ہمیں بھی ایک ’پائیڈ پائیپر‘ کا انتظار ہے

سید عون عباس  جمعرات 5 مئ 2016
جی تو یہی چاہتا ہے کہ کوئی پائیڈ پائپر آئے اور ان تمام مفاد پرست، چور، ڈکیت، عوامی دولت پر راج کرنے والوں کو یہاں سے کہیں دور لے جا کے چھوڑ دے۔

جی تو یہی چاہتا ہے کہ کوئی پائیڈ پائپر آئے اور ان تمام مفاد پرست، چور، ڈکیت، عوامی دولت پر راج کرنے والوں کو یہاں سے کہیں دور لے جا کے چھوڑ دے۔

یہ 1284ء کا قصہ ہے کہ جرمنی کے شہر ہیمیلن میں لگ بھگ 130 بچے اچانک غائب ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بچے کہیں غائب نہیں ہوئے تھے بلکہ انہیں چوہوں نے مار دیا تھا۔ جب اس شہر کے حکمران چوہوں کو قابو کرنے میں ہر طرح سے ناکام ہوگئے تو پھر تلاش ہوئی کسی نجات دہندہ کی اور بلایا گیا پائیڈ پائپر نامی شخص کو اور اس سے درخواست کی گئی کہ شہر میں چوہوں کے خاتمے کا کوئی حل نکالو۔ بطور معاوضہ ایک رقم طے کرلی گئی۔ المختصر پائیڈ پائپر شہر کے تمام چوہوں کو بانسری بجاتا ہوا اپنے پیچھے لے جاتا ہے اور انہیں پہاڑ سے نیچے نہر میں گرا دیتا ہے۔ قصہ مزیدار اُس وقت ہوا جب پائیڈ پائپر شہر کے حاکموں سے اپنا معاوضہ لینے گیا تو اُس کو یہ کہہ کر ٹال دیا گیا کہ اُس نے کوئی احسان نہیں کیا بلکہ یہ تو بہت ہی آسان کام تھا جو کوئی بھی کرسکتا ہے۔

اس قصے کو پڑھ کر یہ علم ہوا کہ اُس دور کے اشرافیہ بھی حق مارنے میں کسی سے پیچھے نہیں تھے۔

یہ کہانی ہم نے تیسری جماعت میں سنی تھی لیکن اس کی جھلک آج 2016ء بھی نظر آسکتی ہے، کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا۔ جی ہاں صوبائی دارلحکومت خیبر پختونخوا پشاور میں گزشتہ کچھ عرصہ سے چوہوں نے اپنی سنگین تاریخ دوہرانے کا جو فیصلہ کیا ہے اس نے ہر سمت خوف پھیلا دیا ہے۔ چوہوں کے کاٹنے سے اب تک پشاور میں 374 کے قریب لوگ زخمی ہوگئے ہیں۔ چوہوں کا نشانہ بننے والے متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ یہ چوہے عام چوہوں کی نسبت زیادہ بڑے اور خوفناک ہیں۔

صوبائی حکومت نے پہلے تو اپنے طور پر ان چوہوں کو مارنے کی کوشش کی لیکن پھر ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا کہ جو کوئی چوہا مارے گا یا اُسے زندہ پکڑے گا تو اس کو 50 روپے فی چوہا بطور انعام دیے جائیں گے۔ جب اِس پیشکش سے بھی بات نہیں بنی تو اعلان کیا گیا کہ یہ انعامی رقم 50 سے بڑھا کر 300 کردی گئی ہے لیکن شاید پشاور کی عوام اس معاملے میں ہوشیار نکلے اور ان کے ذہن میں فوری طور پر پائیڈ پائپر کا خیال آگیا جس کو ہزاروں چوہے مارنے کے باوجود ایک پیسہ بھی نہیں دیا گیا تھا۔ بس پھر چوہے مارنے کے بعد حکومت سے انعامی رقم مانگی گئی تو حکومت پریشان ہوگئی کہ اتنے پیسے کہاں سے لائے جائیں اور یوں فوری طور پر پیشکش واپس لے لی گئی۔

چلیں یہ تو چوہوں کا معاملہ ہے جنہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اُس کی صوبائی حکومت کو پریشان کر رکھا ہے، اور بھلا چوہے تو چوہے ہوتے ہیں وہ کہاں کسی کی سنتے ہیں۔ لیکن کارکنان تو سن سکتے ہیں نا؟ لیکن بدقسمتی سے وہ بھی کسی کی نہیں سنتے۔ اگر یقین نہیں آرہا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا جائزہ لے لیجیے، آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح عمران خان کے جلسوں میں وہ چوہوں کی مانند خواتین کو دیکھ کر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔

چوہے پاکستانی سیاست میں جب اس قدر ’ہٹ‘ ہوجائیں تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ مولانا صاحب کسی سے پیچھے رہ جائیں۔ بنوں میں وزیراعظم کو خوش کرنے کے لیے انہوں نے بھڑک ماری کہ چوہوں سے ڈرنے والے پنجاب کے شیر کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ ارے مولانا فضل الرحمن صاحب آپ شاید بھول رہے ہیں کہ ان چوہوں نے اب تک 374 لوگوں کو زخمی کردیا ہے۔ ویسے کیا آپ بھول گئے ہیں کہ جن کا ساتھ دینے کے لیے آپ پختونخواہ کے چوہوں کو ہلکا لے رہے ہیں انہی کی حکمرانی میں لاہور ماڈل ٹاون میں کئی بے گناہ شہریوں کو دوران احتجاج بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا۔ تو کیا وہ بھی چوہے ہی تھے یا انسان، جن کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا تھا۔

ویسے ہمارے یہاں بھی عجیب دل دُکھانے والی سیاست ہوتی ہے جس سے کم از کم عوام کو تو کوئی فائدہ نہیں۔ حکمراں صرف اپنے ہی مفاد کے حصول کی خاطر سب کام کرتے ہیں۔ لاپرواہی کی حد تو یہ ہے کہ شہری کتنی بھی اذیت اور تکلیف میں مبتلا ہوں لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے چوہوں کے خاتمے کیلئے سنجیدہ نوعیت کے اقدامات سامنے نہیں آسکے ہیں۔ اب تو یہی جی چاہتا ہے کہ کوئی پائیڈ پائپر آئے اور ان تمام مفاد پرست، چور، ڈکیت، عوامی دولت پر راج کرنے والوں کو یہاں سے کہیں دور لے جاکر چھوڑ دے۔ بس جو پائیڈ پائپر بھی یہ خیر کا کام کرے گا میں اُس سے پیشگی وعدہ کرتا ہوں کہ یہ قوم آپ کو اس نیک کام کے عوض بھرپور معاوضہ دے گی اور ہرگز مایوس نہیں کرے گی۔

کیا آپ بھی پائیڈ پائپر کی آمد کے منتظر ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
سید عون عباس

سید عون عباس

بلاگر نے جامعہ کراچی سے ابلاغ عامہ اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔ اس وقت وفاقی اردو یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ میں ایم فل جا ری ہے۔ ریڈیو پاکستان، جامعہ کراچی کے شعبہ تعلقات عامہ سے منسلک رہنے کے علاوہ مختلف اخبارات اور رسالوں میں تحقیقی علمی و ادبی تحریریں لکھتے ہیں۔ ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے صحافی اور ایک نجی چینل سے وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔