پاناما لیکس کے معاملے پر اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کے استعفیٰ پر متفق نہ ہوسکیں

ویب ڈیسک  منگل 3 مئ 2016

 اسلام آباد: اپوزیشن جماعتوں نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے ٹرمزآف ریفرنس پراتفاق کرلیا جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں بااختیار کمیشن بنایا جائے جو سب سے پہلے وزیراعظم اور ان کے خاندان سے تفتیش کرکے 3 ماہ میں انکوائری مکمل کرے۔

اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزازاحسن کی رہائش گاہ پرجوڈیشل کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس تیار کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہوا جس میں پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، ایم کیوایم، قومی وطن پارٹی، مسلم لیگ (ق) اوردیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ مشترکہ اپوزیشن کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات  کرتے ہوئے  اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ مشترکہ اپوزیشن نے گزشتہ روز ہی حکومتی ٹی اوآرز مسترد کردیے تھے جب کہ آج کے اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ طور پر ٹی او آر تیار کرلیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جو ٹی او آرزتیار کیے ہیں اس میں سب سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ایک آزاد کمیشن تشکیل دیا جائے جو پاناما لیکس میں شامل تمام افراد کی بین الاقوامی اداروں سے تفتیش کرے تاہم سب سے پہلے وزیراعظم اور ان کے خاندان کا احتساب کیا جائے اور بعد میں دیگر تمام افراد کا احتساب ہو۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ کمیشن کے لیے اسپیشل انکوائری اینڈ ٹرائل ایکٹ بنایا جائے جو 3 ماہ میں وزیراعظم اور ان کے خاندان کے اثاثوں کی انکوائری مکمل کرکے رپورٹ شائع کرے، جس میں ان تمام باتوں کی تفتیش کی جائے کہ بیرون ملک کس سال میں اثاثے بنائے گئے، کن ذرائع سے خریدے گئے، پیسے کیسے بھیجے گئے، کتنا ٹیکس دیا گیا اور کس فنڈ سے املاک خریدی گئی۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن پاناما لیکس میں شامل دیگرافراد کے اثاثوں کی انکوائری ایک سال میں مکمل کرے اور تفتیش مکمل ہونے کے بعد رپورٹ منظر عام   کی جائے۔

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے استعفے پر اپوزیشن کے درمیان اختلاف نہیں لیکن اتفاق رائے بھی نہیں، اکثریت اس مطالبے کو مانتی ہے اور ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے لیکن فی الوقت ہم استعفے کا مطالبہ نہیں کررہے تاہم اس سے اپوزیشن کا اتحاد کمزور نہیں ہوگا۔

اپوزیشن نے انكوائری كمیشن كے لیے 6 صفحات پر مشتمل مشتركہ قوائد و ضوابط تیار کیے ہیں جس كے مطابق وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ سمیت سب کے اثاثوں كی مكمل تحقیقات كی جائے گی جو 1985سے 2016ء تك تھے، اس دوران خریدے گئے اور فروخت كئے گئے اثاثے چاہے وہ خاندان میں سے كسی كے نام پر ہی كیوں نہ خریدے گئے ہوں یا فروخت ہوں كمیشن اس كی تحقیقات كرے گا۔ اس كے علاوہ كمیشن یہ بھی دیكھے گا كہ اس دوران آمدنی كے ذرائع كیا تھے اور یہ رقم كس بینك میں ركھی گئی تھی، اس طرح كی آمدنی پر كیا ٹیكس دینا ضروری نہیں جب کہ كس تاریخ كو اور كس بینك كے ذریعے ان اثاثوں كی خریداری كے لیے فنڈر كا استعمال كیا گیا، كس سے یہ پراپرٹی خریدی گئی اور یہ بھی پوچھا جائے كہ جس سے خریدی گئی اس نے اس پر كتنا ٹیكس ادا كیا، بیرونی ملك خریدے گئے اثاثوں  كے لیے ادائیگی بینك كے ذریعے كی گئی یا پھر نقد رقم دی گئی۔

ٹی او آرز کے مطابق 1985 سے اب تك سالانہ بنیاد پر ٹیکس ادائیگی کی تحقیقات کی جائیں اور اس کی تفصیلات بھی مانگی جائیں، آف شور كمپنیوں كی تفصیلات دیں، كیا وہ آف شور كمپنیاں قانون كے مطابق ہیں یا نہیں۔ ٹی آو آرز كے مطابق كمیشن یہ بھی پوچھے كہ یہ ظاہر كرنا ضروری ہے كہ بینكوں سے پیسے منتقل كرنا ، بیرون ممالك میں سے یہ ظاہر كرنا یا نہ كرنا ضروری ہے كہ نہیں ہے، وزیراعظم اور ان كے خاندان جب 2000 میں بیرون ملك گئے تو كیا وہ اس وقت ریاستی مہمان تھے یاكس حیثیت سے رہ رہے تھے اور اس وقت ریاستی مہمان كی حیثیت سے ملنے والی پراپرٹی، گفٹ یا رقم وہ پاكستان كی ریاست كو جمع كرائے گئے یا نہیں، كیا یہ جمع كرانا ضروری تھا۔ ضابطہ کار کے تحت كاغذات نامزدگی جمع كراتے ہوئے كیا یہ تمام چیزیں چھپائی گئی ہیں كیا یہ انتخابی اور ٹیكس قوانین كی خلاف ورزی نہیں ہے۔

ٹی او آرز کو خصوصی قانون پاناما پیپرز (انكوائر ی اینڈ ٹرائل ) ایكٹ 2016 نام دیا گیا ہے۔ اپوزیشن سے اتفاق رائے سے خصوصی قانون بنایا جائے جس كی سربراہی چیف جسٹس سپریم كورٹ كریں گے اور وہ خود سپریم كورٹ كے 2 ججوں كا كمیشن كے لیے انتخاب كریں گے، كمیشن كو یہ اختیار حاصل ہو گا كہ وہ ماہرین كی كمیٹی كا تقرر كر سكے جو فرانزك آڈٹ كرانے كے لیے اور آف شور كمپنیوں كے آڈٹ كے لیے اور اس كے اكاؤنٹس، اثاثوں كی منتقلی جس میں اسٹاك ، شئیرز اور بے نامی جائید اد سمیت دیگر شامل ہے كی تحقیق كر سكے۔

ٹی او آرز کے مطابق كمیٹی كی ڈیوٹی ہو گی كہ وہ منی ٹریل كی تصدیق كرے جو ایسی آف شور كمپنیوں كو فنڈر مہیا كرنے كے لیے استعمال ہوئے ہیں، كمیشن متعلقہ شخص كو ہدایت دے سكتا ہے كہ وہ پاورآف اٹارنی دے تاكہ كمیٹی بااختیار ہو سكے تاكہ وہ مكمل تفصیلات حاصل كر سكیں اور اگر كمیشن كو كسی قسم كی سہولت دركار ہوئی تو دی جائے، جب كمیشن انكوائری شروع كرے گا تو متعلقہ شخص اپنے تمام اثاثوں كی تفصیلات كمیشن كے سامنے پیش كرے گا جب کہ وزیراعظم اور ان كے خاندان سمیت سب خود كو كمیشن كے سامنے پیش كریں گے، كمیشن كو تمام عدالتی اختیارات حاصل ہوں گے جس میں پی سی، سی آر پی سی اور سپریم كورٹ كے ضوابط شامل ہیں، كمیشن میں مجرم ثابت ہونے كی صورت میں عدالتی قوانین كے مطابق سزا دے سكے گا، حكومت ہر رپورٹ شائع كرے گی اور وزیراعظم اور ان كے خاندان كی رپورٹ سب سے پہلے تیار كی جائے گی۔

قوائد و ضوابط کے مطابق كمیشن كی كارروائی عوام كے لیے كھلی ركھی جائے گی، حكومت پاكستان صوبائی حكومتیں اور سركاری ادارے جیسا كہ نیب، ایف آئی اے، آئی بی، ایس بی پی اور ایس ای سی پی كمیشن كو ہر ممكن مدد كرے گی، حكومت تمام قانونی اور مالی مدد فراہم كرے گی جس میں عالمی اداروں كے حوالے سے ڈپلومیٹ سپورٹ بھی شامل ہے، حكومت كمشین كو اپنا كام مكمل كرنے كے لیے ہر ممكن فنڈز اور سہولیات دے گی۔ ٹرمز آف ریفرنس کے تحت وزیراعظم اور ان كے خاندان كی انكوائر ی 3 ماہ میں مكمل ہوگی جس میں ایك ماہ تك توسیع ہو سكے گی باقی كے لیے ایك سال میں انكوائری مكمل كرنا ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔