حکومت نے اپوزیشن کے ٹرمز آف ریفرنس کو بدنیتی قراردیتے ہوئے مسترد کردیا

ویب ڈیسک  بدھ 4 مئ 2016

 اسلام آباد: وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی کا کہنا ہے کہ حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کے ٹی او آرز پر اپوزیشن کے ساتھ باہمی اعتماد کی بنیاد پر ایک متفقہ رائے سپریم کورٹ کو دیں گے لیکن جب اپوزیشن کے ٹی او آرز کو پڑھا تو اس میں کوئی گنجائش نہیں نکلی کیوں کہ اپوزیشن اس مسئلے کو صرف سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔

اسلام آباد میں پاناما لیکس پر اپوزیشن کے ٹی او آرز کے معاملے پر وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کی تشہیر میں صرف وزیراعظم نوازشریف کے خاندان کا نام شامل نہیں تھا بلکہ دنیا کے اہم ممالک کے حکمران، بزنس مین اور عام شہریوں کا ذکر تھا لیکن اس خبر کے بعد سب سے پہلے پاکستانی وزیراعظم نے فوری طور پر قوم سے مخاطب ہوکر چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ایک کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے وفاقی وزرا اس بات کے خلاف تھے کہ وزیراعظم قوم سے خطاب کریں کیوں کہ پاناما لیکس میں ان کا نام براہ راست شامل نہیں تھا جب کہ کمیشن بنانے سے پہلے بھی ہم نے کئی معزز ججز سے رابطہ کیا کیوں کہ ہم نیک نیتی سے اس کام کو سرانجام دینا چاہتے تھے لیکن اتنا شور مچایا گیا کہ تمام ججز نے اس مسئلے سے جڑنے پر معذرت کرلی۔

وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن وقتاً فوقتاً اپنے مطالبے سے ہٹتی رہی پہلے اپوزیشن کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی کا مطالبہ کیا گیا اور حکومت اس پر بھی مان گئی لیکن پھر کہا گیا کہ حکومت چیف جسٹس کو خط لکھے، بالآخر حکومت اس پر بھی تیار ہوگئی لیکن اب انہوں نے ٹی او آرز میں مسئلہ نکال لیا، کچھ لوگ چاہتے ہیں یہ کیس میڈیا پر چلتا رہے اور اس پر کھیل تماشا ہوتا رہے جب کہ میڈیا پر روز الزامات لگتے رہے لیکن کیس منتقی انجام تک نہ پہنچے تاہم ہم چاہتے ہیں کہ اس کیس کو شورشرابے کے نظر نہیں ہونا چاہیے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ کچھ لوگ سپریم کورٹ کو تب مانتے ہیں جب ان کے مرضی کے فیصلے کیے جائیں لیکن معذرت کے ساتھ اسے جمہوریت نہیں ضدبازی کہا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ  اپوزیشن کے ایک مخصوص گروپ کا ہدف کرپشن نہیں بلکہ ایک شخصیت کو کرسی سے ہٹانا ہے جو جلسے جلوسوں، پریس کانفرنس میں ان کو متنازعہ بنا کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا حتمی مطالبہ ماننے کے بعد ٹی او آرز کا ڈرامہ رچایا گیا جس سے عام آدمی واقف بھی نہیں کہ یہ کیا چیز ہے جب کہ سپریم کورٹ کے پاس لامحدود اختیارات ہیں اور حکومت اور وزیراعظم کی وجہ سے کسی قسم کی رکاوٹ نہیں تو پھر اپوزیشن کو کس بات پر اعتراض ہے، کیا انہیں سپریم کورٹ اور قانون پر اعتماد نہیں ہے۔

وفاقی وزیرداخلہ نے اپوزیشن سے درخواست کی کہ قوم کے سامنے سچ آنے دیں، لوگوں کو بے وقوف بنا کر سچ کے سامنے دیواریں کھڑی نہ کی جائیں اور نہ ہی سپریم کورٹ کو ڈکٹیٹ کیا جائے جب کہ مجھے اس بات پر بہت افسوس ہوا کہ عمران خان نے اپنے جلسوں میں خواتین سے ہونے والی بدتمیزی کا الزام بھی حکومت اور پولیس پر لگادیا۔ انہوں نے کہا کہ میں عمران خان کو پیشکش کرتا ہوں کہ اس واقعے پر ایک کمیٹی تشکیل دیں جس میں پی ٹی آئی، انتظامیہ اور میڈیا کے نمائندے شامل ہوں اور نادرا کے ذریعے ان لوگوں کی شناخت کرکے انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے لیکن میں یہ بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ خواتین سے بدتمیزی کی واقعات صرف تحریک انصاف کے جلسوں میں کیوں ہوتے ہیں۔

چوہدری نثار نے کہا کہ کرپشن اس ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے اور یہ ایک سنہری موقع ہے کہ ہم قوم کے سامنے سچ لے آئیں جب کہ وزیراعظم نے خود سمیت اپنے خاندان کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کے ٹی او آرز پر اپوزیشن کے ساتھ باہمی اعتماد کی بنیاد پر ہم ایک متفقہ رائے سپریم کورٹ کو دیں گے لیکن جب اپوزیشن کے ٹی او آرز کو پڑھا تو اس میں کوئی گنجائش نہیں نکلی۔

دوسری جانب وفاقی وزیرقانون زاہد حامد نے کہا کہ ہم نے ٹی او آرز میں کک بیگس لینے، کرپشن کرنے، ٹیکس نہ دینے، بیرون ملک غیر قانونی طریقے سے پیسے بھیجنے والے ان تمام افراد کو شامل کیا جس میں سیاستدان سے لے کر بزنس مین اور عام آدمی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آج اپوزیشن کے ٹی او آرز پر غور کیا لیکن اس میں تسلیم کرنے کے لیے کچھ نہیں اور اپوزیشن نے اپنے ٹی او آرز میں جو مندرجات شامل کیے ہیں اس سے ان کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے جیسا کہ انہوں نے وزیراعظم کے احتساب کا مطالبہ کیا جب کہ آئی سی آئی جے اس بات کی تردید کرچکی ہے کہ اس معاملے میں وزیراعظم براہ راست ملوث نہیں بلکہ ان کے بچوں کی وجہ سے ان کا نام شامل کیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔