بھارت کی اقتصادی پیش رفت اور پاکستان

ایڈیٹوریل  پير 6 جون 2016
سیاسی مفادات اپنی جگہ مگر حکومت اور اپوزیشن کو ملکی مفادات کو کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ فوٹو:فائل

سیاسی مفادات اپنی جگہ مگر حکومت اور اپوزیشن کو ملکی مفادات کو کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ فوٹو:فائل

وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے اتوار کو ایک انٹرویو میں بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کے اس بیان کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی کھڑکی بند کر دی گئی ہے، پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ بھارت نے مذاکرات کے لیے کوئی کھڑکی کھولی اور نہ پاکستان ہی کو مذاکرات کے لیے کوئی بے چینی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہمیں کسی بھی صورت بھارت کے دباؤ میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن خطے میں امن اور دونوں ممالک کے قریب آنے کے لیے مذاکرات کا عمل شروع ہونا چاہیے، پاکستان کشمیریوں کی تحریک آزادی کو مکمل سپورٹ کرتا ہے اور کشمیری بھی وہاں پاکستان کے پرچم لہرا رہے ہیں اور پاکستان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سمیت ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے آواز بلند کرے گا۔

ہفتے کو بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے شوشہ چھوڑا تھا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے ساتھ خیرسگالی اور مذاکرات کے لیے کھڑکی کھولی تھی تاہم ہمسایہ ممالک کی جانب سے دہشت گردی سے نمٹنے میں مخلصانہ پن کے بارے میں شکوک وشبہات کے باعث اب یہ کھڑکی بند کر دی گئی ہے۔ خطے کے تصفیہ طلب مسائل کو حل کرنے کے بارے میں پاک بھارت دونوں حکومتوں کے رویوں کا جائزہ لیا جائے تو جو منظرنامہ ابھرتا ہے اس کے مطابق بھارتی رویہ پاکستان کے ساتھ مسلسل جارحانہ اور متعصبانہ چلا آ رہا ہے جب کہ اس کے برعکس پاکستان بھارتی رویے سے صرف نظر کرتے ہوئے مسلسل اسے مذاکرات کی دعوت دے رہا ہے۔

اب پھر بھارت کی جانب سے مذاکرات کے تمام راستے اور کھڑکیاں بند کرنے کے بیانات دینے کے باوجود پاکستان کا رویہ قطعی مثبت ہے اور وہ اب بھی بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات کے لیے آمادہ ہے۔ یہ حیرت انگیز امر ہے کہ جب بھی بھارت کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا جاتا ہے، کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے جس سے مذاکرات کا عمل پس منظر میں چلا جاتا اور پاکستان کے خلاف بھارتی رویہ مزید جارحانہ ہو جاتا ہے۔ مودی سرکار کے ساتھ مذاکرات کے لیے بات چیت کا سلسلہ چلا تو بھارت نے نئی دہلی میں کشمیری رہنماؤں کی پاکستانی ہائی کمشنر سے ملاقات کا بہانہ بنا کر ان مذاکرات کو شروع کرنے سے انکار کر دیا۔

بعدازاں پٹھان کوٹ کے واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا جس کے بعد بھارت مذاکرات کی میز پر آنے سے انکاری ہو گیا، اس کے بعد سے اب تک وہ مذاکرات سے مسلسل فرار کے کوئی نہ کوئی بہانے تراش رہا ہے۔ اب بھارت نے یہ مؤقف اپنا لیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے عمل میں صرف دہشت گردی کے ایشو کو موضوع بنایا جائے اور مسئلہ کشمیر کو ایجنڈے سے نکال دیا جائے۔

پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات پر کھل کر بات چیت کی جائے۔ دوسری جانب بھارت خطے کی ایک بڑی معاشی اور عسکری قوت کے طور پر ابھر رہا ہے اور جس تیزی سے وہ خطے کے دیگر ممالک سے اپنے معاشی تعلقات مضبوط کر رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے تجزیہ نگار یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آیندہ چند عشروں میں بھارت اس خطے میں چین کے بعد ایک بہت بڑی معاشی اور عسکری قوت بن جائے گا جس کا مقابلہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے کرنا مشکل امر ہو گا۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہفتے کو قطر پہنچے جہاں دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا، مودی اور امیر قطر نے کل سات معاہدوں پر دستخط کیے، نریندر مودی نے قطری تاجروں کو بھارت میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ اس سے قبل مودی افغانستان پہنچے تھے جہاں انھوں نے دوستی ڈیم کا افتتاح کیا تھا۔ بھارت ایران میں چاہ بہار کی بندرگاہ تعمیر کر رہا ہے، اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کے خطے کے تمام ممالک کے ساتھ تجارتی اور معاشی تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جا رہے ہیں جب کہ اس کے برعکس پاکستان کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات پیچیدگی کا شکار ہیں، ایران اور افغانستان کے ساتھ معاملات درست نہیں، جس کا نقصان اقتصادی اور معاشی شعبے کو بھی پہنچ رہا ہے۔

ہمسایہ ممالک کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارتی تعلقات نہ ہونے کے باعث پاکستان کی معیشت استحکام کی وہ منزل حاصل نہیں کر سکی جو ہونی چاہیے تھی، وہ داخلی اور خارجی سطح پر مختلف مسائل میں الجھتا چلا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خوف اور امن وامان کی بگڑتی صورت حال سے جنم لینے والی غیریقینی کیفیت کے باعث ملکی اور غیرملکی سرمایہ کار اسے اپنے لیے محفوظ جگہ تصور نہیں کرتے۔ دوسری طرف پانامہ لیکس کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی ہل چل نے ملک کو نئے انتشار اور افراتفری میں مبتلا کر دیا۔ اپوزیشن کے رویے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا قطعی مشکل نہیں کہ موجودہ حکومت کا مزید عرصہ اپوزیشن کی طرف سے پیدا کردہ مشکل حالات میں گزرے گا۔ سیاسی مفادات اپنی جگہ مگر حکومت اور اپوزیشن کو ملکی مفادات کو کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔