عالمی سطح پر روئی کی قیمتں بلند جب کہ مقامی نرخ برقرار

احتشام مفتی  پير 30 مئ 2016
مذکورہ سال کے دوران پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں 45 فیصد جبکہ سندھ میں صرف 5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے فوٹو: فائل

مذکورہ سال کے دوران پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں 45 فیصد جبکہ سندھ میں صرف 5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے فوٹو: فائل

 کراچی: امریکی کپاس کی برآمدی سرگرمیاں بڑھنے اورکپاس کی پیداوار کے حامل سرفہرست ملک بھارت میں رواں سال پیداوار میں غیر معمولی کمی اورآئندہ سال کپاس کی کاشت میں 15 سے 20 فیصد کمی سے متعلق جاری ہونے والی رپورٹس گزشتہ ہفتے بین الاقوامی کاٹن مارکیٹس کی سرگرمیوں پراثرانداز رہیں اورروئی کی قیمت میں تیزی کا رجحان دیکھا گیا جبکہ پاکستانی کاٹن مارکیٹس میں آئندہ ماہ نئے وفاقی بجٹ اعلان کے باعث کاروباری سرگرمیاں محدود رہیں اورملے جلے رحجان کا تاثر قائم رہا۔

چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق بھارت میں رواں سال کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار پہلے تخمینوں 3کروڑ 82 لاکھ بیلز کے مقابلے میں 3کروڑ 40 لاکھ بیلز ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق یہ پیداوار 3 کروڑ 20 لاکھ تک بھی گر سکتی ہے جس کی بڑی وجہ رواں سال بھارت کے کپاس پیدا کرنے والے بڑے علاقوں میں کپاس کی فصل پر وائرس اور سفید مکھی کا شدید حملہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بھارت میں رواں سال کپاس کے کاشتکاروں کو غیر معمولی نقصان پہنچنے کے باعث بھارت میں رواں سال کپاس کی کاشت میں 15 سے 20 فیصد کمی کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں اور ایسا ہونے کی صورت میں بھارت کا دنیا میں کپاس پیدا کرنے والے سب سے بڑے ملک کا اسٹیٹس بھی کھو سکتا ہے اور چین ایک بار پھر دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ڈکلیئر کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران نیویارک کاٹن ایکسچینج میں حاضر ڈلیوری روئی کے سودے ریکارڈ 3.60 سینٹ فی پاؤنڈ اضافے کے ساتھ 72.95 ڈالر فی پاؤنڈ جبکہ جولائی ڈلیوری روئی کے سودے 2.61 سینٹ فی پاؤنڈ اضافے کے ساتھ 64.28 سینٹ فی پاؤنڈ تک پہنچ گئے جبکہ بھارت میں روئی کے سودے 753 روپے فی کینڈی اضافے کے ساتھ 35 ہزار 953 روپے فی کینڈی تک جبکہ چین میں روئی کی قیمتیں 247 یو آن فی ٹن اضافے کے ساتھ 12 ہزار 890 یو آن فی ٹن تک پہنچ گئی ہیں جبکہ پاکستان میں اوپن مارکیٹ میں روئی کے نرخ بغیر کسی تبدیلی کے 5 ہزار 900 روپے فی من اور کراچی کاٹن ایسوسی ایشن میں روئی کے اسپاٹ ریٹ بھی بغیر کسی تبدیلی کے 5 ہزار 550 روپے فی من تک مستحکم رہے ۔

احسان الحق نے بتایا ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کی جانب سے کاٹن ایئر 2015-16 کے دوران کپاس کی پیداوار میں غیر معمولی کمی کی وجوہات جاننے کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کی رپورٹ جانبدار اور حقائق کے منافی ہے کیونکہ مذکورہ سال کے دوران پاکستان بھر میں نہیں بلکہ صرف پنجاب میں غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی تھی جبکہ مذکورہ رپورٹ میں بیان کی گئی وجوہات میں غیر معیاری بیج مختلف بیماریوں، جڑی بیوٹیوں اور پانی کی کمی کو کپاس کی پیداوار میں کمی بارے بڑے فیکٹرز بتایا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مذکورہ سال کے دوران پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں 45 فیصد جبکہ سندھ میں صرف 5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ کاٹن ایئر 2014-15 میں ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ پیداوار 1کروڑ 48 لاکھ 71 ہزار بیلز پیدا ہوئی تھی جبکہ ایک غیر ملکی ماہر نیل فاسٹر کی سربراہی میں قائم ہونے والی کمیٹی کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ تمام فیکٹرز 2014-15 میں بھی موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب کے کاشتکاروں کو چاہیے کہ وہ کپاس کی کاشت فروری مارچ کے بجائے مارچ اپریل میں کرے تاکہ کپاس کی فصل کو نامناسب موسمی اثرات سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وزارت تجارت نے واہگہ بارڈر لاہور پر زمینی راستے سے 27 مئی تک پہنچنے والی روئی کی تمام بیلز کو کلیئر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے ٹیکسٹائل ملز مالکان میں اطمینان کی لہر پائی جا رہی ہے۔

یاد رہے کہ وزارت تجارت نے واہگہ بارڈر پر تقریباً 50 ہزار روئی کی بیلز کو پاکستان داخل ہونے سے روک دیا تھا کیونکہ یہ زمینی راستے سے پاکستان میں آنے والی روئی کی زیادہ سے زیادہ حد 5 لاکھ بیلز کے بعد واہگہ بارڈر لاہور پہنچی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال کی طرح رواں سال بھی کپاس کی فصل پر گلابی سنڈی کے شدید حملے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

اس لیے کاشتکاروں کو چاہیے کہ وہ محکمہ زراعت کے ماہرین کی جانب سے گلابی سنڈی کے خاتمے کے سلسلے میں دی جانے والی ان تمام ہدایات پر سختی سے عمل کریں تاکہ کپاس کی فصل کو گلابی سنڈی سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر نے وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار سے اپیل کی ہے کہ نئے وفاقی بجٹ میں ٹیکسٹائل سیکٹر کا ’’زیرو ریٹڈ‘‘ اسٹیٹس یکم جولائی 2016 کے بجائے یکم جنوری 2016 سے لاگو کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔