22ترمیم اور شفاف انتخابات

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 25 مئ 2016
tauceeph@gmail.com

[email protected]

قومی اسمبلی میں آئین میں کی گئی بائیسویں ترمیم متفقہ طور پر منظور کرلی گئی ، اب چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان کی لیے ججوں کے علاوہ ٹیکنو کریٹس کا تقرر بھی ہوسکے گا۔ یوں پانامہ لیکس کے قضیے کی گونج میں تما م جماعتیں ایک نئی آئینی ترمیم پر متفق ہوگئیں۔ یہ ترمیم انیس مئی کو ایوان میں پیش ہوئی اور ایک گھنٹے میں تمام شقیں منظورکی گئیں، اب چیف الیکشن کمشنر کے لیے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کے علاوہ گریڈ 22میں ملازمت کرنے والے سرکاری افسر کو جس کے پاس بیس سال کا انتظامی تجربہ اور سولہ سال کی تعلیم کی سند ہوگی، اس عہدے پر تقرر ہوسکتا ہے ۔

اس طرح الیکشن کمیشن کے اراکین بھی ٹیکنو کریٹس بنائے جاسکتے ہیں، اب الیکشن کمیشن کے اراکین ایک ساتھ ریٹآئرڈ نہیں ہوں گے بلکہ قرعہ اندازی کے تحت دو ارکان ڈھائی سال کے بعد ریٹائرڈ ہوجائیں گے مگر الیکشن کمیشن کے اراکین کا عہدہ کبھی خالی نہیں رہے گا ۔ اس ترمیم پر چوبیس جولائی 2014کو قائم ہونے والی پارلیمانی کمیٹی نے غور کیا تھا اس کمیٹی نے پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کے اراکین شامل تھے یوں سب جماعتوں کا اتفاق سامنے آیا مگر اس کمیٹی میں جامعہ انتخابی اصلاحات کا فریضہ اب تک پورا نہیں کیا، پاکستان میں الیکشن کمیشن کی سربراہی کے لیے ججوں کے علاوہ ٹیکنو کریٹس کا تقرر پہلا تجربہ ہوگا مگر دنیا بھر میں کئی ممالک میں ٹیکنو کریٹس ہی انتخابات کے انعقاد کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

بھارت میں ہمیشہ الیکشن کمیشن کے سربراہ اور اراکین ہمیشہ ٹیکنو کریٹس ہی رہے ہیں۔ انتخابی کاموں کے انعقاد کا کام سرکاری افسران ہی کرتے ہیں۔عدالتی افسروں کو الیکشن کے کاموں میں شامل نہیں کیا جاتا، بھارت میں الیکشن کمیشن انتہائی طاقتور ہے اور الیکشن کمیشن کے مختلف سربراہوں نے شفاف انتخابات کے لیے انقلابی فیصلے کیے ہیں، جمہوری نظام اور انتخابات کا جائزہ لینے والے مبصرین کہتے ہیں کہ ججوں کے پاس انتظامی تجربہ نہیں ہوتا، وہ ساری زندگی ایک کمرے میں بیٹھ کر انصاف فراہم کرتے ہیں مگر بیورو کریٹس ساری زندگی انتظامی مسائل سے نبرد آزما ہوتے ہیں اگر الیکشن کمیشن کو مکمل خودمختاری دی جائے اور احتساب کا موثر نظام قائم ہو توٹیکنو کریٹس زیادہ کامیاب ہوسکتے ہیں ۔

پھر عدالتی افسروں پر پہلے ہی کام کا دباؤ ہوتا ہے اور انتخابی عرضداشتوں کی سماعت ججوں کو ہی کرنی ہوتی ہے اس لیے ان کا انتخابی معاملے سے دور رہنا زیادہ فائدہ مند ہے ۔ پاکستان میں شفاف انتخابات ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ، ہر انتخاب کی تاریخ  کے اعلان ہونے کے ساتھ انتظامیہ کی مداخلت اور انتخابی دھاندلیوں کے الزامات لگنا شروع ہوجاتے ہیں اور انتخابی نتائج کو ہارنے والی جماعتیں قبول نہیں کرتیں یوں انتخابات کے انعقاد کے بعد سیاسی استحکام ہونے کے بجائے سیاسی نظام کو ایک نئے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ تا ہے یہی وجہ ہے کہ منتخب جماعتوں کا عسکری اسٹیبلشمنٹ پر انحصار بڑھ جاتا ہے۔

2008کے انتخابات اس لحاظ سے منفرد تھے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو قبول کیا اور وفاقی اور صوبوں میں اکثریت حاصل کرنے والی سیاسی جماعتوں کو حکومتیں بنانے کا موقع ملا۔ یہی وجہ تھی کہ وفاق میں پیپلز پارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ ن، خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان میں پیپلز پارٹی سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے مشترکہ مخلوط حکومتیں قائم کی تھیں۔ جب پارلیمنٹ نے اٹھارہویں ترمیم میں غور و فکر کرنا شروع کیا تو صوبوں کو وہ تمام اختیارات مل گئے جن کا مطالبے پر بہت دفعہ الزامات درست بھی ہوتے ہیں۔

ساٹھ اور ستر کی دہائی میں عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی پر غداری کے لیبل لگے تھے۔ اس کے ساتھ انتخابی اصلاحات کا معاملہ بھی طے ہوا اس ترمیم کے تحت انتخابات کی تاریخ سے نوے دن قبل ورفاقی اور صوبوں میں عبوری حکومتوں کے قیام چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کی یکساں اختیارات چیف الیکشن کمیشن کے تقرر کے لیے وزیرا عظم اور قائد حزب اختلاف میں اتفاق رائے دوسری صورت میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو چیف الیکشن کمشنر کے تقرر، صوبوں کے چیف جسٹس کو الیکشن کمیشن کے اراکین کے تقرر کے اختیارات دیے گئے۔

یوں عزت مآب جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کو متفقہ طور پر چیف الیکشن کمیشن مقرر کیا گیا ، الیکشن کمیشن نے شفاف انتخابات کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں کئی مجلسیں منعقد کی ۔ یوں ووٹر کے انگوٹھوں کی بائیو میٹرک تصدیق، پولنگ اسٹیشنز پر نتائج کے اعلان ہر امیدوار کے کاؤنٹنگ ایجنٹ کو نتائج کی تصدیق شدہ سلپ کی فراہمی کے فیصلے شامل تھے پھر سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے فیصلہ دیا تھا کہ کوئی امیدوار ووٹروں کو لانے لیجانے کے لیے ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کرے گا اور پولنگ اسٹیشنز ووٹروں کے گھر کے نزدیک قائم کیے جائیں گے ۔

مئی 2013 کے انتخابات کے وقت اٹھارہویں ترمیم کے تحت ہونے والے انتخابی اصلاحات کے نتائج سامنے آئے عبوری وزیرا عظم کے لیے وزیر اعظم پرویز اشرف اور قائد حزب اختلاف چوہدری نثار کے درمیان اختلاف رائے نہیں ہوا لہٰذا مسئلہ الیکشن کمیشن کے سامنے آیا الیکشن کمیشن کے اراکین بھی کسی نام پر متفق نہیں ہوئے اور اکثریت کی بنیاد پر جسٹس کھوسہ کو عبوری وزیر اعظم بنایا گیا الیکشن کمیشن کے افسروں نے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر پولنگ اسٹیشنوں کی اسکیم تیار کی اور ایسے بہت سے اسکولوں کو پولنگ اسٹیشن بنادیا گیا جن کی عمارت ایک پولنگ اسٹیشن کا بھی بوجھ برداشت نہیں کرسکتی تھی وہاں چھ چھ پولنگ اسٹیشنز بنادیے گئے پھر انتخابی عملے کے تقرر اور انتخابی سامان کی فراہمی میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ، یہی وجہ تھی کہ کراچی کے بعض حلقوں کے پولنگ اسٹیشنوں میں دوپہر کے بعد پولنگ شروع ہوئی اور ملک بھر سے دیر سے پولنگ شروع ہونے کی بے تحاشہ شکایتیں ٹی وی چینلوں کی خبروں میں جگہ بنانے لگیں اورانتخابی عملے اور ووٹروں کو مقناطیسی سیاہی انگوٹھے پر لگانے اور کاؤنٹنگ شیٹ پر اس کا عکس حاصل کرنے کی تربیت پر توجہ نہیں دی گئی۔

بعض حلقوں میں ناقص سیاہی استعمال کی گئی بہت سے پریزائڈنگ افسر اور ان کا عملہ تمام قانونی لوازمات کی اہمیت سے واقف نہیں تھے یوں بہت سے حلقوں میں فارم تیرہ اور فارم چودہ پُر نہیں کیے گئے یہی وجہ تھی کہ جب ہارنے والے امیدواروں نے انتخابی عرضداشتیں دائر کیں اور ووٹروں کے انگوٹھوں کی تصدیق کے لیے نادرا پر دباؤ بڑھا تو ہزاروں ووٹروں کے انگوٹھوں کے عکس کی تصدیق نہیں ہوسکی جب کہ دھاندلی کا الزام لگانے کا جواز بنا، پھر کراچی سمیت مختلف حلقوں میں پولیس اور رینجرز کے دستے گنتی کے وقت کہیں چلے گئے تھے ، اسی طرح بعض سیاسی جماعتوں کے مسلح کارکنوں نے پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ کیا اور اپنی مرضی کے انتخابی نتائج مرتب کروائے۔ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم انتخابات میں چیف جسٹس کی مداخلت کے خلاف انھوں نے صدارتی انتخاب میں جسٹس چوہدری کی مداخلت کے خلاف ایک نوٹ بنایا تھا مگر الیکشن کمیشن کے اراکین نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا یوں چیف جسٹس نے شیڈول سے پہلے انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا یہی وجوہات تھی کہ فخر الدین جی ابراہیم نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا مگر بدقسمتی سے نہ تو مسلم لیگ ن اور نہ حزب اختلاف نے ان کے استعفی پر پارلیمنٹ پر بحث کی۔

عمران خان نے انتخابات کے فورا بعد انتخابی دھاندلیوں کا نعرہ لگایا یوں چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ ہوا مگر انتخابی قوانین کی پیچیدگی اور عدالتوں میں مقدمات کے التوا کی بنا پر دوبارہ گنتی نہیں ہوسکی اوردھرنوں کی نوبت آگئی عمران خان نے الیکشن کمیشن کے اراکین پر الزامات لگائے اور عبوری حکومتوں پر بھی تنقید ہوئی پنجاب کے عبوری وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی پر تنقید کا سلسلہ اب بھی جاری ہی سپریم کورٹ نے تحقیقات کے بعد کسی منظم سازش کے نظریے کو رد کردیا مگر انتخابی عمل کی شفافیت کا معاملہ اپنی جگہ موجود رہا  ۔

جمہوری نظام اور انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والی غیر سیاسی تنظیم پلڈاٹ نے آئین میں کی گئی اٹھارہویں ترمیم پر سخت اعتراض کیا پلڈاٹ کا کہنا ہے کہ حکومت نے جامع انتخابی اصلاحات کا عزم کیا تھا مگر ایک معاملے پر اتفاق کیا گیا جو کہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ پلڈاٹ کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کی کمیٹی جو 2014میں قائم ہوئی تھی اس کمیٹی کو تمام انتخابی مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی بعد اپنی رپورٹ پیش کرنی چاہیے تھی اس رپورٹ کی روشنی میں جامع قانون سازی ہونی چاہیے ابھی انتخابات میں دو سال ہیں اس کمیٹی کو اپنا کام مکمل کرنا چاہیے اور انتخابی اصلاحات کا مسودہ عوام کے سامنے پیش ہونا چاہیے ٹی وی چینلز کو روزانہ ہونے والے ٹاک شوز کو فرسودہ موضوعات پر بحث کے بجائے انتخابی اصلاحات کو اولیت دینی چاہیے ایک متفقہ انتخابی اصلاحات کا حصول جمہوری نظام کو مستحکم کرے گا اور آیندہ انتخابات کے نتائج پر کوئی اعتراض نہیں کرے گا یوں طالع آزما قوتوں کے عزائم ناکام بنائے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔