جمہوریت کمزور دلوں کے لیے نہیں

وسعت اللہ خان  منگل 28 جون 2016

جمہوریت کی تعریف میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اب تک دنیا میں جتنے بھی نظام ہائے حکومت آئے جمہوریت  ان میں سب سے کم برا نظام ہے۔جمہوری نظام کسی ایک شے کا نہیں بلکہ مختلف اجزا پر مشتمل پیکیج کا نام ہے۔ ایک جزو بھی کم ہو تو پورے پیکیج کی افادیت و قوتِ نافذہ کمزور پڑ جاتی ہے۔

شخصی یا گروہی آمریت کو یہ سہولت حاصل ہے کہ اس کا انحصار طاقت پر ہے اور طاقت جوابدہی کے خوف سے آزاد ہوتی ہے۔مگر جمہوریت میں سے جوابدہی کا عنصر نکال دیا جائے تو وہ کوئی بھی نظام ہو سکتا ہے پر جمہوریت نہیں۔

یوں سمجھ لیجیے کہ جمہوری نظام تعمیر کرنا ایک پوری بندرگاہ بنانے جیسا ہے۔صرف کشتیوں کے لیے جیٹی بنا دینا بندرگاہ نہیں۔آپ کو ایسی برتھیں تعمیر کرنا پڑتی ہیں جنھیں نمکین پانی نقصان نہ پہنچا سکے ، ان برتھوں کی گنجائش اتنی ہو کہ ان پر ہر حجم کے جہاز لنگر انداز ہو سکیں۔دیوہیکل کرینیں نصب کی جا سکیں۔مال بردار ٹرک آسانی سے نقل و حرکت کر سکیں۔ایسی برتھوں کی تعمیر کے لیے موزوں آرکیٹکیٹ ، ماہرینِ تعمیرات ، معیاری تعمیراتی مشینری اور اس مشینری کو استعمال کرنے کے لیے ماہر ہاتھ درکار ہیں۔

اور پھر صرف برتھیں بنانے سے تو بندرگاہ مکمل نہیں ہو گی جب تک کہ ایک بڑا سا کسٹم ہاؤس اور پھر مسافروں کی آمد و روانگی و طعام و قیام  کے لیے مناسب بنیادی سہولتیں میسر نہ ہوں۔ہر شے کا ریکارڈ رکھنے کا انتظام ہو اور پھر اس بندرگاہ کا رابطہ باقی دنیا سے جوڑنے کے لیے سڑکیں ہوں اور وہ سڑکیں بھی ایسی ہوں کہ ہر طرح کا ہلکا بھاری ٹریفک برداشت کر سکیں۔غرض بندرگاہ تعمیر کرنا ایک پوری نئی دنیا بسانے جیسا ہے۔اور اس سے بھی اہم مسلسل نگہداشت و مین ٹیننس کا ذیلی نظام ہے جو ناقص ہو تو ساری محنت اکارت ہو جاتی ہے۔

اب آئیے جمہوریت کی جانب۔صرف یہ سمجھ لینا کہ ایک عدد آئین بنا کر اس میں یہ لکھ دو کہ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور اس برابری کو یقینی بنانے کے لیے ایک غیر جانبدار عدالتی نظام ہوگا اور یہ کہ تمام شہری اپنی مرضی سے اپنے نمایندے چننے کے لیے با اختیار ہیں اور یہی نمایندے حکومت تشکیل دیں گے ، اس حکومت پر نگاہ رکھیں گے اور اپنے ووٹروں کی امنگوں کے مطابق پالیسیاں بنائیں گے اور نافذ کرائیں گے۔اور اس اختیار کی ہر بار ایک طے شدہ مقررہ مدت کے بعد ہونے والے انتخاب میں تجدید ہوگی اور اس انتخاب کا انتظام ایک الیکشن کمیشن کرے گا اور پھر جمہوری عمل نافذ ہوجائے گا اور خود بخود آگے بڑھتا جائے گا۔ایسا سمجھ لینے سے جمہوریت تو نہیں آئے گی البتہ آپ خود کو ایک عظیم جمہوری فریب دینے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔

اگر آپ واقعی جمہوریت کے دلدادہ ہیں اور اس کے تھوڑے بہت ثمرات سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو پھر یہ سمجھ لیجیے کہ آئین ، عدلیہ ، انتظامیہ ، مقننہ ، الیکشن ، پولنگ ، سیاسی جماعتیں ، سیاستداں۔یہ سب بذاتِ خود جمہوریت نہیں لا سکتے۔یہ سب اس عمارت کی تعمیر کے لیے پلاٹ ، اینٹوں سیمنٹ ، بجری ، گارے ، سریے اور لکڑی جیسے ہیں جن سے جمہوری ریاست کی عمارت تعمیر ہونی ہے۔بذاتِ خود ان اشیا کا ایک ساتھ ڈھیر لگا دینے کو ملبہ تو کہا جا سکتا ہے عمارت نہیں کہا جا سکتا۔

جمہوریت کی دوکان میں بھانت بھانت کے ڈیزائن سجے ہیں۔سب سے پہلے تو آپ کو جن جن ’’ معتبرین ’’ پر اعتماد ہے انھیں بیٹھ کر یہ طے کرنا ہوگا کہ آپ کے ملک کی سیاسی ، سماجی ، علاقائی و نسلی ساخت کے اعتبار سے کس شکل اور سائز کی جمہوریت مناسب ہے۔اور جب ساخت پر اتفاق ہوجائے تو پھر اگلا مرحلہ یہ ہے کہ اس تک پہنچنے کے لیے ایسے کون سے ذیلی تعلیمی ، مباحثی راستے اختیار کیے جائیں جن پر عدم برداشت اور تنگ نظری کی جھاڑیاں کم سے کم ہوں۔اس سے اگلا مرحلہ یہ ہے کہ جب ہر ادارے کی ذمے داریاں اور دائرہ کار طے ہوجائے تو پھر ان اداروں پر یہ واضح ہو کہ کون سی ایسی قوتیں ہیں جنھیں نیوٹرائلز کرنا یا جمہوری دھارے میں لانے کی کوشش کرنا یا انکار کی صورت میں قلع قمع کرنا ہے۔تاکہ یہ امر یقینی ہو سکے کہ بھیڑ کی کھال پہن کر جمہوری میوزیکل چییر گیم میں گھسنے اور اس پر استبدادی پنجے گاڑنے والوں کا راستہ بند ہو سکے۔

اس کی واحد صورت یہ ہے کہ جمہوریت کے کھیل میں شریک کھلاڑی کوئی ایسی سنگین حرکت نہ کریں جس کے سبب تماشائیوں ( ووٹروں ) کا کھیل پر سے اعتماد اٹھنے لگے اور عطائیوں کو تماشائی گمراہ کرنے کا موقع مل سکے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کھیل میں صرف انھیں شریک ہونے کی اجازت ہو جن کے بارے میں اطمینان ہو کہ وہ قواعد و ضوابط کی پابندی کریں گے اور طے شدہ  آزادیوں کا کسی بھی الہامی و غیر الہامی عذر کے سہارے گلا نہیں گھونٹیں گے۔

دورِ حاضر میں اس کی سب سے بڑی مثال ہٹلر ہے جو مروجہ جمہوری قواعد و ضوابط کے راستے ہی جرمنی پر مسلط ہونے میں کامیاب ہوا۔بھارت میں بی جے پی کے نظریے نے جمہوری دروازے کو ہی اپنے فروغ کے لیے استعمال کیا۔امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ہضم کرنا جتنا ڈیموکریٹس کے لیے مشکل ہے اس سے زیادہ ری پبلیکنز کے لیے دردِ سری ہے۔برطانیہ جسے جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے وہاں بھی اگر جمہوریت پسند غفلت سے کام لیں تو بریک زٹ پوری ریاست کے مستقبل پر راتوں رات آسیبی سوالیہ نشان ڈال سکتاہے۔پاکستان کے سیاستدانوں کو شوق تو بہت رہا ہے جمہوریت جمہوریت کھیلنے کا لیکن چونکہ جمہوریت ہوتی کیا ہے اور اس کی حفاظت کیسے ہوتی ہے کا سوال کلئیر نہیں ہے لہذا پاکستانی جمہوریت ہر وقت سولہ برس کی دوشیزہ کی طرح لرزتی رہتی ہے کہ کچھ غلط نہ ہوجائے۔

مورل آف دی اسٹوری : جمہوریت کے پودے کو تناور درخت بننے تک اور تناور درخت بننے کے بعد بھی مسلسل نگہداشت اور کسی بھی جانب سے اچانک اٹھنے والی آندھی اور بادِ صموم سے تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ تحفظ کوئی ایک فرد یا گروہ یا طبقہ نہیں دے سکتا۔پوری ریاست اور اس میں بسنے والے لوگ کر سکتے ہیں۔زرا سی غفلت و تساہل مضبوط سے مضبوط درخت کو بھی کیڑا لگانے کے لیے کافی ہے۔لہذا جو لوگ یہ مہنگا شوق پالنا چاہتے ہیں انھیں اس شوق کے ساتھ لگی زمہ داریاں اور ان کی قیمت بھی معلوم ہونا چاہیے۔

’’ لوگوں کو دھوکا دینا کہیں آسان اور انھیں یہ سمجھانا کہیں مشکل ہے کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے’’ ( مارک ٹوین)۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔