عوام کے حقوق اور اجتماعی طاقت

ظہیر اختر بیدری  پير 2 مئ 2016
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

یہ غالباً 1967ء کی بات ہے، لاہور میں پارٹی کی ایک خصوصی میٹنگ تھی، جس میں کراچی میں ٹریڈ یونین میں کام کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مرزا ابراہیم مرحوم اور سی آر اسلم کا اصرار تھا کہ کراچی میں ٹریڈ یونین کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرنے کی ذمے داری میں ادا کروں۔ میں تازہ تازہ سیاسیات میں ماسٹر ڈگری ہولڈر تھا اور لاہور کے مختلف سیاسی رسالوں میں سیاسی مسائل پر آرٹیکلز بھی لکھتا تھا، اس تناظر میں دوستوں کا خیال تھا کہ کراچی میں مزدوروں کو منظم کرنے کی ذمے داری میں بحسن و خوبی انجام دے سکتا ہوں۔

یہ دور وہ تھا جب کراچی میں دھڑا دھڑ صنعتیں لگ رہی تھیں اور خیبر پختونخوا اور پنجاب سے بے روزگاروں کے قافلے کراچی پہنچ رہے تھے۔ چونکہ ایوب خان برسر اقتدار تھے اور ایوب خان کے حوالے سے یہ خیال عام تھا کہ ایوب خان پختون کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے سو اس تناظر میں  خیبر پختونخوا سے سب سے زیادہ بے روزگار کراچی آ رہے تھے، جن کا تعلق قبائلی معاشرت سے تھا اور یہ سادہ لوح عوام نہ مزدوروں کے حقوق سے واقف تھے نہ ٹریڈ یونین کے اغراض و مقاصد سے آگاہ تھے۔ ایوب خان کے دور میں بلاشبہ تیزی سے صنعتی ترقی ہو رہی تھی لیکن مالکان مزدوروں کو غلام بنائے رکھتے تھے۔ حکومت چونکہ کولمبو پلان کے تحت بہت بڑے پیمانے پر امریکا سے مالی امداد لے رہی تھی لہٰذا امریکی پالیسی کے تحت پاکستان میں سوشلزم کا راستہ روکنے کے مختلف حربے استعمال کیے جا رہے تھے۔

اگرچہ قیام پاکستان کے بعد ہی سے ٹریڈ یونین بائیں بازو کے زیر اثر تھی لیکن صنعتی ترقی کے نام پر مزدور طبقے پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے اس کا اندازہ ان حقائق سے لگایا جا سکتا ہے کہ مالکان نے اپنی ملوں میں پرائیویٹ جیلیں بنا رکھی تھیں اور مزدوروں کو جرم بے گناہی میں سزائیں دے کر ان جیلوں میں بند کیا جاتا تھا۔ ایوب حکومت ترقی پسند طاقتوں کی سخت دشمن تھی جس کا اندازہ حسن ناصر کے قلعہ لاہور میں بے رحمانہ قتل سے لگایا جا سکتا ہے۔ حسن ناصر کا جرم یہ تھا کہ وہ مزدوروں میں طبقاتی شعور بیدار کرنے کا جرم کر رہا تھا۔

کراچی میں نہ صرف ٹریڈ یونین کو منظم کرنے کی ذمے داری مجھ پر ڈالی گئی بلکہ کراچی کی سیکریٹری شپ بھی ہمارے حوالے کی گئی۔ اس وقت ہم پرجوش جوان تھے، انقلاب ہماری رگ و پے میں سمایا ہوا تھا، سو ہم کراچی میں ٹریڈ یونین کو منظم کرنے کے کام میں دل و جان سے جت گئے۔ اس وقت کراچی گیس کی مزدور یونین بہت فعال تھی، سو ہم نے اس یونین سے کام کے آغاز کا فیصلہ کیا۔ عثمان بلوچ کے ساتھ نوجوانوں کی ایک ٹیم کام کر رہی تھی اور یہ تمام نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔

ہم نے کراچی کے مزدوروں کو متحد کرنے کے لیے ’’متحدہ مزدور فیڈریشن‘‘ کی بنیاد رکھی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ فیڈریشن کراچی کے مزدوروں کی مقبول ترین تنظیم بن گئی، اور مزدور نہ صرف منظم ہو گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے مزدوروں کو ان کے حقوق سے اور ان کی اجتماعی طاقت سے روشناس کرایا تھا۔ ایوب خان کی حکومت کے خاتمے میں مزدوروں نے اہم کردار ادا کیا۔ ایوب خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد یحییٰ خان نے بھی مزدوروں کو دبائے رکھنے کی پالیسی اختیار کی لیکن مزدور اس کے خلاف بھی سینہ سپر رہے۔

مزدوروں کے حوالے سے اس طویل تمہید کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ آج پاکستان کے عوام بھی اس لیے بے زبان بنے ہوئے ہیں کہ انھیں اپنے حقوق اپنی اجتماعی طاقت کا ادراک ہے نہ احساس کیونکہ پیشہ ورانہ سیاست کا بازار گرم ہے اور بددیانت سیاسی قیادت مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے، انھیں تقسیم کرنے، ان کا سیاسی شعور کند کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ بھانت بھانت کی طاعون کی طرح پھیلی ہوئی ان سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کا پہلا اور آخری مقصد حصول اقتدار ہے، ہر جماعت حصول اقتدار کی اس خودغرضانہ جنگ میں عوامی طاقت استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ایوب خان کے دور میں بھی پیشہ ورانہ ٹریڈ یونینوں کی بھرمار تھی، جس کی وجہ مزدوروں میں طبقاتی شعور نہ ہونے کے برابر تھا، پیشہ ورانہ ٹریڈ یونین مزدوروں کو مزدور قوانین اور مزدور عدالتوں میں الجھائے رکھتی تھیں اور انھیں یہ سبق پڑھاتی تھیں کہ ان کے حقوق عدالتوں سے ہی حاصل ہوں گے جب کہ لیبر کورٹس کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ یہ سرمایہ داروں کی پروردہ ہیں اور ان کے فیصلے عموماً سرمایہ داروں کے مفادات سے جڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے 20 کروڑ غریب اور مفلوک الحال عوام کا اصل مسئلہ اس استحصالی نظام کی تبدیلی ہے۔

کوئی سیاسی جماعت اس استحصالی نظام کی تبدیلی کی بات نہیں کرتی بلکہ ان کا ہدف اس نظام کے کارندے ہوتے ہیں جس کا واحد مقصد ان ایجنٹوں کی جگہ لینا ہوتا ہے۔ بناسپتی سیاسی جماعتوں کی اس بھیڑ میں کوئی ایک جماعت بھی ایسی نظر نہیں آتی جو اس نظام استحصال کی تبدیلی کی بات کرتی ہو جو عوام کے سروں پر 69 سال سے سوار ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کی ایک بڑی تعداد ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی حامی ہے اور اسٹیٹس کو کو جمہوریت کے پردے میں چھپا کر جمہوریت کے تحفظ کو اپنا سیاسی دھرم اور ایمان بتاتی ہیں۔

اس ملک میں 20 کروڑ عوام رہتے ہیں، کروڑوں روپے خرچ کر کے لاکھ ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو جلسہ گاہوں میں جمع کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان کے عوام ان کے ساتھ ہیں۔ جب کہ 20 کروڑ کی آبادی میں لاکھ دو لاکھ انسانوں کی حیثیت آٹے میں نمک سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اب ان ڈراموں کو ختم ہونا چاہیے اور یہ ڈرامے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک عوام اپنے حقوق اپنی اجتماعی طاقت کا احساس نہیں کریں گے اور اپنی اجتماعی طاقت کو سیاستدانوں کی بھینٹ چڑھانے کے بجائے اس ظالمانہ استحصالی نظام کو ختم کرنے کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔ عوام صرف اس جماعت اس سیاسی رہنما کی حمایت کریں جو واضح طور پر 69 سال سے عوام کے سروں پر مسلط اس طبقاتی اشرافیائی نظام کو ختم کرنے کے منشور کے ساتھ آگے آتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔