دنیا کے آخری سرے پر

جاوید چوہدری  منگل 28 جون 2016
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

آپ اگر دنیا کے نقشے میں نیوزی لینڈ کو تلاش کریں تو یہ آپ کو قطب جنوبی کی طرف آخر میں سفید رنگ کے چھوٹے سے دھبے کی شکل میں ملے گا، یہ دنیا کا آخری ملک ہے، آپ اگر اسے فوکس کر کے دیکھیں تو نیوزی لینڈ آپ کو دو ٹکڑوں میں تقسیم ملے گا، یہ ملک خشکی کے دو ایسے لمبے ٹکڑوں پر مشتمل ہے جن کے چاروں طرف سمندر ہے، آپ کو پورے ملک کے دائیں بائیں دونوں جانب مسلسل سمندر ملتا ہے یوں اس کے 80 فیصد شہر، قصبے اور گاؤں سمندر کے کنارے آباد ہیں، ملک کا ایک حصہ نارتھ آئی لینڈ اور دوسرا ساؤتھ آئی لینڈ کہلاتا ہے، دونوں کو درمیان سے سمندر کاٹتا ہے چنانچہ لوگوں کو ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے پر جانے کے لیے جہاز لینا پڑتا ہے۔

آک لینڈ اس کاسب سے بڑا شہر ہے، آک لینڈ کی آبادی 15 لاکھ ہے، دنیا کی زیادہ تر انٹرنیشنل ائیر لائینز یہاں اترتی ہیں، میں گزشتہ سال آک لینڈ سے جنوب کی طرف گیا تھا، یہ دو دن کی مسلسل ڈرائیونگ تھی، میں اس سال شمالی حصے کے آخر تک جانا چاہتا تھا، شمالی جزیرے کا آخری سرا کیپ رینگا (Cape Reinga) کہلاتا ہے، کیپ رینگا موری زبان کا لفظ ہے، موری نیوزی لینڈ کے قدیم باشندے ہیں، ملک کے زیادہ تر شہروں اور قصبوں کے نام موری زبان میں ہیں، کیپ رینگا جنوب کی طرف دنیا کا آخری مقام ہے، یہ ’’اینڈ آف دی ورلڈ‘‘ بھی کہلاتا ہے، میں دنیا کو دس برسوں سے آخری سروں سے دیکھ رہا ہوں، وہ مقام جہاں پہنچ کر انسانی آبادی ختم ہو جاتی ہے، وہ مقامات میرا جنون ہیں، کیپ رینگا بھی اس فہرست میں شامل تھا۔

میں 20 جون کو آک لینڈ پہنچا، میرے دوست عامر تحریم میرے ساتھ تھے، یہ برسبین میں بزنس کرتے ہیں، میں میلبورن سے ان کے پاس آیا، ہم نے آک لینڈ کی فلائیٹ لی اور ہم نیوزی لینڈ آ گئے، ہم نے 21 جون کو کیپ رینگا کی طرف سفر شروع کیا، آک لینڈ سے کیپ رینگا تک کا سفر دنیا کی خوبصورت ڈرائیوز میں شامل ہے، نیوزی لینڈ کو اگر قدرت کا جغرافیائی معجزہ قرار دیا جائے تو یہ غلط نہیں ہوگا، یہ قطب جنوبی کے ہمسائے میں واقع ہے، چاروں طرف سے سمندر میں گھرا ہوا ہے، پہاڑیوں پر مشتمل ہے اور تمام پہاڑیوں میں جنگل، ندیاں، آبشاریں اور دریا ہیں، پورے ملک میں غار بھی ہیں، زمین کے اندر لاوا بھرا ہے، پورا ملک آتش فشانوں پر آباد ہے، نیوزی لینڈ زیادہ بارشوں والے ممالک میں بھی شمار ہوتا ہے یہاں ہر سال600 سے 1600 ملی میٹر بارش ہوتی ہے جب کہ ہمارے ملک میں صرف 250 ملی میٹر بارش ہوتی ہے، آپ ملک میں دائیں جائیں یا بائیں آپ بہرحال ساحل پر ہی نکلیں گے۔

دنیا کے قدیم ترین درخت، چٹانیں، جانور، پرندے اور آبی حیات یہاں پائی جاتی ہے، بھیڑیں، گائے اور زراعت یہ تینوں ملک کی معیشت کا اہم حصہ ہیں، یہ ملک دنیا کی شاندار ترین اون پیدا کرتا ہے، کیوں؟ کیونکہ نیوزی لینڈ میں آلودگی اور گرد نہیں ہوتی اور بھیڑوں سے اچھی اون لینے کے لیے یہ دونوں ضروری ہیں، آپ کسی بھی طرف نکل جائیں آپ کو پہاڑ کی اترائیوں اور سڑک کے دونوں کناروں پر بھیڑیں ضرور نظر آئیں گی، نیوزی لینڈ نے بھیڑیں پالنے، اون اتارنے اور اس کو ’’ٹریٹ‘‘ کرنے کے جدید ترین طریقے وضع کر رکھے ہیں، ڈیری مصنوعات بھی اس ملک کا نشان امتیاز ہیں، دنیا کی بہترین گائیں یہاں پائی جاتی ہیں، ملک میں 11 ہزارچار سو بڑے ڈیری فارم ہیں، ہر فارم میں دو ہزار سے زائد گائے ہیں۔

یہ لوگ دو گھنٹے میں دو ہزار جانوروں کادودھ دھو لیتے ہیں، اس کے لیے انھوں نے جدید مِلک مشینیں ایجاد کر رکھی ہیں، یہ لیرز سے چلتی ہیں اور ایک منٹ میں گائے کا پورا دودھ کھینچ لیتی ہیں۔ ’’فن ٹارا‘‘ ڈیری مصنوعات کی سب سے بڑی کمپنی ہے، یہ کمپنی ملک کے تمام بڑے فارم ہاؤسز سے دودھ جمع کرلیتی ہے، کمپنی کے اثاثے 11 بلین ڈالر ہیں، یہ کمپنی پاکستان میں ’’اینگرو‘‘ کے ساتھ مل کر بھی کام کر رہی ہے، زراعت ان کا تیسرا بڑا شعبہ ہے، ملک بھر میں سبزی اور فروٹ کے ہزاروں فارم ہیں، یہ لوگ فروٹ اور سبزی کی ایکسپورٹ سے بھی سالانہ اربوں ڈالر کماتے ہیں، جاپان زراعت میں نیوزی لینڈ کو بہت سپورٹ کرتا ہے، فارم ہاؤسز میں جدید ترین زرعی مشینیں لگی ہیں،پانی فواروں کے ساتھ دیا جاتا ہے۔

یہ ’’ڈریپ ایری گیشن‘‘ سے اگلی ٹیکنالوجی ہے، ملک قدرتی معدنیات سے بھی مالا مال ہے، سونے، تانبے اور چاندی کے پہاڑ ہیں لیکن عوام حکومت کو پہاڑوں کو چھیڑنے نہیں دیتے، یہ نیوزی لینڈ کو قدرتی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں، آبادی محض 46 لاکھ96 ہزار ہے لیکن یہ ملک اتنی کم آبادی کے ساتھ بھی دنیا کے کامیاب اور خوبصورت ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے، یہ ملک سیاحت سے بھی ہر سال 9 ارب ڈالر کماتا ہے، دنیا بھر سے سالانہ 32 لاکھ سیاح نیوزی لینڈ آتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے کنواری زمینیں دیکھتے ہیں، قانون بہت سخت اور امن وامان انتہائی مضبوط ہے اور سمندربھی خزانوں سے بھرے پڑے ہیں، آپ کو یہاں دنیا کی قیمتی ترین ’’سی فوڈ‘‘ ملے گی۔

آپ اگر نیوزی لینڈ کو سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ یہ کہہ سکتے ہیں، یہ ایک ایسا ملک ہے جس میں گوادر کے کنارے سوات آباد ہے یعنی پہاڑ، وادیاں، جنگل، چراہ گاہیں اور درجہ حرارت سوات جیسا لیکن یہ ساحل کے کنارے آباد ہے اور ان دونوں کے ساتھ اس میں قانون، انصاف اور شہری سہولتیں امریکی ہیں، یہ لوگ چمڑے سے کام لینے کے ماہر بھی ہیں، چمڑا رنگنا اور اس سے مصنوعات بنانا یہ ان پر بس ہے، فرانس اور اٹلی کی فیشن انڈسٹری اون اور چمڑا نیوزی لینڈ سے ہی درآمد کرتی ہے، یہ لوگ ایکسٹریم اسپورٹس کے ماہر بھی ہیں، ملک کے زیادہ تر شہروں میں جہازوں سے چھلانگ لگانے، سکوبا ڈائیونگ، سمندری لہروں پر سرفنگ، انسان کو ٹانگوں سے باندھ کر پہاڑ سے نیچے گرانے (بنچی جمپ) اور سیاحوں کو شیشے کے کیبن میں بند کر کے شارک مچھلیوں کے درمیان چھوڑنے والے سیکڑوں مراکز ہیں۔

آپ کو جگہ جگہ گرم غباروں میں سفر کرانے، گیند میں بند کر کے پہاڑی ڈھلوانوں سے لڑھکا دینے اور پیرا گلائیڈنگ کے سینٹر بھی ملتے ہیں، یہ آبشاروں اور ندیوں کی سرزمین بھی ہے، آپ کسی طرف نکل جائیں، آپ کی پانی سے ملاقات ضرور ہو گی، جون جولائی نیوزی لینڈ میں سردی کے مہینے ہیں، ملک کا جنوبی حصہ ان مہینوں میں برف میں دفن ہو جاتا ہے، شمالی جزیرے میں برف نہیں پڑتی لیکن سردی ٹھیک ٹھاک ہوتی ہے، روزے بہت چھوٹے اور ٹھنڈے ہیں، سوا سات بجے سورج نکلتا ہے اور سوا پانچ بجے غروب ہو جاتا ہے، نیوزی لینڈ کی صبح اور شام دونوں شاندار ہیں، آپ کو اس کا افق ہر وقت سنہری اور سرخ دکھائی دیتا ہے، ملک بھر میں بادل منڈلاتے رہتے ہیں، آپ جدھر دیکھتے ہیں آپ بینائی کا صدقہ اتارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، آپ اگر ’’بیوٹی ود کمفرٹس‘‘ دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو دنیا میں نیوزی لینڈ سے بہتر کوئی جگہ نہیں ملے گی، اس زمین، اس فضا میں ایک جادو ہے، ایک ایسا جادو جو آپ کی روح کی تمام کثافتیں دھو دیتا ہے، جو آپ کو نیا جنم، ایک نیا جیون بھی دیتا ہے اور جو آپ کو نیا نکور بھی بنا دیتا ہے۔

میں اور عامر تحریم کیپ رینگا روانہ ہو گئے، ہمارے دونوں طرف پہاڑ تھے اور پہاڑوں کی دوسری طرف سمندر تھا، قصبے آتے گئے اور پیچھے رہتے گئے، ہمارا سفر جاری رہا یہاں تک کہ آبادی ختم ہو گئی اور ہم ویران سڑک پر سفر کرنے لگے، کیپ رینگا سے پہلے ’’نائینٹی مائیل بیچ‘‘ کا علاقہ آیا، یہ نوے میل لمبا ساحل تھا، ہمیں تاحد نظر ریت ہی ریت اور پانی ہی پانی دکھائی دے رہا تھا، راستے میں کوئی بندہ بشر نہیں تھا، آخری بستی کو گزرے گھنٹے سے زیادہ وقت ہوچکا تھا، وہاں صرف ہم تھے، ہماری کار تھی، سیاہ، لمبی اور نہ ختم ہونے والی سڑک تھی، نظر کی حد تک پھیلا آسمان تھا اور پانی اور ہوا کی ننگی آوازیں تھیں اور ہم ان ننگی آوازوں، تاحد نظر پھیلے آسمان اور نہ ختم ہوتی سیاہ سڑک پر سفر کرتے ہوئے مغرب کے وقت کیپ رینگا پہنچ گئے، دنیا کا آخری سرا ہمارے سامنے تھا، یہ ایک چٹان تھی جس کے نیچے گہرائی میں سمندر کی بدمست لہریں تھیں،یہ لہریں پتھروں سے ٹکراتی تھیں۔

جاگ اڑاتی تھیں اور ناکام ہو کر واپس لوٹ جاتی تھیں لیکن پھر مڑ کر واپس آتی تھیں اور ایک بار پھر چٹانوں کے ساتھ سر ٹکراتی تھیں، دنیا کا آخری لائٹ ہاؤس بھی وہاں موجود تھا، یہ سفید رنگ کی مسجد نما عمارت تھی، جس کے سامنے لندن، سڈنی، لاس اینجلس اور ٹوکیو کا فاصلہ اور سمتیں درج تھیں اور اس پورے منظر پر ایک ہیبت ناک سناٹا طاری تھا، یہ سناٹا بوجھ بن کر دل پر وار کر رہا تھا، میں نے زندگی میں سیکڑوں سناٹے دیکھے ہیں لیکن یہ مکلی کے قبرستان کے بعد دنیا کا دوسرا ایسا مقام تھا جس کے سناٹے نے میرے دل کی دھڑکن بدل دی، یہ دھڑکن نیچے سے اوپر نہیں اوپر سے نیچے کی طرف دوڑتی تھی اور پورے بدن میں خوف کا لاوا پھیل جاتا تھا، دنیا میں اگر روحیں اور جنات موجود ہیں اور یہ باقاعدہ بستیاں بنا کر رہتے ہیں تو کیپ رینگا پھر لازماً ان کا ٹھکانہ ہو گا، وہ جگہ دل پر اثر کر رہی تھی اور یہ اثر مثبت نہیں تھا، وہ اینگزائٹی سے لتھڑا ہوا تھا اور میں وہاں اینگزائٹی کا کمبل اوڑھ کر تیزی سے گردش کر رہا تھا، پہاڑی پر ٹریک تھے، یہ ٹریک 360 کے زاویئے پر گھومتے تھے۔

آپ وہاں دنیا کے آخری مقام کو چاروں اطراف سے دیکھ سکتے تھے، سورج ڈوب رہا تھا، دور افق میں دو پانی بھی مل رہے تھے، یہ دو سمندروں کے ملاپ کا مقام بھی ہے یہاں بحیرہ تسمان بحرالکاہل سے ملتا ہے، ہمیں دور پانی کی نیلی لکیر بھوری لکیر میں ملتی نظر آ رہی تھی، وہاں سردی بھی تھی، ہوا سردی کو بڑھا رہی تھی، تھوڑی دیر میں بارش شروع ہو گئی، بارش نے کیپ رینگا کی ہیبت میں اضافہ کر دیا، یہ ہیبت عامر کے دل پر بھی اثر کر رہی تھی، وہ مجھے بار بار چٹان کے آخری سرے پر کھڑے ہونے سے روک رہا تھا، چٹان کے آخری سرے کے نیچے سیکڑوں فٹ گہری کھائی تھی اور کھائی کے آخر میں سمندر کی سجدہ گاہ تھی، سمندر کی لہریں ہر تین منٹ بعد وہاں سجدہ ریز ہوتی تھیں، مجھے بار بار کوئی طاقت چٹان کے آخری سرے کی طرف دھکیلتی تھی اور میں بے اختیار ہو کر آگے چل پڑتا تھا، عامر میرا ہاتھ پکڑ لیتا تھا، مجھے آج چھ دن بعد محسوس ہوتا ہے میں وہاں اگر اکیلا ہوتا تو وہ کھائی میری مقتل گاہ بن چکی ہوتی، میں یقینا اس میں گر چکا ہوتا، کیوں؟ کیونکہ میں کوشش کے باوجود اپنے آپ کو اس جانب جانے سے روک نہیں پا رہا تھا، کوئی طاقت تھی جومجھے بار بار اس طرف دھکیلتی تھی اور عامر مجھے روک لیتا تھا، میں جب اس وقت کو یاد کرتا ہوں، میری ریڑھ کی ہڈی میں سردی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور یہ لہر کیپ رینگا کا وہ تحفہ ہے جسے شاید میں کبھی نہ بھول پاؤں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔