بن لادن گروپ نے 77ہزار غیرملکی ورکرز کونکال دیا،رپورٹ

اے ایف پی  منگل 3 مئ 2016
ایگزٹ ویزے تھمادیے گئے،کئی ماہ سے تنخواہ نہ ملنے پرکارکنوں کی ہنگامہ آرائی ۔  فوٹو : اے ایف پی

ایگزٹ ویزے تھمادیے گئے،کئی ماہ سے تنخواہ نہ ملنے پرکارکنوں کی ہنگامہ آرائی ۔ فوٹو : اے ایف پی

ریاض: سعودی عرب کی بڑی اور بااثر کمپنیوں میں شامل سعودی بن لادن گروپ نے 77 ہزار غیرملکی ورکرز کو نکال دیا۔ یہ بات ایک اخبار کی رپورٹ میں کہی گئی جس پر بن لادن گروپ نے بعض عملے کو فارغ کیے جانے کی تصدیق کی مگر تعداد نہیں بتائی۔

الوطن اخبار کے مطابق کمپنی کے ہزاروں ملازمین کو تنخواہیں بھی نہیں دی جا رہی تھیں، ملازمین نے ہنگامہ آرائی بھی کی۔ سعودی بن لادن گروپ کے ترجمان نے کہاکہ افرادی قوت میں تبدیلی خاص طور پر جب بعض پروجیکٹس ختم یا ختم ہونے کے قریب ہوں تو معمول کی بات ہوتی ہے، ختم کی بھی بہت سی آسامیاں میعادی یا مخصوص پروجیکٹس سے متعلق تھیں، ہم فارغ کیے گئے عملے کی ذمے داریاں پوری کریں گے، قانون کے مطابق ان کے بقایا جات دیے جا چکے ہیں۔ الوطن نے کمپنی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ فارغ کیے گئے 77 ہزار کارکنوں کو ایگزٹ ویزے تھما دیے گئے ہیں.

کمپنی میں 2لاکھ تارکین وطن ملازم تھے، اس کے علاوہ مقامی 17ہزار ملازمین میں سے بھی 12ہزار فارغ کیے جائیں گے جو انجینئرز، ایڈمنسٹریٹرز اور انسپیکٹرز کے عہدوں پر کام کررہے ہیں۔ ایک اور رپورٹ میں الوطن نے کہاکہ 50ہزار غیرملکی مزدوروں نے سعودی عرب سے جانے سے انکار کردیا ہے کیونکہ ان کی 4 ماہ سے زیادہ کی تنخواہیں رکی ہوئی ہیں۔ ایک اور اخبار عرب نیوز نے کہاکہ سعودی بن لادن گروپ کے ملازمین نے بڑے پیمانے پر چھانٹی کی تصدیق کی اور کہاکہ تنخواہیں نہ ملنے پر مکہ میں ملازمین نے کمپنی کی کئی بسیں بھی جلادیں۔ حکام نے وجہ بتائے بغیر 7 بسیں جلائے جانے کی تصدیق کی۔

واضح رہے کہ بن لادن گروپ میں ملازم زیادہ تر کارکن مصری ہیں۔ بعض نے مصر کی وزارت محنت سے کئی ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے کی شکایت بھی کی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے ادائیگیاں نہ کیے جانے کے باعث متعدد کمپنیوں کو اپنی ملازمین کو تنخواہیں دینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ یاد رہے کہ سعودی بن لادن گروپ نے ریاض، مکہ سمیت سعودی عرب میں کئی معروف عمارتیں تعمیر کی ہیں تاہم مکہ میں حج کے موقع پر کرین حادثے میں 109عازمین کے جاں بحق ہونے کے بعد سے بن لادن گروپ کو حکومتی ٹھیکے نہیں دیے جا رہے ہیں جو اس کی مالی مشکلات کی ایک بڑی وجہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔