کم تعلیم یافتہ کرکٹرز، بغیرڈگری والابورڈ

سلیم خالق  جمعرات 26 مئ 2016
بورڈ کے ملازمین کا تو ہر صورت پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے لیکن یہاں تو ڈگریوں کا ہی علم نہیں:فوٹو:فائل

بورڈ کے ملازمین کا تو ہر صورت پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے لیکن یہاں تو ڈگریوں کا ہی علم نہیں:فوٹو:فائل

وی پلیڈ ویل،دے پلیڈ ویل،وی آل پلیڈ ویل
او کے،واٹ ڈو یو تھنک اباؤٹ دا کنڈیشنز
یا وی پلیڈ ویل

اوکے تھینک یو،گورے کمنٹیٹرکے پاس ہر سوال کا ایک ہی جواب ملنے پر واپسی کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا، یہ کوئی لطیفہ نہیں بلکہ ایک سابق پاکستانی کپتان کے ساتھ پیش آیا سچا واقعہ ہے جو بڑے بڑے بولرز سے نہیں ڈرتا تھا مگر انگلش میں بات کرتے ہوئے اس کے پسینے چھوٹ جاتے تھے، اسی طرح کا ایک واقعہ آسٹریلیا میں پیش آیا، سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں میچ سے قبل پریکٹس سیشن تھا، کپتان محمد یوسف واپس آئے تو میڈیا نے گھیر لیا، وہ اس افتاد کیلیے تیار نہ تھے، آسٹریلینز کا لب ولہجہ سمجھنا ویسے بھی آسان کام نہیں، سوالات میک گرا کے باؤنسرز کی طرح ان کے سر سے گذر گئے، میں بھی وہیں موجود تھا، یوسف نے برابر میں موجود ایک پاکستانی سے پنجابی میں پوچھا ’’ پائی جان اے کی پچھ ریا اے‘‘(بھائی جان یہ کیا پوچھ رہا ہے)ایسے میں اچانک ٹیم منیجر آگئے اور انھوں نے کپتان کو مشکل صورتحال سے نکالا، یہ اور ایسے کئی واقعات ملکی کرکٹ سے جڑے ہیں۔

انگریزی سے عدم واقفیت کی وجہ سے جاوید میانداد ماضی میں ایک بار ویسٹ انڈین ہوٹل میں مینڈک آرڈر کر کے کھا گئے تھے، ہمارے بعض کھلاڑی اب بھی نیٹ پریکٹس کے ساتھ ’’انٹرویو پریکٹس‘‘ بھی کرتے ہیں کہ کہیں مین آف دی میچ ایوارڈ مل گیا تو کیا کہیں گے، ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ انگریزی ضروری ہے یا کرکٹ، یقیناً سب کا جواب یہی ہو گا کہ کرکٹ ، اسی نے آپ کو یہ موقع دیا کہ عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں، اگر انگلش پر عبور ہی سب کچھ ہوتا تو آج بازید خان پاکستان کے نمبر ون کھلاڑی ہوتے، کھلاڑی اگر انگلش بولنے میں مہارت نہیں رکھتے تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے نہ ہی انھیں اس پر شرمندگی کا احساس ہونا چاہیے، دنیا بھر میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب کھلاڑیوں نے اپنی قومی زبان کو ترجیح دی، ماضی میں جب راشد لطیف کپتان تھے تو این ای ڈی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے باوجود انھوں نے فخر سے کہا کہ ’’میں اپنی مادری زبان میں انٹرویو دوں گا‘‘ موجودہ کھلاڑیوں کو بھی یہی کرنا چاہیے۔

غلط انگلش بول کر اپنا مذاق نہ اڑوائیں بلکہ صاف کہیں کہ میں اردو میں بات کروں گا، آپ کا کام کرکٹ کھیلنا ہے اسی میں مہارت لائیں،ہاں ساتھ ساتھ جب وقت ملے تو خود کو گروم بھی کریں، وسیم اکرم کی مثال سامنے ہے جو آج ایسے فر فر انگریزی بولتے ہیں جیسے لندن میں ہی پیدا ہوئے ہوں، حالانکہ انھوں نے شاید میٹرک یا انٹر تک تعلیم حاصل کی ہے، مگر ان میں سیکھنے کی لگن تھی لہٰذا انھوں نے انگلش سیکھی، مشتاق احمد و دیگر کئی کرکٹرز بھی اس کی واضح مثال ہیں، اگر چیئرمین بورڈ شہریارخان نے ٹیم کی شکستوں کی وجہ ٹیم میں پڑھے لکھے کرکٹرز کی کمی کو قرار دیا تو اس پر کسی کو دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں،ہاں اگر وہ یہ کہتے کہ ٹیم میں باصلاحیت کھلاڑیوں کی کمی ہے تو برا ماننا جائز تھا، ویسے چیئرمین کوپہلے اپنے بورڈ میں دیکھنا چاہیے، اس کے ملازمین کا تو ہر صورت پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے لیکن یہاں تو ڈگریوں کا ہی علم نہیں، بورڈکے کئی بڑے افسران اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں، اس وقت2 ڈائریکٹرز اور ایک جی ایم کی ڈگریز کا ہی کچھ پتا نہیں، انھیں مہلت در مہلت دی جا رہی ہے مگر وہ ڈگریز پیش نہیںکر پا رہے۔

ایک اعلیٰ افسر کی سپورٹ نے انھیں بچایا ہوا ہے، کیا کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ عثمان واہلہ، نائلہ بھٹی،ایزد سید، انتخاب عالم، ذاکر خان یا بورڈ سے جڑے سابق و موجودہ افسران کتنے تعلیم یافتہ ہیں؟ شہریارخان تعلیم کو اتنی اہمیت دے رہے ہیں لیکن یہ بتانا پسند کریںگے کہ مدثر نذر کو ڈائریکٹر اکیڈمیز بنانے کیلیے کیوں گریجویٹ کی شرط ختم کی؟ اس وقت تعلیم کی اہمیت کہاں گئی؟دراصل انھیں سب سے پہلے اپنے ادارے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیات کو لانا چاہیے،وہاں سفارشیوں کی بھرمار ہے اور کرکٹرزکو کم تعلیم یافتہ ہونے کا طعنہ دیا جا رہا ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کسی عام نوجوان کیلیے اب تعلیم اور کھیل کو ایک ساتھ جاری رکھنا ممکن نہیں رہا، زیادہ ترلڑکے کالج لیول کے بعد ذریعہ معاش کی تلاش میں لگ جاتے ہیں، جو کرکٹ کو پروفیشن بنانا چاہیں ان کیلیے بھی یہ دشوار کام ہے، کیونکہ گھر والے ان سے توقع کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ کچھ کما کر لائیں گے، کرکٹ سے ملازمت پانا موجودہ دور میں اتنا آسان نہیں رہا،ماضی میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے ذریعے پیسے کمائے جا سکتے تھے۔

اب تو ملازمت بھی اسی کو ملتی ہے جس کے والد بورڈ میں کسی عہدے پر فائز ہوں یا کوئی اور بڑی شخصیت سفارش کرے،جیسے حال ہی میں فلاں صاحب کے بیٹے خیر چھوڑیں۔۔۔ اس پر بعد میں بات کریں گے، مگر یہی وجوہات ہیں کہ ملک میں نیا ٹیلنٹ سامنے آنا بیحد کم ہو گیا ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ کرکٹرز کی شمولیت اچھی بات ہے لیکن اسے سلیکشن کا پیمانہ نہ بنایا جائے، اس سے ملک میں رہی سہی کرکٹ بھی ختم ہو جائے گی، چیئرمین ان دنوں اپنے منظور نظر جی ایم آغا اکبر کو کسی جگہ سیٹ کرنے کیلیے جو جان توڑ کوشش کر رہے ہیں، انھیں چاہیے کہ ان سمیت میڈیا ڈپارٹمنٹ کے دیگر افراد کو سمجھائیں کہ وہ پلیئرز سے کہیں کہ آپ کا کام غیرملکی میڈیا کو جھیلنا نہیں وہ ہم پر چھوڑ دیں،آپ صرف کرکٹ پر توجہ دیں، اپنی قومی زبان کے استعمال میں قطعی طور پر شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

رہی بات پڑھے لکھے کرکٹرز سامنے لانے کی تو اس کیلیے بورڈ کو پہلا قدم اٹھاتے ہوئے انڈر 16 اور19 لیول کے 100 کرکٹرز کے تعلیمی اخراجات اپنے ذمہ لے لینے چاہئیں، انھیں ایسا ماحول دیں کہ وہ کھیل اور تعلیم دونوں کوساتھ جاری رکھیں، اس کیلیے سو فیصد میرٹ کو ترجیح دی جائے،آپ باصلاحیت کھلاڑیوں کا انتخاب کریں اور انھیں ایسا ٹائم ٹیبل بنا کر دیں کہ وہ دونوں شعبوں میں مہارت پائیں،انھیں اکیڈمی میں بھی رکھا جائے، یقین مانیے اس پر بورڈ میں بغیر کام کیے لاکھوں روپے تنخواہیں لینے والے افسران سے بھی کم خرچ آئے گا، پھر بھی اگر مسئلہ ہو تو اسپانسرز بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں، یہ کرکٹرز جب ٹیم میں آئیں تو کسی بھی شعبے میں پیچھے نہیں ہوں گے، جب تک ایسا نہیں ہوتا اپنے کھلاڑیوں کو کم تعلیم یافتہ ہونے کا طعنہ نہ دیں، وہ اس کے باوجود ملک کیلیے خدمات انجام دے رہے ہیں جو نام نہاد اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی نہیں دے سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔