اقتصادی راہداری منصوبہ اور بھارتی عزائم

ایڈیٹوریل  ہفتہ 7 مئ 2016
پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں میں روز بروز تیزی آتی چلی جا رہی ہے جسے روکنے کے لیے پاکستان کو بھی سخت موقف اپنانا ہو گا۔ فوٹو : فائل

پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں میں روز بروز تیزی آتی چلی جا رہی ہے جسے روکنے کے لیے پاکستان کو بھی سخت موقف اپنانا ہو گا۔ فوٹو : فائل

بھارت نے ایک بار پھر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کی آزادکشمیر میں سرگرمیوں پر اپنی تشویش سے بیجنگ حکام کو آگاہ کر دیا، چین سے ان سرگرمیوں کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ وزیر مملکت برائے امور خارجہ وی کے سنگھ نے راجیہ سبھا میں تحریری جواب میں کہا کہ چین اقتصادی راہداری منصوبے کی تیاری میں پاکستان کی مدد کر رہا ہے اور اس اقتصادی راہداری کے کچھ منصوبے آزادکشمیر میں بھی ہیں۔

یہ روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے کہ بھارت پاکستان کو نہ صرف داخلی سطح پر عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے بلکہ اسے چاروں طرف سے گھیرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی اس کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بن رہا ہے۔ جب سے پاکستان نے اقتصادی راہداری منصوبے کا اعلان کیا ہے بھارت اسے رکوانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے۔

یہاں تک کہ انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی چین جا پہنچے اور آزاد کشمیر سے راہداری گزرنے کی آڑ میں اسے اقتصادی راہداری منصوبہ ختم کرنے کا کہا۔ نریندر مودی کا خیال تھا چونکہ وہ خود تشریف لائے ہیں لہٰذا چینی حکومت ان کے احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ منصوبہ ختم کر دے گی مگر چینی حکومت نے واضح طور پر اس سے انکار کرتے ہوئے مودی کے تمام منصوبے پر پانی پھیر دیا۔ لیکن بھارت کے ارادے دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نچلا بیٹھنے والا نہیں‘ اقتصادی راہداری منصوبے کو تیزی سے مکمل ہوتے ہوئے دیکھ کر وہ ایک بار پھر اپنے مذموم عزائم کو کامیاب بنانے کے لیے سرگرم ہو گیا ہے۔

اب اس نے چین سے ایک بار پھر آزاد کشمیر میں راہداری منصوبہ ختم کرنے کے لیے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ چینی حکومت اقتصادی راہداری منصوبے کی اہمیت اور بھارتی سازشوں سے بخوبی آگاہ ہے  اور وہ کبھی انھیں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل سے چین کو بے پناہ تجارتی فوائد اور مواقع میسر آئیں گے جس سے اس کی معاشی ترقی کی رفتار خاصی تیز ہو جائے گی۔ ایسے میں بھارت کے کہنے پر وہ اقتصادی راہداری منصوبے کو ختم یا اسے نقصان نہیں پہنچنے دے گا، امید ہے کہ بھارتی حکومت کا یہ وار بھی خالی جائے گا اور اسے منہ کی کھانی پڑے گی۔

حالیہ دنوں جب سے پاکستان اور امریکا میں مزید ایف سولہ طیاروں کے حصول کی بات چیت چلی ہے بھارت نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور امریکا سے یہ کہا کہ پاکستان کو یہ طیارے کسی بھی صورت نہ دیے جائیں۔ اس حوالے سے گزشتہ چند روز سے جو معاملات سامنے آئے ہیں اس سے بھارت اپنی اس سازش میں کامیاب ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ پاکستان کو بتا دیا گیا ہے کہ اگر اس نے ایف سولہ طیارے خریدنے ہیں تو اس کی ادائیگی اسے ہی کرنا ہو گی۔ پاکستان نے بھی یہ واضح کر دیا کہ اگر امریکا سے فنڈز نہ ملے تو پاکستان دیگر ممالک سے ایف سولہ طیارے خرید سکتا ہے۔

بھارت ایک جانب ورکنگ باؤنڈری اور کنٹرول لائن پر فائرنگ اور گولہ باری کر کے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرتا رہتا ہے تو دوسری جانب وہ افغانستان کے راستے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں کلبھوشن کا مسئلہ منظرعام پر آنے کے بعد یہ حقیقت کھلی کہ بھارت پاکستان کے خلاف درپردہ ایران کی سرزمین بھی استعمال کررہا ہے۔ ایک جانب عالمی طاقتیں پاک بھارت اختلافات ختم کرنے کے لیے مذاکرات پر زور دے رہیں لیکن دوسری جانب بھارت کے جارحانہ عزائم اور پاکستان کے خلاف اس کی سازشوں سے مسلسل چشم پوشی کر رہی ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متعدد ڈیمز تعمیر کر رہا ہے ۔

جس سے پاکستان کو پانی کی سپلائی میں مسلسل کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ پاکستان نے اس سلسلے میں کئی بار عالمی طاقتوں کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کہا مگر انھوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ پاکستان نے ہر موقع پر یہ کہا ہے کہ وہ بھارت سے بہتر اور دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے اور جب بھی باہمی تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا کہا جاتا ہے بھارت کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر مذاکرات شروع ہونے سے قبل ہی اسے سبوتاژ کر دیتا ہے۔ جب تک بھارت اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لاتا خطے میں قیام امن کے لیے کی جانے والی کوئی بھی کوشش نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں میں روز بروز تیزی آتی چلی جا رہی ہے جسے روکنے کے لیے پاکستان کو بھی سخت موقف اپنانا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔