بجٹ کیا لارہا ہے؟

ارشاد انصاری  اتوار 29 مئ 2016

اسلام آباد: وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 2016-17 کے وفاقی بجٹ  کا حجم لگ بھگ 4500 ارب روپے رکھے جانے کا امکان ہے، دفاعی بجٹ 860 ارب روپے، پی ایس ڈی پی کا حجم 855 ارب روپے اور ٹیکس وصولیوں کا ہدف 3620 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز ہے۔

علاوہ ازیں ماضی کے دس دس فی صد کے دو ایڈہاک ریلیف، تن خواہوں میں شامل کرکے سرکاری ملازمین کی تن خواہوں میں پانچ سے دس فی صد اضافہ کرنے کا امکان ہے۔ میڈیکل الاؤنس اور کنوینس الاؤنس میں بھی اضافے کی تجویز ہے۔ اطلاعات کے مطابق سگریٹ، سیمنٹ، سریا، موبائل فون سیٹ، سُرخی پاؤڈر، ذائقے دار دودھ اور مشروبات سمیت متعدد اشیاء منہگی کی جارہی ہیں۔ جائداد کی خریدوفروخت پر عائد کیپیٹل گین ٹیکس بھی بڑھا کر دس فی صد کیا جارہا ہے۔ تاہم پانچ سال کے بعد فروخت کیے جانے والے پلاٹس اور مکانات، دکانوں اور دیگر پراپرٹی پر کیپیٹل گین ٹیکس عاید نہیں ہوگا۔ پراپرٹی کی ٹرانسفر پر عاید ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح بھی بڑھائی جارہی ہے۔ نان فائلرز کے لیے پراپرٹی کی ٹرانسفر پر عاید ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح دگنی کی جارہی ہے۔

تین جون کی صُبح وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں بجٹ کی منظوری دی جائے گی۔ بجٹ کے مجوزہ مسودے میں دیے گئے اعدادوشمار کے مطابق آئندہ مالی سال کے لیے دفاعی بجٹ 860 ارب روپے، پی ایس ڈی پی کا حجم 855 ارب روپے ، ٹیکس وصولیوں کا ہدف 3620 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ اگلے بجٹ میں قرضوں پر سود کی ادائی کے لیے 1420 ارب روپے، پنشن کی ادائی کے لیے 245 ارب روپے، وفاقی حکومت کے سروس ڈلیوری کے اخراجات کے لیے 348 ارب روپے، سبسڈیز کے لیے 169ارب روپے، صوبوں کو گرانٹس کی ادائی کے لیے 40 ارب روپے اور دیگر گرانٹس کی مد میں 542 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز زیرغور ہے۔

بجٹ میں ٹیکسوں کی چھوٹ اور رعایات کے ایس آر اوز کی واپسی کے ذریعے 130 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تجویز بھی ہے۔ انتظامی اقدامات و اصلاحات اور ٹیکس بیس کی توسیع کے ذریعے بھی ایک سو ارب روپے سے زیادہ کا اضافی ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف مقرر کرنے کی تجویز زیرغور ہے۔

زیرغور بجٹ دستاویز کے مطابق آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کے لیے مالیاتی خسارے کا ہدف 3.8 فی صد مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ سماجی تحفظ کے پروگرام، نوجوانوں کے لیے اقدامات، کسانوں اور معیشت کے دوسرے شعبوں کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں گے۔ پی ایس ڈی پی کے تحت ترقیاتی بجٹ 14.3فی صد بڑھانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے، جس میں توانائی، قومی سلامتی، ٹی ڈی پیز کی بحالی اور ریلیف کے منصوبے شامل ہیں۔ قومی اقتصادی راہداری کی تعمیر وترقی، ریلویز نیٹ ورک، واٹر سیکٹر اور تخفیف غُربت کو فوکس کیا جائے گا۔

اقتصادی شرح نمو کا ہدف 5.7 فی صد، برآمدات کا ہدف ( 10.8فی صد شرح اضافہ کے ساتھ) 24 ارب 70 کروڑ اور درآمدات کا ہدف 45 ارب20کروڑ ڈالر مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔ یوں تجارتی خسارہ 20 ارب ڈالر تک رہنے کی توقع ہے۔ یہ امکان بھی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 4 ارب 80 کروڑ ڈالر تک ہوگا، جوکہ رواں سال کے ایک ارب 70 کروڑ کے متوقع کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے 0.6 فی صد کم ہے۔ زرعی ترقی کا ہدف 3.48 فی صد مقرر کرنے اور اہم فصلوں کی پیداوار میں اضافے کا ہدف 2.5 فی صد مقرر کرنے کی تجویز ہے۔

لائیو اسٹاک سیکٹر میں نمو کا ہدف 4 فی صد، فشریز سیکٹر کے لیے نمو کا ہدف 3 فی صد اور کپاس کی پیداوار کا ہدف 2.5 فی صد اور صنعتی شعبے میں ترقی کا ہدف 7.69 فی صد رکھنے کی تجویز ہے۔ تعمیرات میں ترقی کا ہدف 13.20 فی صد اور بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کا ہدف 5.90 فی صد مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ بجلی کی پیداوار اور گیس کی ترسیل کا ہدف 12.50فی صد تک لے جانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ سرکاری خدمات کا ہدف 7.0 فی صد جب کہ نجی خدمات کا ہدف 6.70 فی صد مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن شعبے میں ترقی کا ہدف 5.10 فی صد مقرر کرنے کی تجویز ہے۔

انویسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح کا ہدف 18.7فی صد، منہگائی کی شرح کا ہدف 6 فی صد، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کا ہدف 12.7 فی صد، جی ڈی پی کے لحاظ سے قرضوں کی شرح کا ہدف 59.4 فی صد، زرمبادلہ کے ذخائر کا ہدف 23.6 ارب ڈالر مقرر کرنے کی تجویز زیرغور ہے۔ بجٹ خسارے کا ہدف 3.8 فی صد مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ دفاعی بجٹ 860 ارب روپے، قرضوں پر سود کی ادائی کے لیے 1420 ارب روپے، پنشن کی ادائی کے لیے 245 ارب روپے، وفاقی حکومت کے سروس ڈلیوری کے اخراجات کے لیے 348 ارب روپے، سبسڈیز کے لیے 169 ارب روپے، صوبوں کو گرانٹس کی ادائی کے لیے 40 ارب روپے اور دیگر گرانٹس کی مد میں 542 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز زیرغور ہے۔ پی ایس ڈی پی کا حجم 855 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز زیرغور ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 3620 ارب روپے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ ایف بی آر کو یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے ٹیکس وصولیوں میں سترہ فی صد بڑھوتری درکار ہوگی۔ اگلے مالی سال کے دوران کم و بیش ڈیڑھ کھرب روپے کے لگ بھگ نئے ٹیکس عاید کیے جارہے ہیں، جو ٹیکسوں اور ڈیوٹی میں غیر ضروری رعایتیں اور چھوٹوں کے ایس آر اوز واپس لے کر عاید کیے جائیں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ میں پرچون فروشوں کے لیے بھی ٹیکس کا نیا نظام لایا جارہا ہے، اس سے بھی بھاری اضافی ریونیو حاصل ہونے کی توقع ہے، جب کہ وسط مدتی بجٹ ری فریم ورک کے تحت تین سال کے مجوزہ اہداف دیے گئے ہیں، جن کے مطابق مالی سال 2017-18 کے لیے جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 7فے صد، انویسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح کا ہدف 21 فے صد، منہگائی کی شرح کا ہدف 6 فے صد، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کا ہدف 13.2 فے صد، جی ڈی پی کے لحاظ سے قرضوں کی شرح کا ہدف 55.8 فے صد، زرمبادلہ کے ذخائر کا ہدف 25.5 ارب ڈالر مقرر کرنے کی تجویز زیرغور ہے۔

مالی سال2017-18 کے لیے دفاعی بجٹ 946 ارب روپے، قرضوں پر سود کی ادائی کے لیے1465 ارب روپے، پنشن کی ادائی کے لیے 265 ارب روپے، وفاقی حکومت کے سروس ڈلیوری کے اخراجات کے لیے 369 ارب روپے، سبسڈیز کے لیے140 ارب روپے، صوبوں کو گرانٹس کی ادائی کے لیے 40 ارب روپے، دیگر گرانٹس کی مد میں 550 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز زیرغور ہے۔ بجٹ خسارے کا ہدف 3.5 فے صد مقرر کرنے کی تجویز ہے جب کہ مالی سال 2017-18 کے لیے پی ایس ڈی پی کا حجم 950 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز پر بھی غور کیا جائے گا۔

مالی سال 2018-19 کے لیے جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 7.5 فے صد، انویسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح کا ہدف 22.2 فے صد، منہگائی کی شرح کا ہدف 6 فے صد، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کا ہدف13.7 فے صد، جی ڈی پی کے لحاظ سے قرضوں کی شرح کا ہدف 55 فے صد، زرمبادلہ کے ذخائر کا ہدف 30 ارب ڈالر مقرر کرنے کی تجویز زیرغور ہے۔ بجٹ خسارے کا ہدف 3.8 فی صدمقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ مالی سال2018-19 کے لیے دفاعی بجٹ 1041ارب روپے، قرضوں پر سود کی ادائی کے لیے 1564 ارب روپے، پنشن کی ادائی کے لیے 286ارب روپے، وفاقی حکومت کے سروس ڈلیوری کے اخراجات کے لیے 391 ارب روپے، سبسڈیز کے لیے100 ارب روپے، صوبوں کو گرانٹس کی ادائی کے لیے 40 ارب روپے، دیگر گرانٹس کی مد میں 560 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

مالی سال 2018-19 کے لیے پی ایس ڈی پی کا حجم 1080 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ اس کے علاوہ مالی سال 2016-17 کے وفاقی بجٹ میں پینٹس، وارنش، انجن آئل، گیر آئل سمیت دیگر لُبریکنٹس، ایئر کنڈیشنرز، نیل پالش، سُرخی، پاؤڈر، کریم سمیت دیگر تمام کاسمیٹکس پر16 فے صد فیڈرل ایکسائزڈیوٹی عاید کیے جانے کا امکان ہے۔ بیوریجز انڈسٹری پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح ساڑھے دس فے صد سے ساڑھے گیارہ تا ساڑھے بارہ فے صد تک کیے جانے کا امکان ہے۔

انکم ٹیکس آرڈیننس میں تاجروں کے لیے نائنتھ شیڈول متعارف کروانے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے، جب کہ تاجروں پر فکس ٹیکس کی رقم کو شرح میں بدل کر ٹیکس عاید کیا جائے گا۔ البتہ اگلے بجٹ میں نان فائلرز کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ زرعی اشیاء کی درآمدات پر کسٹمز ڈیوٹی کی شرح بڑھانے، اشیائے تعیش پر پچیس فی صد کسٹمز ڈیوٹی اورمقامی سطح پر تیار نہ ہونے والے خام مال کی درآمد پر کم ازکم پانچ فی صد جب کہ مقامی سطع پر د س فے صد کسٹمز ڈیوٹی جب کہ کسٹمز ڈیوٹی سے مُستثنٰی سفارت کاروں اور دیگر وی آئی پیز پر ایک فیصد سروس چارجز اور فیس عاید کیے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق ہمہ اقسام لکڑی کی درآمد پر عاید کسٹمز ڈیوٹی کی شرح میں اضافے کا امکان ہے۔ اسٹیل سیکٹر اور شپ بریکنگ انڈسٹری کے لیے سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کے موجودہ اسٹرکچر پر نظرثانی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

آئی ٹی سافٹ ویئرز سمیت انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلقہ دیگر سروسز کی برآمدات پر ٹیکس چھوٹ کی میعاد میں مزید پانچ سال تک توسیع کی توقع ہے۔ فائلر اور نان فائلرز تن خواہ دار ملازمین کے لیے ٹیکس کی الگ الگ شرح متعارف کروانے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم حتمی فیصلہ فنانس بل فائنل کرتے وقت کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والے ملازمین پر ٹیکس کی شرح ڈبل کرنے کی تجویز ہے۔ سیمنٹ پر عائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح بڑھاکر دس فے صد کیے جانے کا امکان ہے۔ توقع ہے کہ فی ہزار سگریٹ پر دو ہزار روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عاید کی جائے گی۔ اس کے علاوہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں اسٹیشنری پر بھی ٹیکس عاید کیے جانے کا امکان ہے۔

گریڈ پندرہ تک کے ملازمین کا میڈیکل الاؤنس میں پنچ سو روپے اضافے کی نوید ہے جب کہ گریڈ سولہ تا 22 کے ملازمین کو بھی بنیادی تن خواہ کے25 فے صد کی بجائے فکس میڈیکل الاؤنس دینے کی تجویز ہے۔ گریڈ ایک تا چار کے ملازمین کا کنویننس الاؤنس 1785سے بڑھا کر 1885 روپے اور گریڈ پانچ سے دس کے ملازمین کا 1932 روپے سے بڑھا کر2000 ، گریڈ گیارہ تا پندرہ کے ملازمین کا 2856 روپے سے بڑھاکر 3000 روپے کرنے کی تجویز ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ گریڈ سولہ تا اُنیس کے ملازمین کے لیے مونیٹائزیشن کی تجویز دی گئی ہے۔ البتہ ان تمام اعداد وشمار کی بجٹ کے روز ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں حتمی منظوری دی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔