قوم کو تعلیم نہیں شادی ہال چاہئیں؟

 ہفتہ 25 جون 2016
آج اگرمیں اٹھارہ برس کا لڑکا ہوتا جو جامعہ پنجاب میں داخلے کے لیے آتا اور جامعہ کو اس قسم کے کاروبار کرتے دیکھتا، تو شاید واپس لوٹ جاتا۔:فوٹو : فائل

آج اگرمیں اٹھارہ برس کا لڑکا ہوتا جو جامعہ پنجاب میں داخلے کے لیے آتا اور جامعہ کو اس قسم کے کاروبار کرتے دیکھتا، تو شاید واپس لوٹ جاتا۔:فوٹو : فائل

 گزشتہ دنوں لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ یوں تو کچھ عرصے بعد لاہور کا چکر لگتا رہتا ہے، لیکن اس بار پنجاب یونیورسٹی جانا تھا۔ میں جامعہ پنجاب کا طالبعلم تو کبھی نہیں رہا لیکن لاہور کے اندر بسے اس تعلیمی شہر سے ہمیشہ عقیدت رہی ہے۔ درمیان سے بہتی نہر کے ایک طرف جامعہ کے شعبہ جات ہیں۔ دوسرے کنارے کے ساتھ ساتھ ہاسٹلوںکی ایک قطار ہے۔ ان سے پرے کھیلوں کے میدان بنے ہوئے ہیں۔

اس بار دیکھا کہ ان میدانوں کے سرے پر تعمیر کا کام ہو رہا ہے۔ پہلی نگاہ میں یہ سمجھا کہ جامعہ کی طرف سے کوئی سپورٹس کمپلیکس زیر تعمیر ہے۔ لیکن جب ان پر شادی ہال کے جگمگاتے بورڈ دیکھے تو مجھے دکھ اور کرب کا سامنا کرنا پڑا۔سوچا، اب جامعہ اپنی آمدن بڑھانے کے لیے شادی ہال چلائے گی؟ ایک طرف طلبہ کو تعلیم دے گی اور دوسری طرف کاروبار چمکایا جائے گا۔ بلاشبہ لاہور جیسے شہر میں بڑا شادی ہال بنانا منافع بخش کاروبار ہے۔ لیکن کیا اب پنجاب حکومت اس قدر تنگدست ہوچکی کہ جامعہ کو اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے کاروبار چلانے پڑیں گے؟ غیر سرکاری تعلیمی اداروں نے تو پہلے ہی تعلیم کو کاروبار بنا کر دیوالیہ نکال دیا ہے۔ ان کے لیے طالب علم ایک صارف ہے اور استاد کاروبار بڑھانے والا سیلز مین!

لاہور کی اکھڑی سڑکیں اور نئے نئے نقشے یقینی طور پر ظاہری ترقی کی علامت ہیں۔ لیکن اس قوم کو کُھلی سڑکیں ، بڑی بڑی کاروں اور ظاہری چمک دمک کی ضرورت ہے یا تعلیم اور شعور کی؟ کسی علمی مقام تک پہنچے اور شعور کی بنیادی منازل طے کیے بغیر ایسی ترقی کا خواب ذہنی عیاشی کے علاوہ کچھ نہیں۔پاکستان میں اب بھی ایسی علم گاہوں کی شدید کمی ہے جو قوم کی ذہنی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ جن کی مدد سے نوجوان طبقہ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لا کر اپنے لیے نئے آسمان پیدا کر ے۔ سڑکوں اورظاہری شان و شوکت پر اربوں روپیہ لگانے والوں کے پاس کیا اس قدر رقم بھی نہیں کہ صوبے کی سب سے بڑی جامعہ کے اخراجات پورے کر دیے جائیں۔ طلبہ کے کھیلوں کے میدان پر بنائے گئے شادی ہالوں کی جگہ ان کی ذہنی بالیدگی کا کچھ بندوبست ہوتا تو بہتر تھا۔

سوچتا ہوں ، آج اگر میں اٹھارہ برس کا لڑکا ہوتا جو جامعہ پنجاب میں داخلے کے لیے آتا اور جامعہ کو اس قسم کے کاروبار کرتے دیکھتا، تو شاید اپنے گاؤں واپس لوٹ جاتا۔ وہ رقم جو میں نے اپنی تعلیم پر خرچ کرنی تھی، اسی طرز کے کسی بڑے پلاٹ پر تنبو قناتیں کھڑی کرنے پر لگا دیتا۔ چھوٹے پیمانے سے کاروبار شروع کرتا اور شاید کامیاب بھی رہتا۔میرے گردونواح کے مناظر بھی مجھے یہی درس دیتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ سب سے آہستہ رفتار والی لائن میں جانے پر بھی پیچھے سے کوئی گاڑی والا آپ کو بار بار ہارن مارتا ہے۔ کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں کا شیشہ نیچے ہوتا ہے۔ اندر سے جوس کا ڈبا ، کوئی خالی بوتلی یا بسکٹوں کا خالی ڈبا باہر اچھال کر شیشہ واپس اوپر کر لیا جاتا ہے۔ جب پولیس والا غریب کا چالان کرتا اور ظاہری شان رکھنے والے کو جانے دیتا ہے۔ جب سفارشی عہدے پر ہوتا ہے اور اور عالم اپنی علمیت کا بوجھ اٹھائے در در کے چکر لگاتا ہے۔یہ مناظر دیکھ کر میں سوچنے لگتا ہوں کہ جامعہ کا فیصلہ درست ہے۔ ذہنی طور پہ ناکارہ اس قوم کو تعلیم اور کھیلوں کے میدان نہیں شادی ہالوں کی ہی ضرورت ہے۔

(ذوالقرنین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔