کیا بورڈ میں واقعی تبدیلی آنے والی ہے

سلیم خالق  اتوار 29 مئ 2016
اب کرکٹ میں اسی وقت اصل تبدیلی آئے گی جب حکومت تبدیل ہوگی۔ فوٹو: فائل

اب کرکٹ میں اسی وقت اصل تبدیلی آئے گی جب حکومت تبدیل ہوگی۔ فوٹو: فائل

بس اب بورڈ تبدیل ہو گیا
شہریارخان جا رہے ہیں
نجم سیٹھی کی چھٹی یقینی ہو گئی

اس قسم کی کئی باتیں گذشتہ کافی عرصے سے سنی جا رہی ہیں، ورلڈٹی ٹوئنٹی میں قومی ٹیم کی بدترین شکست کے بعد ان میں تیزی آ گئی تھی لیکن تبدیلی کی ہوا نہ چل سکی، وہی پرانے چہرے کرکٹ سے کھیلتے رہے، اب نوبت یہ آ چکی کہ ون ڈے رینکنگ میں ٹیم شرمناک نویں اور ٹی ٹوئنٹی میں ساتویں نمبر پر آچکی، ماضی میں میڈیا میں جب خامیوں کی نشاندہی ہوتی تو ارباب اختیار نوٹس لیتے تھے مگر اب ٹی وی پر جو بولنا ہے بولو، اخبار میں جو لکھنا ہے لکھو کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ جس کیخلاف بات کرو وہ دشمن ضرور بن جاتا ہے۔

میڈیا رپورٹس جن لوگوں (عام) پر اثر کرتی ہیں وہ بیچارے اثرورسوخ نہیں رکھتے اور جو طاقتور طبقہ ہے اسے کسی بات کی کوئی فکر نہیں، وہ سینہ تان کر کہتا ہے کہ ’’میں یہیں کھڑا ہوں جو کرنا ہے کر لو‘‘ اسی وجہ سے شاید کرکٹ کا یہ حال ہو گیا، 50 اوورز کے ورلڈکپ میں بدترین ناکامی، بنگلہ دیش میں پہلی بار وائٹ واش، ایشیا کپ اور ورلڈٹی ٹوئنٹی میں ہار کے باوجود کسی کے کان پر جوں نہ رینگی، باپ کی روک ٹوک نہ ہو تو بچہ بھی بے لگام ہو کر آوارہ بن جاتا ہے،ہمارے کرکٹ معاملات بھی اب بگڑ چکے، بورڈ حکام کو پتا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے ہمارا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا اسی وجہ سے انھوں نے بہتری کیلیے کچھ نہیں کیا۔

سب جانتے ہیں کہ اب کرکٹ میں اسی وقت اصل تبدیلی آئے گی جب حکومت تبدیل ہو، مگر اس کے باوجود ان دنوں پھر اس حوالے سے خبریں گرم ہیں، اب ہوگا کیا یہ بھی سن لیں، چیئرمین شہریارخان82 برس کے ہوچکے، اب وہ زیادہ دباؤ جھیل نہیں پاتے، اسی کے ساتھ انھیں شدت سے یہ احساس بھی ہونے لگا ہے کہ وہ بے اختیار چیئرمین ہیں،اس کے باوجود تمام منفی چیزوں کا ذمہ دار انہی کو قرار دیا جاتا ہے، اسی لیے گذشتہ عرصے انھوں نے دو بار مستعفی ہونے کا ارادہ کیا لیکن مناسب وقت کے منتظر ایک اور اعلیٰ آفیشل نے انھیں باز رکھا، اب اسکرپٹ تیار ہے، شہریارخان سالانہ تعطیلات پر لندن جانے والے ہیں، پھر وہ صحت کے مسائل کو وجہ قرار دے کر عہدہ چھوڑ دیں گے۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پھر چیئرمین کون بنے گا تو ایسے بھولے بادشاہوں کو شاید یہ بتانے کی ضرورت پڑے کہ نجم سیٹھی موجود ہیں ناں،کچھ لوگ سوچیں گے کہ انھوں نے تو عدالت میں لکھ کر دیا تھا کہ چیئرمین کے امیدوار نہیں بنیں گے تو یہ بھی وضاحت کر دوں کہ ایسا صرف اسی وقت کیلیے تھا، اب وہ قانونی طور پر آزاد ہیں البتہ دوبارہ عہدہ سنبھالنے پر پھر کچھ لوگ عدالت چلے جائیں توکسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے،نجم سیٹھی نے بلاشبہ پی ایس ایل کا عمدگی سے انعقاد کرایا مگر ورلڈٹی ٹوئنٹی میں ہار کے سبب اس کامیابی سے لطف اندوز نہ ہو سکے، اب اگر وہ دوبارہ چیئرمین بنے تب بھی معاملات آسان نہ رہیں گے۔

ٹیم کو انگلینڈ، ویسٹ انڈیز، نیوزی لینڈاور آسٹریلیا سے سیریز کھیلنا ہیں، شکست پر پھر تنقید کا طوفان برپا ہو جائے گا،اب تک کی اطلاعات کے مطابق نجم سیٹھی کیلیے خصوصی طور پر تخلیق شدہ ایگزیکٹیو کمیٹی کو ختم کیا جا رہا ہے جبکہ آئی سی سی کی کاغذی صدارت سے نوازے جانے والے ظہیر عباس کوگورننگ بورڈ میں جگہ ملے گی، اس وقت تو اپنوں میں ریوڑیاں بانٹنے کا سلسلہ عروج پر ہے، باسط علی کو جونیئر چیف سلیکٹر کی پوسٹ سے ہٹانے سے پہلے ہی اے ٹیم کا کوچ بنا دیا گیا، وجہ ان کا میڈیا میں ناقدانہ رویہ اور خصوصاً عمران خان کو آڑے ہاتھوں لینا بنی، مدثر نذر کو ڈائریکٹر اکیڈمی کے ساتھ کرکٹ کمیٹی کا سربراہ مقرر کیاگیا۔

معین خان پر نجم سیٹھی بہت زیادہ مہربان رہے، مگر کسینیو اسکینڈل کے بعد ذرا احتیاط سے کام لے رہے ہیں، ایسے میں ان کے بھائی ندیم خان کی قسمت چمک اٹھی،انھوں نے شاید2 یا 3 ٹیسٹ ہی کھیلے ہیں، اچانک وہ ایک بڑے ادارے سے وابستہ ہوئے اور پھر سابق عظیم کرکٹرز کو نظرانداز کرتے ہوئے انھیںکرکٹ کمیٹی میں بھی شامل کرلیا گیا، وہ بھی ٹی وی پر خاصے ایکٹیو نظر آتے ہیں،اسی طرح اقبال قاسم اب ریٹائرڈ لائف گذار رہے اور بے ضرر انسان ہیں اس لیے انھیں بھی جگہ مل گئی، یہ کمیٹی کیا کام کرے گی کسی کو نہیں پتا، شکیل شیخ دبنگ قسم کی شخصیت ہیں ان سے بڑے بڑے گھبراتے ہیں اسی لیے ناراض نہ کرتے ہوئے ڈومیسٹک ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دے کر انھیں سربراہی سونپ دی گئی۔

اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ کمیٹی ڈومیسٹک کرکٹ دیکھے گی تو کرکٹ کمیٹی کیلیے کیا بچا؟اسی طرح ڈگریوں کا معاملہ بھی تاحال حل نہیں ہو سکا، چندکو نجم سیٹھی جبکہ بعض دیگر شخصیات کوشہریارخان سپورٹ کرتے ہیں اسی لیے مہلت در مہلت دی جا رہی ہے،ایک اور شرمناک حقیقت یہ ہے کہ بہت پہلے سے بورڈ میں موجود بعض دیگر اعلیٰ آفیشلز کی تعلیمی قابلیت بھی مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتی، غیرضروری بھرتیوں کی بھرمار ہے،18برسقبل ملازمین کی تعداد 20تھی جبکہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب تعداد1200تک پہنچ گئی تھی،بعد میںکچھ ڈاؤن سائزنگ کی گئی۔

موجودہ کلب کرکٹ کوآرڈی نیٹر اظہر زیدی کو ایک سابق پی سی بی چیف کی سفارش پر ملازم رکھا گیا،اس شعبے پر بھی لاکھوں روپے فضول میں پھونکے جارہے ہیں، اب تک کلب کرکٹ کیلیے کیا کیا گیا کسی کو علم نہیں، میڈیا ڈپارٹمنٹ میں بھی کافی مسائل ہیں،لوگ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں، بعض آفیشلز اندر کی باتیں لیک کر کے اپنے ہی ادارے کو نقصان پہنچانے کیلیے مصروف عمل ہیں، غرض یہ کہ اس وقت بورڈ میں مسائل کی بھرمار ہے، نجم سیٹھی کیلیے اس وقت چیئرمین کی پوسٹ کانٹوں کی سیج ثابت ہو گی، اگر وہ اس بار دوستیاں بھلا کر اننگز کھیلیں تب ہی کامیابی ملے گی بصورت دیگر لوگ انھیں منفی باتوں کی وجہ سے ہی یاد رکھیںگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔