درندہ صفت انسان نے چارسالہ بچی ہوس کی بھینٹ چڑھا دی

ڈاکٹر شہزاد اکرم  اتوار 29 مئ 2016
ملزم پولیس مقابلہ میں پار، پہلے بھی تین بچیوں کو نشانہ بنا چکا ہوں، مرنے سے قبل اعتراف۔ فوٹو: فائل

ملزم پولیس مقابلہ میں پار، پہلے بھی تین بچیوں کو نشانہ بنا چکا ہوں، مرنے سے قبل اعتراف۔ فوٹو: فائل

گوجرانوالہ:  گوجرانوالہ میں چار سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والا ملزم پولیس مقابلہ میں مارا گیا

یہ گزشتہ سے پیوستہ مارچ کی ایک رات تھی، چار سالہ زینب اپنے نانا کے گھر کھیالی آئی ہوئی تھی اور اپنی والدہ کے ساتھ رات کو کھانا کھا کر صحن میں سوئی مگر صبح ہوتے ہی والدہ نے دیکھا کہ زینب بستر پر موجود نہیں تھی، باہر کا دروازہ بند تھا، کمروں میں دیکھا مگر بچی نہ ملی، سب پریشان ہوگئے کہ اتنی چھوٹی بچی کہاں چلی گئی، دیوار تو وہ پھلانگ نہیں سکتی ہے۔ پھر زینب کی تلاش گھر کے باہر شروع کر دی گئی، رات سے گم ہوئی بچی کی تلاش گھر ہی کے قریب کھیتوں میں نعش ملنے پر اختتام پذیر ہوئی۔ بچی کے جسم پر تشدد کے نشان اور سر پر چوٹ تھی۔

ماں اپنی بیٹی کی نعش دیکھ کر حواس باختہ ہوگئی، فوری پولیس کو بلایا گیا، ایس ایچ او کھیالی نے جائے وقوعہ کو دیکھ کر افسران کو اطلاع کر دی۔ کیس کی حساسیت کو جانتے ہوئے کیس سی آئی اے کو دے دیا گیا، جس میں ایس پی طاہر مقصود چھینہ اور ڈی ایس پی عمران عباس چدھٹر کو ذمہ داری دی گئی۔ بچی کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا، جس میں پتا چلاکہ چار سالہ زینب کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ہے۔ پولیس کے لیے بہت سے سوال اٹھ رہے تھے کہ کس نے ایسا کیا ہے؟ بچی گھر سے رات کو غائب ہوئی اور گھر والوں کو پتا بھی نہ چلا۔ پہلے تو یہ کوئی گھریلو جھگڑا محسوس ہوا بعدازاں تفتیش میں بات سامنے آئی کہ گھر میں ایسی کوئی بات ہی نہ تھی۔

ڈی ایس پی عمران عباس چدھڑ نے ٹیم کے ساتھ کھوج شروع کرتے ہوئے گھر کے آس پاس سرچ آپریشن شروع کر دیا، اس رات تمام فونز کے ریکارڈ لیے گئے جو کہ اس ایریا میں چل رہے تھے، لیکن سینکڑوں نمبروں میں سے ملزم کو تلاش کرنا اتنا آسان نہ تھا۔ میڈیا پر خبریں نشرہونے پر پریشر بڑھ رہا تھا کہ اچانک ڈی ایس پی عمران عباس نے گھروں کے پاس ہی ایک مشروب کمپنی میں رات کی شفٹ میں کام کرنے والوں کی لسٹ حاصل کی اور ان کے ایک ایک کر کے نمبر سے تفصیلات لیں، جس میں ایک نمبر ایسا تھا کہ بند تھا، اس بارے میں مزید تفصیلات حاصل کی گئیں، تو یہ نمبر قمر سہیل نامی شخص کا نکلا، جو سمبڑیال سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا والد بھی اسی فیکٹری میں کام کرتا ہے۔ پولیس کو ایک سراغ ملا کہ قمر سہیل وقوعہ کی صبح ہی طبیعت ناساز ہونے کا کہہ کر چھٹی لے کر گیا تھا۔

پولیس نے شبہ پر قمر سہیل پر کام شروع کردیا اور اس کے والد سے سمبٹریال کا پتا جان کر قمر سہیل کو حراست میں لے لیا۔ ڈی ایس پی عمران عباس چدھٹر نے تفتیش شروع کی تو ملزم نے جلد ہی اعتراف جرم کرتے ہوئے بتایا کہ اسی نے بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیا تھا اور وہ پہلے بھی تین بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا چکا ہے، مگر وہ بچ گئیں تھیں۔

ملزم نے انکشاف کیا کہ وہ رات کی شفٹ سے فارغ ہوکر گھروں میں چوری کرتا اور جس گھر کی دیوار کم اونچی ہوتی اس گھر میں داخل ہو کر قیمتی اشیاء چوری کرتا اور اگر گھر میں کوئی تین سے پانچ سال تک کی بچی ہوتی اسے نیند میں اٹھا کر لے جاتا اور زیادتی کر ڈالتا تھا۔ اس رات بھی عبدالحمید کے گھر میں زیورات،موبائل چوری کرنے کے بعد چار سالہ زینب کو اٹھایا اور اپنی کمرپر باندھ کر دیوار پھلانگ کر باہر لے گیا، اسی دوران بچی کو چوٹ لگی اور وہ زور زور سے رونے لگی۔ ملزم نے بتایا کہ وہ فوری بچی کو کھیتوں کی طرف لے گیا اور زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا، اسی دوران بچی کی موت ہوگئی اور وہ نعش کو پھینک کر فرار ہوگیا۔

بچی کے تایا انور نے ملزم کی گرفتاری پر کہا کہ ایسے جلاد کو مار دینا چاہیے جو پہلے بھی بچیوں کو ہوس کا نشانہ بناتا آیا ہے، اگر رہا ہو گیا تو بعد میں بھی ایسے ہی کام کرے گا، تاہم پولیس نے ایف آئی آرنامزد کی اور ملزم سے چوری کیے گئے زیورات و موبائل بر آمد کرانے کے لیے شادمان ٹاؤن کی طرف لے گئے، جہاں پر ڈی ایس پی عمران عباس چدھڑ نے بتایا کہ دو موٹر سائیکل سوار ملزمان نے درندہ صفت قمر سہیل کو چھڑوانے کے لئے پولیس پارٹی پر فائرنگ کر دی، پولیس نے جوابی فائرنگ شروع کردی تو ملزمان فرار ہوگئے، لیکن جب قمر سہیل کو دیکھا تو اس کو گولی لگ چکی تھی اور وہ مارا جا چکا تھا۔

ملزم کی ہلاکت کی خبر سن کر اہل علاقہ نے ریلی کی صورت میں پولیس زندہ باد کے نعرے لگائے۔ ایس پی سی آئی اے طاہر مقصود چھینہ اور ڈی ایس پی عمران عباس چدھڑنے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم نشہ کا عادی نہیں تھا، مگر اچھا روزگار ہونے کے باوجود بھی چھوٹی بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے اور چوری کا عادی مجرم تھا۔ اس نے قبول کیا تھا کہ وہ تین چھوٹی بچیوں کو پہلے بھی زیادتی کا نشانہ بنا چکا ہے، مگر پکڑا نہ گیا۔ ایس پی طاہر مقصود چھینہ نے مزید کہا کہ بچی تو واپس نہیں آسکتی، مگر اب حالات ایسا رخ اختیار کر چکے ہیں کہ ہر شہری کو ملک ،شہر اور گھر کی حفاظت کے لیے خود ہی قدم اٹھانا پڑے گا تا کہ دوبارہ کوئی ایسے گھناؤنے فعل کا مرتکب نہ ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔