یہ کہیں خامیٔ ایماں ہی نہ ہو

اوریا مقبول جان  پير 2 مئ 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

آج شافع روز محشر، سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر سے روانگی ہے اور احمد ندیم قاسمی صاحب کا یہ شعر بار بار ہتھوڑے کی طرح دماغ سے ٹکرا رہا ہے۔

یہ کہیں خامیٔ ایماں ہی نہ ہو
میں مدینے سے پلٹ آیا ہوں

سرکار دو عالم کا شہر مدینہ، جس سے آپؐ نے خود ٹوٹ کر محبت کی ہو، جس میں بسنے اور یہاں مر کر اس کی مٹی میں امر ہونے کی خواہش کی دعا کون ہے جس نے نہ کی ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ ایک دعا کیا کرتے تھے کہ ’’اے اللہ مجھے شہادت کی موت عطا فرما اور اسی شہر میں عطا فرما‘‘ جو اس شہر میں آ بسے انھوں نے پھر اس خاک سے اس قدر محبت کی کہ یہاں سے جانے کا نام نہ لیا۔ حضرت امام مالکؒ ساری زندگی مدینہ میں رہے لیکن آپ نے پاؤں میں جوتا نہیں پہنا۔ رفع حاجت کے لیے شہر سے باہر جاتے تو تیزی کے ساتھ جاتے اور تیزی کے ساتھ واپس آ جاتے کہ کہیں ان کی موت مدینہ سے باہر واقع نہ ہو جائے۔

مدینہ تو وہ شہر ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی خاک کی بھی فضیلت بیان کی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، مدینہ منورہ کی خاک میں ہر بیماری کی شفا ہے۔ حضرت ثابت بن قیسؓ بیمار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دم کیا اور وادیٔ بطحا کی مٹی ایک پیالہ میں ڈالی، اور پانی ڈال کر بیمار پر چھینٹے مارے۔ آپؐ ایک دفعہ بنوحارث کے ہاں تشریف لے گئے۔ انھوں نے بخار کی شکایت کی، فرمایا ’’وادیٔ صعیب کی مٹی کیوں نہیں استعمال کرتے۔ اس مٹی کو لے کر پانی میں حل کرو، وہ پانی اپنے اوپر چھڑک دو‘‘ انھوں نے ایسا کیا تو بخار جاتا رہا۔

اس شہر کے تو غبار کے ساتھ بھی سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبت تھی۔ آپ جب کسی سفر سے واپسی پر مدینہ تشریف لاتے اور جیسے ہی مدینہ قریب آتا تو اپنی سواری کی حرکت کو تیز کر دیتے۔ ایسے محسوس ہوتا آپ وفور شوق سے بے چین ہو گئے ہوں۔ آپ کی بے چینی نمایاں ہو جاتی۔

چہرۂ مبارک کو بلند کر کے فرماتے یہ ہوائیں طیبہ (پاک) ہیں۔ جو گردو غبار آپ کے چہرۂ مبارک پر پڑ جاتا اسے صاف نہ فرماتے، اگر صحابہ میں سے کوئی اپنے چہرے اور سر کو گرد و غبار سے چھپاتا تو منع فرماتے۔ آپؐ تبوک سے واپس مدینہ آ رہے تھے تو کسی نے مدینہ منورہ کے غبار سے منہ دھانپا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا (والذی نفسی بیدہ ان فی غبارھا شفاء لکل داء) اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، مدینہ منورہ کے غبار میں شفاء ہے۔ مسلمٰہ رضی اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا مدینہ منورہ کا غبار کوڑھ پن کو دور کرتا ہے (خلاصہ الوفا باخبار دار مصطفٰے)۔

شہر مدینہ سے محبت عاشقان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خاصہ رہا ہے۔ حالی نے مسدس حالی کے اختتام پر ایک دعا تحریر کی ہے۔ یہ دعا اس امت کی زبوں حالی کا نوحہ ہے۔ دعا کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے۔

اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کر عجیب وقت پڑا ہے

لیکن مدینہ طیبہ کا جب حوالہ وہ اپنی دعا میں دیتے ہیں تو فرماتے ہیں ؎

جس شہر نے پائی تری ہجرت سے سعادت
کعبے سے کشش اس کی ہر اک دل میں سوا ہے

شہر مدینہ کی سعادت، حرمت، عزت و تکریم تمام علماء اور فقہاء امت کے نزدیک اس لیے بڑھ کر ہے کہ اس کی خاک سے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم اطہر مس ہو رہا ہے۔ تمام اس بات پر متفق ہیں کہ خانہ کعبہ کی عمارت کے بعد سب سے افضل شہر مدینہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے جب اپنی بہن کے کہنے پر سفر حجاز کا ارادہ کیا تو کہتے تھے کہ کسی کے ہاں جاؤ تو کوئی تحفہ یا توشہ لے کر جاتے ہیں۔ میں تو خالی ہاتھ ہوں۔ پھر آپؐ کی شان اقدس میں اشعار لکھنے شروع کیے۔ سو کے قریب یہ رباعیاں ان کی کتاب ارمغان حجاز میں ہیں۔ اقبال اس شہر کو اپنا آشیانہ قرار دیتے ہیں۔

بہ ایں پیری رہ یثرب گرستم
نواخاں از سرود عاشقانہ
چو آں مرغے کہ در صحرا سرشام
کشاید پر بہ فکر آشیانہ

(میں اس بڑھاپے میں یثرب کے راستے کا راہی بنا ہوں، اور عاشقانہ گیت گاتے جا رہا ہوں۔ میری حالت اس پرندے کی طرح ہے جو پورا دن صحرا میں کاٹ دیتا ہے لیکن شام ہوتے ہی اپنے آشیانہ کی سمت جانے کے لیے اپنے پر پھیلا دیتا ہے)
اقبال کے تو اس سفر کی منزل ہی مدینہ ہے۔ آپ اس کا یہ شعر دیکھیں۔

بدن واماند و جانم درنگ و پوست
سوئے شہر کہ بطحا در رہ اوست

میں اس نڈھال بدن اور نحیف جان کے ساتھ ایک ایسے شہر کی جانب روانہ ہوں کہ جس کے راستے میں مکہ آتا ہے اور پھر خاک مدینہ کی حرمت و عزت پر تو اقبال یہ شعر محبتوں کی بہار ہے۔

خاک یثرب از دو عالم خوشتر است
آن فلک شہر کہ آنجا دلبراست

(مدینے کی خاک دو عالم سے بڑھ کر ہے کہ یہ اس ٹھنڈی ہواؤں کا شہر کہ جہاں ہم سب کا دلبر یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں)۔ اس شہر مدینہ کی فضیلت پر لکھنے کے لیے ایک عمر درکار ہے۔ ایک نہیں بلکہ کئی عمریں چاہئیں۔ لیکن میرے دل و دماغ پر تو احمد ندیم قاسمی کا شعر ہتھوڑے مار رہا ہے کہ میں اس شہر میں آنے کے بعد واپس کیسے آ رہا ہوں۔ میں اس کی گلیوں میں دیوانہ وار سرگرداں کیوں نہ ہو گیا۔ میں یہاں کی خاک میں غلطاں کیوں نہ ہوا۔ میں اس شہر بے خانماں لوگوں میں کیوں نہ ہو سکا۔ ایسے عالم میں اقبال کی یہ دعا ہی میرا سہارا ہے۔

دلش نالہ چرا نالہ نداند
نگا ہے یا رسول اللہ نگاہے

میرا دل رو رہا ہے، کیوں رو رہا ہے میں نہیں جانتا۔ اے پیارے رسولؐ آپ کی نگاہ کرم چاہیے، بس آپ کی نگاہ کرم۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔