آئی پی ایل کو ’’کرپشن سے پاک‘‘ کا سرٹیفکیٹ مل گیا

اے ایف پی  منگل 31 مئ 2016
 اس مرتبہ کوئی فکسنگ نہیں ہوئی،آئی سی سی یونٹ کی خدمات حاصل کیں، شکلا  فوٹو: فائل

اس مرتبہ کوئی فکسنگ نہیں ہوئی،آئی سی سی یونٹ کی خدمات حاصل کیں، شکلا فوٹو: فائل

بنگلور: آئی پی ایل کے حالیہ ایڈیشن کو ختم ہوتے ہی ’’کرپشن سے پاک‘‘ کا سرٹیفکیٹ مل گیا، لیگ چیئرمین راجیو شکلا کہتے ہیں کہ اس مرتبہ ایونٹ میں کوئی فکسنگ وغیرہ نہیں ہوئی، آئی سی سی یونٹ، مقامی پولیس اور بورڈ ماہرین کی وجہ سے ٹورنامنٹ بغیر کسی تنازع کے مکمل ہوا، میچزکی ملک سے باہر منتقلی کی باتیں فرسٹریشن کے سبب سامنے آئیں۔

تفصیلات کے مطابق انڈین پریمیئر لیگ کا اتوار کو سن رائزرز حیدرآباد کی فتح کے ساتھ اختتام ہوا،اس کے ساتھی ہی منتظمین کی جانب سے ٹورنامنٹ کو کرپشن فری ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کردیا گیا۔ 2008 میں شروع ہونے والی انڈین پریمیئر لیگ ابتدا سے ہی کرپشن الزامات کی زد میں رہی، 2013 میں یہ بات ثابت بھی ہوگئی جب فکسنگ اسکینڈل منظر عام پر آیا، اس وجہ سے بھارتی بولر شری شانتھ سمیت کئی کرکٹرز نہ صرف تہاڑ جیل میں رہے بلکہ ان پر عمر بھر کیلیے کھیل کے دروازے بھی بند کردیے گئے۔ حالیہ نویں ایڈیشن میں 57 روز کے دوران 11 وینیوز پر 60 میچز منعقد ہوئے۔ چیئرمین راجیو شکلا نے کہاکہ اس مرتبہ ایونٹ کو کرپشن فری بنانے کیلیے ہم نے سخت اقدامات کیے اور اس میں کامیاب بھی رہے، ہم نے نہ صرف آئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ کی خدمات حاصل کیں بلکہ اپنے یونٹ پر بھی انحصار کیا جس کی سربراہی نیرج کمار کررہے ہیں۔

اس کے ساتھ ہم نے ممبئی پولیس سے بھی درخواست کی تھی کہ وہ بھی ضرورت پڑنے پر ہماری مدد کے لیے تیار رہے۔ یاد رہے کہ بی سی سی آئی کی جانب سے آئی پی ایل کے ابتدائی ایڈیشنز میں آئی سی سی اینٹی کرپشن یونٹ کی خدمات حاصل نہیں کی گئی تھیں۔ نیرج کمار دہلی پولیس کے سابق کمشنر اور سی بی آئی کے جوائنٹ ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔

انھوں نے ہی 2000 کے مشہور فکسنگ کیس کی تحقیقات کی تھیں جس میں جنوبی افریقہ کے آنجہانی کپتان ہنسی کرونیے ملوث تھے، اسی طرح 2013 کے آئی پی ایل فکسنگ اسکینڈل کی تحقیقات بھی انھوں نے ہی کی تھیں، اب وہ بی سی سی آئی کے اینٹی کرپشن یونٹ کے انچارج ہیں۔ ایونٹ کی ملک سے باہر منتقلی کے بارے میں شکلا نے کہاکہ جب آخری منٹ پر ہمیں خشک سالی کی بنیاد پر وینیوز تبدیل کرنے کاحکم دیا گیا تو فرسٹریشن میں اس طرح کی باتیں سامنے آئیں کیونکہ کوئی بھی اس اقدام سے خوش نہیں تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔