لوگوں کو امداد کی نہیں تحفظ کی ضرورت ہے!

محمد عثمان فاروق  اتوار 26 جون 2016
لوگوں کے مرنے کے بعد امداد دینے کے بجائے ان کے تحفظ کا بندوبست کرلیں۔ یوں نہ کوئی بچہ سایہ شفقت سے محروم ہوگا، نہ کوئی ماں اور باپ اولاد کی نعمت سے محروم ہوگا۔

لوگوں کے مرنے کے بعد امداد دینے کے بجائے ان کے تحفظ کا بندوبست کرلیں۔ یوں نہ کوئی بچہ سایہ شفقت سے محروم ہوگا، نہ کوئی ماں اور باپ اولاد کی نعمت سے محروم ہوگا۔

ایک وقت تھا کہ فوجیں ملکوں پر حملے کرتیں تھیں، مگر اب جنگ کے انداز بدل گئے ہیں اب قوم کو نفسیاتی طور پر توڑا جاتا ہے۔ اب ملکوں میں خانہ جنگی، انتشار اور فسادات برپا کئے جاتے ہیں۔ یہ بات تلخ ضرور ہے لیکن آپ ذرا دیر کو سوچیں اگر امجد صابری کو گولی مارنے کی بجائے کراچی میں کوئی دھماکہ ہوتا جس میں خدانخواستہ، چالیس پچاس لوگ مارے جاتے تو شاید نفسیاتی طور پر دشمن کو وہ نتائج حاصل نہ ہوتے جو امجد صابری کو گولی مارنے سے حاصل ہوئے ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں امجد صابری کے قتل نے پاکستانی قوم کے اعصاب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ عدم تحفظ کا احساس تو پہلے ہی نفسیات میں گھر کر گیا ہے، جسے اس المناک اور افسوسناک سانحہ نے مزید اجاگر کردیا ہے۔

دہشتگردی کے لیے جب دھماکہ یا ٹارگٹ کلنگ کا سہارا لیا جاتا ہے تو ٹارگٹ محض وہ ہی نہیں ہوتا جو مارا جاتا ہے، بلکہ ٹارگٹ وہ بیس کروڑ عوام ہوتی ہے جو اس دہشتگردی سے دہشت زدہ ہوجاتی ہے۔ اور مقام افسوس تو یہ ہے کہ ایسے واقعات روکنے کے بجائے ہماری حکومتوں کی طرف سے یہ اعلان کردیا جاتا ہے کہ مقتول کے خاندان کو فلاں فلاں رقم دی جائے گی۔

ایسا ہی کچھ بدقسمتی سے امجد صابری کی موت کے بعد بھی ہوا۔ ابھی اُن کی قبر کی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ لندن میں زیر علاج ہمارے وزیراعظم نے مقتول کے اہلخانہ کے لئے ایک کروڑ روپے امداد کا اعلان کر دیا۔ لیکن بات یہاں نہیں رکی بلکہ وفاقی حکومت کی جانب سے کئے گئے اعلان کے بعد سندھ حکومت کی ہمدردی نے بھی جوش مارا اور گزشتہ روز سندھ اسمبلی میں وزیراعلی سندھ قائم علی شاہ نے بھی ایک کروڑ کے اعلان کے ساتھ ساتھ امجد صابری کے بچوں کی تعلیم کا بیڑہ بھی اُٹھا لیا۔ یعنی وفاق سے ایک قدم آگے نکل گئے۔ اگرچہ عام لوگوں کی حد تک ایسے اعلانات مخص اعلانات ہی ہوتے ہیں مگر چند لمحوں کو فرض کر لیتے ہیں کہ یہ رقم امجد صابری کے اہلخانہ کو مل جاتی ہے، لیکن کیا اس طرح کی امداد زخم پر نمک چھڑکنے کے مترادف نہیں ہے؟۔

سوال تو یہ اُٹھنا چاہیئے کہ مقتول خاندان کو کروڑوں روپے امداد کی ضرورت تھی یا تحفظ کی؟ آپ اس خاندان سے پوچھیں جن کا سہارا چِھن گیا کہ کیا انکو اپنا باپ چاہیئے یا امداد؟ چلیں یہ تو امداد ورثاء کے لئے تھی، لیکن سندھ حکومت نے تو یہ بھی اعلان کردیا کہ جو فرد بھی قاتل کو پکڑوانے میں حکومت سندھ کی مدد کرے گا اُس کو 50 لاکھ نقد انعام دیا جائے گا۔ گویا کل ملا کر ڈھائی کروڑ روپے صرف اس لئے خرچ کئے جارہے ہیں کہ حکومت تحفظ کے حوالے سے اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی تھی۔

ویسے جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو اچانک یاد آیا کہ گزشتہ روز شہر کراچی میں تین فیکٹریوں میں آگ لگی جس کی وجہ سے کروڑوں کا نقصان ہوگیا۔ جانتے ہیں ایسا کیوں ہوا؟ ایسا اس لئے ہوا کہ یہاں بھی حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہوگئی۔ اگر شہر میں آگے بجھانے کا نظام جدید سہولیات پر استوار ہوتا تو نقصان میں واضح طور پر کمی ہوتی، لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جہاں پیسے لگا کر مسائل کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے ہم وہاں پیسے لگانے کے بجائے مسائل کے بعد امداد پر خرچ کررہے ہوتے ہیں۔ اگر فائر فائٹنگ کے نظام پر حکومت توجہ دے اور رقم کا صحیح استعمال ہو تو، ایسی نوبت کیوں آئے؟ لیکن یہ ایسا کیوں کریں گے کہ ان کی تمام تر نالائقیوں کے باوجود بھی عوام انہی کا انتخاب کرتی ہے۔

ہمارے حکمران صبح شام جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں۔ اس لئے جمہوریت کی مثال سے ہی بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دیکھئے جمہوریت سے مراد عوام کی حکومت ہے۔ یعنی عوام کے ووٹ سے منتخب ہونی والی حکومت، منتخب ہونے والی حکومت عوام کی مرہون منت ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے حکومت کی یہ اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں اور وسائل عوام کی بہبود کے لئے خرچ کریں۔ پہلے عوام کو کھلائیں پھر خود کھائیں۔ پہلے عوام کی تحفظ کا بندوبست کریں پھر اپنی حفاظت کے حوالے سے حکمت عملی ترتیب دیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج مہذب دنیا میں بادشاہت کو پسند نہیں کیا جاتا کیونکہ بادشاہت میں حکومت کو صرف شاہی خاندان کے مفادات عزیر ہوتے ہیں۔

اس لیے آخر میں یہی بات کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ کو لفظ جمہوریت سے بہت زیادہ محبت ہے تو صرف الفاظ تک محدود نہیں کریں بلکہ اس نظام کو سمجھنے اور اِس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کریں۔ یوں میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو والی عادت نہیں چلے گی۔ جب انتخابات کا وقت ہو تو لوگوں میں گھل مل جائیں اور تمام تر سہولیت فراہم کرنے کا وعدہ بھی کریں، لیکن جب منتخب ہوجائیں یہ بھول ہی جائیں کہ آپ کی ذمہ داری کیا ہے۔

اس مملکت خداداد کے لئے صرف نامور شخصیات ہی اہمیت کی حامل نہیں، بلکہ ہر ایک پاکستانی کی ہے کیونکہ یہ تمام ہی لوگ انسان ہیں اور دنیا میں انسان سے زیادہ مقدم کوئی اور نہیں۔ حکومت سے اب بھی گزارش ہے کہ لوگوں کے مرنے کے بعد امداد دینے کے بجائے ان کے تحفظ کا بندوبست کرلیں۔ یوں نہ کوئی بچہ سایہ شفقت سے محروم ہوگا، نہ کوئی ماں اور باپ اولاد کی نعمت سے محروم ہوگا۔ ایک بار پھر امید کرتے ہیں کہ اب کی بار آپ کچھ خیال کریں گے۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔