امریکاکی دوستی ؟

علی احمد ڈھلوں  بدھ 25 مئ 2016
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

ہمارے ساتھ بھی کمال ہوتاہے ، امریکا  ہمارے ملک میں داخل ہوتا ہے اور حملے شملے کر کے ہمیں مطلع کر کے چلا جاتا ہے۔ اُسامہ بن لادن ہو یا ملا اختر منصور یہ ہمیشہ پاکستان کے کھاتے میں ہی کیوں لکھ دیے جاتے ہیں ۔

اُسامہ کی ڈیڈ باڈی کی تصویر آج تک ریلیز نہیں ہوئی اور اب ملا منصور اختر گاڑی سمیت زندہ جل گئے مگر معجزہ دیکھیے کہ ان کا ’’فائر پروف‘‘پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بچ گیا۔ ایسا ہی پیرس حملوں میں دیکھنے میں آیا تھا جب خود کش حملہ آور کے جسم کا قیمہ بن گیا مگر پاسپورٹ کو کچھ نہ ہوا۔ پتا نہیں ہم مسلمانوں کا پاسپورٹ کس پیپر سے بنتا ہے جو 2000 ڈگری سنٹی گریڈ درجہ حرارت کو بھی برداشت کر جاتا ہے۔

خیر ملا اختر منصور ڈرون حملے میں جاں بحق  ہو گئے۔امریکی صدر اوباما ، افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ، مشرق وسطیٰ میں امریکی کمانڈر جنرل جوزف، افغان انٹیلی جنس اور افغان طالبان کے ذرایع نے ملا منصور کی ڈرون حملے میں مارے جانے کی خبر کو مصدقہ بتایا جب کہ پاکستان کے وزرات خارجہ نے سب سے آخر میں اس بات کی تصدیق کی کہ طالبان قائد پاکستان کے علاقے میں ڈرون حملے مارے گئے ہیں۔

ورنہ24گھنٹے گزرنے کے باوجودپاکستان لاوارث نظر آرہا تھا اور ہمارے وزیر اعظم لندن کے پرفضاء مقام آکسفورڈ اسٹریٹ پر فاسٹ فوڈ کے مزے اُڑا رہے تھے اور اپنی فیملی کے ہمراہ شاپنگ کے مزے لوٹ رہے تھے… خیر چھوڑئیے۔  انھوں نے مذمتی بیان تو دے ہی دیا تھا اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ ’’جان کیری نے مطلؑع کیا تھا۔

دکھ اس بات کا ہے کہ اسامہ بن لادن، بیت اللہ محسود،  شیخ خالد، مولوی فضل اللہ اور ملا منصور جیسے لوگ پاکستان میں کیوں ہیں؟ پاکستان نے سفارتی سطح پر جو مؤقف لیا ہے وہ بھی  واضح نہیں ہے ۔ ادھر ملا اختر منصور کی ہلاکت ابھی تک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ جس گاڑی میں ملا اختر منصور کے مارے جانے کی اطلاع ہے، اس میں مرنے والا ولی محمد قلعہ عبداللہ کا رہائشی ہے۔ ولی محمد ایران سے کرائے کی گاڑی پر آرہا تھا کہ نشانہ بن گیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس واقعے سے ان مذاکرات کو شدید دھچکا لگا ہے جو بیک ڈور سے افغان طالبان اور امریکا کے درمیان جاری تھے جن میں پاکستان بھی پیش پیش تھا۔

امریکا کی سینیٹ نے پاکستان کے بارے میں جو قرارداد پاس کی ہے، اس کے بعد پاک امریکا تعلقات بحال ہونے میں وقت لگے گا۔ کیونکہ امریکا نے تین تازہ مطالبات پاکستان کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ جب کہ موجودہ حکومت ان تینوں مطالبات کو مستقبل میں مان بھی لے گی کیوں کہ ہمارے حکمرانوں نے اس کے لیے وقت مانگا ہے۔ ان مطالبات میں سرفہرست اُسامہ بن لادن کی مخبری کرنے والے شکیل آفریدی کو آزاد کرنا ہے  اور ویسے بھی مجھے کھٹکا سا لگا ہے کہ کہیں پاک چائینہ مراسم کی وجہ سے پاک امریکی دوریاں بھی پیدا تو نہیں ہورہیں؟ اگر ایسا ہے تو اس وقت یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ 1965ء کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ چین نے دیا تھا یا امریکا نے؟

کیوں کہ اُس وقت بھارت روس گٹھ جوڑ کی وجہ سے پاکستان مزید ٹکڑے ہو سکتا تھا… ہمارے حکمرانوں میں اتنی سمجھ بوجھ ہی نہیں ہے شاید کہ انھوں نے مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات کو کس طرح سے استوار رکھنا ہے۔ نہ تو ہمارا کہیں وزیر خارجہ نظر آتا ہے اور نہ ہی کہیں وزارت خارجہ کے اراکین نظر آرہے ہیں جو امریکا اور چین جیسی طاقتوں کو سفارتکاری کے ذریعے آگے لے کر چل سکیں۔ اگر بقول موجودہ حکمرانوں کے امریکا سے ناراضی مول لینے سے اگر پاکستان کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں تو بے شک اسے شٹ اپ کال دے دیں لیکن یہ بھی سوچیں کہ کیا حقیقت میں کوئی اور ملک پاکستان کے ساتھ فرنٹ مین کے طور پر کھڑا ہو سکتاہے۔

قوموں اور ملکوں کے تعلقات ہمیشہ باہمی مفادات کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں۔ جب تک یہ تعلق قائم رہتا ہے، گرمجوشی برقرار رہتی ہے مگر یہ رشتہ جیسے ہی کمزور پڑا، تعلقات اوپر سے نیچے آنا شروع ہو جاتے ہیں اور سرد مہری کی ایک دیوار بیچ میں آن کھڑی ہوتی ہے۔ پاک امریکا تعلقات کی کہانی بھی ایسی ہے کہ بقول شاعر

صاف چھپتے بھی نہیں

سامنے آتے بھی نہیں

کبھی اپنی ضرورت کے مطابق ہمارا دوست اور کبھی دوسری طرف کھڑا نظر آتا ہے۔ ان سب باتوں سے ہٹ کر میرا دل کرتا ہے کہ امریکا ہماری جان چھوڑ دے اور ہم خود مختار ہو جائیں اور اگلی نسل کو یہ خود مختاری بطور تحفہ فراہم کریں۔

لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ ہماری زندگی میں تو ہونے سے رہا۔ جنوب مشرقی ایشیا میں پاک امریکا تعلقات کی کہانی لیاقت علی خان سے شروع ہوتی ہے جب انھوں نے روس کا دورہ ملتوی کرکے خارجہ پالیسی میں امریکا کی طرف قدم بڑھائے مگر قائد ملت سے امریکا کو بہت سی توقعات تھیں۔ خصوصاً ایرانی تیل کے حوالے سے امریکا کے جو مفادات وابستہ تھے، لیاقت علی خان نے ایران کو سفارش کرنے سے انکار کیا تو امریکی افشا ہونے والے پیپرز میں بہت سی کہانیاں لکھی گئیں۔ محمد علی بوگرہ بھی پاک امریکا تعلقات میں وکالت کا کردار ادا کرنے والوں میں شامل تھے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔