ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام پری بجٹ سیمینار کا اہتمام، وزیر خزانہ کی شرکت

ویب ڈیسک  منگل 24 مئ 2016

 اسلام آباد: ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام پری بجٹ سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی جب کہ اس موقع دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی آئندہ بجٹ کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ایكسپریس میڈیا گروپ كے زیر اہتمام امیدیں، توقعات اور خدشات کے عنوان سے پری بجٹ سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ جس وقت مسلم لیگ (ن) برسراقتدار میں  آئی تھی تب ملك كی معاشی حالت بہت خراب تھی اور پاكستان دیوالیہ ہونے كے قریب تھا، اس وقت ماہرین كہتے تھے كہ پاكستان كی حالت درست ہونے میں 4 سے 5 سال كا عرصہ لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایك مشكل چیلنج تھا مگر ہم نے معیشت كی بہتری کے لیے روڈ میپ تیار كركے ایك نئے سفر كا آغاز كیا اور محض 3 سال كے مختصر عرصے میں پاكستان كی معیشت كو درست سمت پر لے آئے ہیں۔

اسحاق ڈارنے كہا كہ ملك میں توانائی كے بحران كی وجہ سے بجلی کی لوڈشیڈنگ میں بے حد اضافہ ہوگیا تھا، ملك كی صنعتیں  بجلی اور گیس بحران كی وجہ سے مشكلات كا شكار تھیں، ملك میں ٹیكس ادا كرنے كی شرح شرمناك حد تك كم تھی، ہم نے ان مشكلات سے نبردآزما ہونے کے لیے كوششیں شروع كر دیں اور مالیاتی نظم و ضبط كے تحت اپنے اخرجات میں  كمی كی جس كے تحت وزیر اعظم كے صوابدیدی فنڈ جو 4 ارب روپے تھا اس كو زیرو كر دیا، اس كے ساتھ 3 کے قریب اداروں  كے سیكرٹ فنڈزكو ختم كردیا۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ملك میں كپاس كی كم پیداوار لمحہ فكریہ ہے، 18ویں ترمیم كے بعد ملك كے زیادہ تر وسائل صوبوں  كے پاس چلے گئے ہیں اور یہ صوبوں  كی ذمہ داری ہے كہ وہ زراعت كے شعبے كو توجہ دیں۔ انہوں نے كہا كہ پہلے ملك میں كپاس كی پیداوار ہندوستان كے مقابلے میں زیادہ ہوتی تھی مگر بدقسمتی سے صوبے زراعت كی جانب پوری توجہ نہیں  دے رہے ہیں اور موجودہ حالات كے پیش نظر وفاق صوبوں كے ساتھ زراعت كی بہتری كے لیے مكمل تعاون كرے گا۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ملك كو توانائی بحران كے بعد پانی كے بحران كا سامنا ہے، اگر كالا باغ ڈیم كی تعمیر پر صوبے متفق نہیں ہو رہے ہیں تو ہمیں دیگر ذرائع كے جانب دیكھنا ہوگا، ہمیں دیامر بھاشا ڈیم اورداسو ڈیم پر توجہ دینی ہوگی تاكہ ملك میں  پانی كے ذخائر كو محفوظ بنا سكیں۔

اسحاق ڈار نے كہا كہ پانی سے بجلی بنانا سستا ترین ہے تاہم اس میں كئی سال لگ سكتے ہیں  جس كی وجہ سے ہم نے توانائی بحران سے نمٹنے كے لیے گیس اور كوئلے سے بجلی بنانے كی جانب توجہ دی ہے اور 2018 تك 10ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم میں داخل كرنے كے قابل ہوجائیں گے جو كہ مسلم لیگ کے لیے اگلی حكومت بنانے كا سبب ہوگا۔ انہوں نے كہا كہ مسلم لیگ (ن) نے ملك كی معیشت كو مضبوط بنانے کے لیے طویل المدتی منصوبے تیار كیے ہیں  جو كہ ہر آنے والی حكومت كے دور میں  بھی جاری رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی راہداری كا منصوبہ پاكستان كی معاشی ترقی كا آغاز ہے، دنیا كے دیگر ممالك بھی پاكستان میں سرمایہ كاری كی جانب راغب ہو رہے ہیں اور ایك وقت ایسا ائے گا جب پاكستان میں  لوگ روزگار كی تلاش میں آئیں  گے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر جاری ہونے والی رپورٹ كے  مطابق 2050 تك پاكستان كی معیشت دنیا كی 18ویں كامیاب معیشت ہوگی، ہماری كوشش ہوگی كہ 2030 تك پاكستان كو اس صف میں لاسكیں۔ انہوں نے کہا کہ ملك كی معاشی ترقی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں  كو مل كر كام كرنا ہوگا، ملك میں زراعت كے شعبے كی بہتری کے لیے اقدامات كرنے ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگلے بجٹ میں ٹیكس گزاروں  پر مزید بوجھ نہیں ڈالیں گے جب كہ ٹیكس نہ دینے والوں  كی زندگی كو اجیرن بنا دیں گے، ترقیاتی بجٹ اور دفاعی بجٹ میں اضافہ كریں  گے، اخراجات كم كركے ترقی كی شرح میں اضافہ كریں  گے۔

پریس بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے كراچی سٹاك ایكسچینج كے سابق چیئرمین عارف حبیب  نے كہا كہ ملك كا سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری ہے جس كی بڑی وجہ ملك میں  سرمایہ كاری ریجن میں سب سے كم ہو رہی ہے، بھارت میں  30 فیصد سرمایہ كاری ہو رہی  ہے جب كہ پاكستان میں 10 فیصد ہو رہی ہے، دوسرا سیكورٹی اور تیسرا مسئلہ توانائی بحران كا ہے۔

ایف پی سی سی آئی كے صدر عبدالرؤف عالم نے كہا كہ ایف بی آر كو بجٹ تجاویز دے دی ہیں، امید كرتا ہوں كہ ان تجاویز میں سے كچھ كو بجٹ میں شامل كیا جائے گا، یہ ملك ہمارا ہے اور كوئی بھی حكومت ہو وہ ہماری ہے، اس سسٹم میں رہ كر ہم نے مسائل حل تلاش كرنا ہے،  ملك كے 20 كروڑ عوام  ہے ان میں دیكھیں  كہ كتنے لوگ ٹیكس دیتے ہیں، ہم كیسے دنیا كا مقابلہ كر سكتے ہیں  جب ہمارے اتنے كم لوگ ٹیكس دیتے ہیں۔

پاكستان پیپلزپارٹی كے سینیٹر عثمان سیف اللہ خان نے كہاكہ بجٹ عام آدمی كی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے، بجٹ سازی میں پارلیمنٹیرین كی كوئی خاص شمولیت نہیں ہے، صحافیوں  سے بجٹ كے متعلق پوچھتا ہوں تو علم ہوتا ہے كہ حكومت بجٹ میں كیا كرنے جا رہی ہے، یہ بہتر ہوتا كہ حكومت بجٹ سازی كے عمل میں پارلیمنٹیرین كو بھی شامل كرتی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بے روز گاری كا ہے، 20 سے 30 لاكھ لوگ ہر سال لیبر فورس میں  شامل ہوتے ہیں تاہم ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں كہ ان كو روز گار كے مواقع دے سكیں۔

پاكستان تحریك انصاف كے مركزی رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پری بجٹ سیمینار پرانی روایت ہے ہر سہ ماہی میں  بجٹ آتا ہے اس لیے ہر سہ ماہی میں سیمینار بھی منعقد ہو نا چاہیے۔ انہوں نے كہا كہ اعتراف كرتاہوں كہ وفاقی وزیر خزانہ میرے پسندیدہ وزیر ہیں  كیونكہ وہ جب دیگر كابینہ پر نظر دوڑاتے ہیں تو عابد شیرعلی، خواجہ سعد رفیق اورخواجہ آصف نظر آتے ہیں، جتنے بجٹ اسحاق ڈار پیش كریں  گے وہ گینز بك آف ورلڈ ریكارڈ ہے كیونكہ اتنے بجٹ كبھی بھی كسی وزیر خزانہ نے پیش نہیں كیے ہوں گے، یہ چوتھا بجٹ آئی ایم ایف كی زیر نگرانی پیش كیا جا رہا ہے ہمارے پاس كچھ نہیں تو آئی ایم ایف سے سننا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔