یہ جنگ جاری رہے گی

میرشاہد حسین  جمعـء 27 مئ 2016
یہ وہ پتھر ہے جو نہ اگلا جارہا ہے اور نہ ہی نگلا جا رہا ہے۔ امریکا واپس جائیگا تو سویت یونین کیطرح روس بن جائیگا اورغرور خاک میں مل جائیگا، لیکن اگر کھڑا رہا تو اخراجات زیادہ دیر برداشت نہیں کرسکے گا۔

یہ وہ پتھر ہے جو نہ اگلا جارہا ہے اور نہ ہی نگلا جا رہا ہے۔ امریکا واپس جائیگا تو سویت یونین کیطرح روس بن جائیگا اورغرور خاک میں مل جائیگا، لیکن اگر کھڑا رہا تو اخراجات زیادہ دیر برداشت نہیں کرسکے گا۔

’’مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘

’’اچھا ہے تمہیں تو صرف ایک بات سمجھ میں نہیں آتی مجھے تو کوئی بھی بات سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘

’’سمجھ میں تو تمہیں تب آئے ناں جب تم کسی کی کوئی بات سنو۔ تم نے تو بس ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ میں نہ مانوں۔‘‘

’’اچھا بتاؤ کیا بات سمجھ میں نہیں آتی؟‘‘

’’بات اتنی سی ہے کہ امریکہ بہادر طالبان سے مذاکرات بھی کرنا چاہتا ہے اور ان سے لڑائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے بھی نہیں دیتا۔‘‘

’’یہ تو بہت سادہ سی بات ہے جو تمہیں چھوٹی سی عقل میں نہیں آرہی۔‘‘

’’تو تمہاری بڑی عقل کیا کہتی ہے اس مسئلہ کے بیچ۔‘‘

’’بات اتنی سی ہے کہ وہ افغانستان سے نہیں جانا چاہتا۔ وہ اتنی دور سے یہاں چنے بھوننے یا مذاکرات مذاکرات کھیلنے نہیں آیا۔‘‘

’’تو پھر کیا کرنے آیا ہے؟‘‘

’’دہشت گردی کا صفایا کرنا ہے۔‘‘

’’لیکن ہمیں یہاں امن لائے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ہوتا تو نظر نہیں آتا۔‘‘

’’نہ ہو ہماری بلا سے لیکن ہم یہاں سے جانے والے نہیں تم میری بات لکھ لو۔‘‘

’’آپ کے ارادے ٹھیک دکھائی نہیں دیتے، لگتا ہے اس کے پیچھے کچھ اور مقاصد بھی ہیں۔‘‘

’’تو اور کیا ۔۔۔ یہ جو نائن الیون کے بعد قتل و خون، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، خودکش دھماکے اچانک پیدا ہوئے تھے یا کسی کی پیداوار تھے۔‘‘

’’تو تمہارا مطلب ہے کہ عراق و شام کی جنگ بھی کسی بڑے گیم کا حصہ تھی۔‘‘

’’دنیا میں ہر ملک کے اپنے اپنے مفادات ہیں لیکن بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے چھوٹے ممالک کو استعمال کرتی ہیں۔ جو ملک ان کے مفادات کے خلاف دکھائی دیتا ہے یہ اسے پتھر کے زمانے میں بھیجنے کی دھمکی دینے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔‘‘

’’گویا مفادات کی جنگ نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔‘‘

’’دنیا تباہ ہوتی ہے تو ہوجائے لیکن ہم اپنے مفادات کا دفاع دنیا کے ہر کونے تک کریں گے۔‘‘

’’پہلے روس اپنے مفادات کا دفاع کرتے کرتے افغانستان تک آیا تھا اور اب امریکہ بہادر آیا ہوا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتی کہ افغانستان میں ایسی کیا چیز کاشت ہوتی ہے؟‘‘

’’آپ انگریزوں کو تو بھول ہی گئے وہ بھی یہاں تشریف لائے تھے لیکن پتھر اٹھا کر چھوڑ گئے کہ یہ پتھر بھاری ہے۔‘‘

’’تو پھر کیا خیال ہے یہ پتھر امریکہ بہادر کب تک اٹھا سکے گا؟‘‘

’’یہ وہ پتھر ہے جو نہ اُگلا جارہا ہے اور نہ ہی نگلا جا رہا ہے۔ واپس جائے گا تو سویت یونین کی طرح روس بن جائے گا اورغرور خاک میں مل جائے گا، لیکن اگر کھڑا رہے گا تو اس کے اخراجات زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکے گا۔ دوسری طرف چین اپنے قدم اس خطے پر مضبوطی سے جمارہا ہے۔ وہ گوادر پورٹ اور راہداری بن جانے کے بعد معاشی طور پر اس قابل ہوجائے گا کہ دنیا میں سپر پاور بن کر ابھرے۔‘‘

’’سنا ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور بھی اس کی مقروض ہوتی جارہی ہے۔‘‘

’’مقروض تو یہاں سب ہیں لیکن فرق صرف یہ ہے کہ کسی نے کشکول اٹھا رکھا ہے تو کسی نے اپنا بینک اکاؤنٹ دے رکھا ہے۔‘‘

’’ملا اختر منصور کے بعد اب ملا ہیبت اﷲ آئے ہیں جنہوں نے کہہ دیا ہے کہ اب مذاکرات نہیں ہوں گے۔‘‘
’’مطلب یہ جنگ جاری رہے گی ۔۔۔ ‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
میرشاہد حسین

میرشاہد حسین

میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے معروف رسالہ سے 1995ء میں کیا۔ بعد ازاں آپ اسی رسالے کے مدیر بھی رہے۔ آپ کو بچوں کے ادب میں بہترین ادیب کا ایوارڈ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرف سے دیا گیا۔ آج کل بچوں کے بڑوں پر بھی اپنے قلم کے جوہر دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔