور جماعتوں کے بارے میں معاندانہ اور تضحیک آمیز رویہ ہے۔

پاکستان میں دوسرا اہم معاملہ آزادی اظہار (Freedom of Expression) اور معلومات تک رسائی (Access to Informtion) کے قوانین پر عملدرآمد کا ہے۔ ان دونوں شقوں کے حوالے سے حکومت اور عوامی حلقوں کی سوچ مختلف ہے۔ آئین کی شق 19 کے مطابق آزادی اظہار سے مراد تقریروتحریر کے علاوہ پریس کی آزادی ہے۔

اس کی ذیلی شق 19A عوام کو معلومات تک رسائی کا حق دیتی ہے۔ شق 19 اور اس کی ذیلی شق 19A شفاف حکمرانی کی کلید ہیں۔ لیکن ان دونوں شقوں میں یہ شرط بھی عائد ہے کہ ایسی کوئی تحریر یا تقریر یا فلم یا ڈرامہ یا کوئی اور ابلاغ کا ذریعہ جس سے معاشرے میں مختلف نوعیت کی نفرتیں پھیلیں یا قتل و غارت گری پر اکسانے کا سبب بنے یا کسی طبقے یا حلقے کے خلاف شرانگیزی کا موجب بنے، اس پر پابندی لازم ہے۔

18 ویں ترمیم کے تحت متذکرہ بالا شق 19 اور اس کی ذیلی شق 19A پر عملدرآمد کی ذمے داری صوبوں کو تفویض کر دی گئی ہے۔ اسی طرح فلموں کے سنسر بورڈ کی مرکزیت ختم کر کے اسے بھی صوبوں کی صوابدید پر دے دیا گیا ہے۔ حال ہی میں فلم ’’مالک‘‘ کا قضیہ سامنے آیا۔ سیاست اور سیاسی مخاصمت سے قطع نظر اس فلم کی نمائش کے حوالے سے چند پہلوؤں پر غور کرنا ضروری ہے۔

پہلی بات یہ کہ بعض حلقوں کا یہ خیال اپنی جگہ وزن رکھتا ہے کہ پاکستان کی پیچیدہ اور حساس سماجی تشکیلات میں ایک معمولی سے کنکری بھی طوفان اٹھا سکتی ہے، اس لیے تحریر، تقریر، فلم یا ڈرامہ لکھتے ہوئے بہت سی چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ مگر فلم کی نمائش پر پابندی بہرحال شہریوں کے آزادی اظہار پر قدغن ہی تصور کی جائے گی۔

اس سلسلے میں اگر بالی وڈ کی فلموں کو سامنے رکھیں تو ان کی فلمی صنعت خاصی آگے جا چکی ہے۔ وہاں کئی ایسی آرٹ اور کمرشل فلمیں بنتی رہی ہیں اور آج بھی بن رہی ہیں، جن میں دین دھرم، سماجی تشکیلات اور نفسیاتی معاملات کو جرأت مندانہ انداز میں اٹھایا جاتا ہے۔ BJP اور شیوسینا کے تمام تر دباؤ کے باوجود وہاں ڈائریکٹرز نت نئے موضوعات پر تجربات کرنے سے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہیں، PK دین و دھرم پر تنقید کی ایک عام سی مثال ہے۔ اس کی ایک وجہ وہاں کا سیکولر آئین ہے، جو فلمسازوں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کرتا ہے، جب کہ پاکستانی فلمی صنعت کو کسی قسم کا آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کے فروغ اور آزادی اظہار کو یقینی بنانے کے لیے میڈیا کو سنجیدگی کے ساتھ کوئی حل تلاش کرنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔