آسٹریلوی قصبے پر چمگادڑوں کا قبضہ؛  مکین گھروں میں محصور

عبدالریحان  منگل 31 مئ 2016
بیٹ مینز بے پر ہلہ بولنے والی چمگادڑوں کی نسل معدومیت کے خطرے سے دو چار حیوانات کی فہرست میں شامل ہے :فوٹو : فائل

بیٹ مینز بے پر ہلہ بولنے والی چمگادڑوں کی نسل معدومیت کے خطرے سے دو چار حیوانات کی فہرست میں شامل ہے :فوٹو : فائل

(بیٹمینس بے) آسٹریلوی ریاست نیو ساؤتھ ویلز میں واقع ہے۔  قصبے پر ان دنوں دہشت  کا راج ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہاں داعش کے انتہا پسندوں نے کوئی دہشت گردانہ کارروائی کی ہے یا پھر یہاں طویل عرصے سے روپوش القاعدہ یا داعش کا کوئی اہم رہنما پکڑا گیا ہے۔ ایسی کوئی وجہ نہ ہونے کے باوجود بیٹ مینز بے کے باشندے گھروں میں محصور رہنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ کیا آپ بوچھ سکتے ہیں لوگوں کے دہشت زدہ ہوجانے کا سبب پھر کیا ہے؟ جی نہیں۔۔۔۔ آپ غلط سمجھے وہاں زیکا وائرس جیسی کوئی وبا بھی نہیں پھیلی۔ در اصل بیٹ مینز بے پر چمگادڑوں نے ہلہ بول دیا ہے! قصبے کے درختوں ، بجلی کے تاروں، گھروں کے دروازوں، کھڑکیوں، باغیچوں میں ۔۔۔۔غرض ہر طرف چمگادڑیں لٹکی ہوئی نظر آتی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق چمگادڑوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، تب ہی ان سے پورا قصبہ ڈھکا نظر آرہاہے۔ ذرا تصور کیجیے اگرگھر کے کمروں کے باہر ہر طرف چمگادڑیں شور مچاتی ہوئی اڑتی پھر رہی ہوں تو آپ کی کیا حالت ہوگی؟ یقینا آپ اپنے کمرے سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں کریں گے۔ بیٹ مینز بے کے متعدد مکین بھی اپنے گھروں میں قیدی بن کر رہ گئے ہیں کیوں کہ دروازے، کھڑکیاں کھولتے ہی چمگادڑوں کا غول اندر گھس آتا ہے۔

ڈینیل اسمتھ اسی قصبے کا رہائشی نوجوان ہے۔ اس نے مقامی روزنامے کے دفتر میں فون کرکے صورت حال بیان کرتے ہوئے کہا ’’یہاں ہر طرف چمگادڑیں ہیں۔ نہ تو میں کمرے کی کھڑکیاں کھول سکتا ہوں اور نہ ہی کسی کام سے باہر نکل سکتا ہوں۔ پڑھائی کرنا بھی ممکن نہیں رہا کیوں کہ چمگادڑوں کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ ایسے میں پڑھائی کیسے ہوسکتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ان ممالیہ نے قصبے کو یرغمال بنالیا ہے۔‘‘

بیٹ مینز بے میں چمگادڑیں پہلے بھی حملہ آور ہوتی رہی ہیں مگر ان کی تعداد محدود ہوتی تھی جس سے قصبے کے باشندوں کے معمولات متاثر نہیں ہوتے تھے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ چمگادڑیں اتنی کثیر تعداد میں قصبے پر حملہ آور ہوئیں ہیں۔ بیٹ مینز بے کے اطراف چمگادڑوں کی آبادی موجود ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں ان کی دیکھ بھال اور ان سے متعلق تمام معاملات سنبھالنے کے لیے باقاعدہ ٹاسک فورس موجود ہے۔ فلائنگ فاکس ٹاسک فورس کے اہل کار رسل شینڈر کے مطابق چمگادڑیں ناقابل یقین تعداد میں قصبے میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں اور انھوں نے لوگوں کو گھروں میں قید ہوجانے پر مجبور کردیا ہے۔

بیٹ مینز بے پر ہلہ بولنے والی چمگادڑوں کی نسل معدومیت کے خطرے سے دو چار حیوانات کی فہرست میں شامل ہے لہٰذا ٹاسک فورس کے اہل کار انھیں ہلاک بھی نہیں کرسکتے۔ وہ انھیں دھویں اور شور وغل کے ذریعے بھگانے کے طریقوں پر غور کررہے ہیں۔ ایک اور طریقہ جس پر عمل در آمد بھی شروع کردیاگیا ہے وہ درختوں کی کٹائی ہے جن کی شاخیں الٹی لٹکی ہوئی چمگادڑوں سے بھری ہوئی ہیں۔ حکام کا خیال ہے کہ درخت کٹ جانے کے بعد چمگادڑیں بھاگنے پر مجبور ہوجائیں گی۔

دوسری جانب تحفظ حیوانات کے لیے کام کرنے والے ادارے زور دے رہے ہیں کہ چمگادڑوں سے نجات پانے کے معاملے میں صبر و تحمل سے کام لیا جائے اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جو ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔