’’اقتدار کپ‘‘ کا فائنل ابھی ختم نہیں ہوا

سلیم خالق  منگل 28 جون 2016
 اگر حکومت تبدیل ہوئی تو دونوں کو ہی بورڈ سے جانا ہوگا، ویسے شہریارخان خود کئی بار کہہ چکے کہ وہ چھٹیوں پر برطانیہ جا رہے ہیں:فوٹو:فائل

اگر حکومت تبدیل ہوئی تو دونوں کو ہی بورڈ سے جانا ہوگا، ویسے شہریارخان خود کئی بار کہہ چکے کہ وہ چھٹیوں پر برطانیہ جا رہے ہیں:فوٹو:فائل

دوستو:آج کچھ الگ کرتے ہیں، میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں ، کیا کہا کوئی دلچسپی نہیں ہے،مگر میں تو پھر بھی سناؤں گا۔

بہت زمانے پہلے کی بات ہے ایک تھا بادشاہ، اس کے کئی مشیر تھے، ایک دن ان میں سے کسی سے خوش ہو کر اس نے کہا مانگو کیا مانگتے ہو، جواب ملا فلاں  مالامال ریاست کا انتظام مجھے سونپ دیں، بادشاہ نے فوراً خواہش پوری کر دی، پھر دوسرے سے خوش ہوا تو اسے بھی وہاں بھیج دیا، ایک ریاست کے دو منتظم ہوئے تو معاملات بگڑنے لگے، ایسے میں طے یہ ہوا کہ دونوں باری باری انتظامات سنبھالیں گے، ایک کی مدت ختم ہونے لگی تو اس کا ارادہ تبدیل ہو گیا، دوسرا بہت تلملایا اور بادشاہ سے ملنے پہنچ گیا،اس نے اپنی خدمات گنوا کر اسے قائل کر لیا کہ عہدے کی معیاد پوری کرنے دی جائے، بادشاہ موڈ میں تھا اس نے یہ نہ سوچاکہ ریاست کا بیڑا غرق ہو چکا ہے،مشیر سے کہہ دیاکہ ٹھیک ہے جاؤ عیش کرو۔ بعد میں اسے خیال آیا کہ دوسرے مشیر کی بھی میرے لیے بڑی خدمات ہیں اس بیچارے کو ناراض کرنا بھی درست نہ ہو گا،کوئی درمیانی راہ نکالنا ہوگی۔

ارے قارئین آپ لوگ تو بور ہونے لگے چلیں چھوڑیں کہانی، میں اب اپنے اصل موضوع کرکٹ کی طرف آتا ہوں، پاکستان کی انگلینڈ سے سیریز شروع ہونے میں چند ہی روز باقی ہیں لیکن اس سے پہلے بورڈ میں ’’اقتدار کپ‘‘ جاری ہے، شہریارخان کا پلڑا وقتی طور پر بھاری نظر آتا ہے مگر مجھے نہیں لگتا کہ نجم سیٹھی اتنی آسانی سے ہار مانیں گے، ان دنوں چیئرمین یا ان کے قریبی افراد اپنے ’’میڈیا کارڈز‘‘ بڑی ہوشیاری سے استعمال کر رہے ہیں،جنگ چھڑی بھی میڈیا پر ہی ہے، پہلے اچانک یہ خبریں سامنے آئیں کہ شہریار نے لارڈز میں ایک دن کیلیے لاکھوں روپے میں باکس بک کرا لیا، انگلینڈ روانگی سے قبل وہ ملازمین کو کروڑوں روپے کا بونس دے گئے۔ پھرنجم سیٹھی کے قریبی افراد کی ڈگریوں اور ہارون رشید کو واپس لانے کا معاملہ زیربحث رہا، چیئرمین نے اپنے جن قریبی افراد کو برطرفی سے بچایا اور بغیر کام کیے کئی ماہ تنخواہیں دیں وہ اب نمک کا حق ادا کر رہے ہیں، خاص طور پر میڈیا ڈپارٹمنٹ کے ایک صاحب ہوا کا رخ دیکھ کرکبھی ایک تو کبھی دوسری طرف ہو جاتے ہیں، ایسے میں شہریار اور نجم سیٹھی دونوں کنفیوژ ہوں گے کہ آج کل یہ کس کے ساتھ ہیں،البتہ اس سے نقصان ملکی کرکٹ کو ہوا اور چٹ پٹی خبروں سے پی سی بی کی بڑی بدنامی ہو رہی ہے، کافی عرصے سے یہ اطلاعات زیرگردش تھیں کہ جون میں شہریارخان لندن چلے جائیں گے پھر صحت کی بنیاد پر کام چھوڑ دیں گے، یوں نجم سیٹھی کو بطور چیئرمین دوسری اننگز شروع کرنے کا موقع مل جائے گا۔

ان باتوں کو شہریارخان کے بعض بیانات نے بھی تقویت بخشی، میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ دونوں میں ایک خاموش معاہدہ تھا کہ دو سال شہریاراور تیسرے برس نجم سیٹھی چیئرمین رہیں گے، مگر اب ایسا لگتا ہے کہ شہریارخان کا ارادہ بدل چکا اور وہ عہدے کی مدت پوری کرنا چاہتے ہیں، گوکہ چیئرمین کا عہدہ اعزازی مگر میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آپ آڈٹ کرا لیں سالانہ جتنی رقم اس پر خرچ ہوتی ہے شاید کوئی تنخواہ دار بھی اتنا مہنگا نہ پڑے،وی وی آئی پی پروٹوکول اور میڈیا کی بھرپور توجہ، آئی سی سی میٹنگزودیگرکاموں کیلیے بیرون ملک سفر ، یہ سب کچھ آسانی سے نہیں چھوڑا جاتا، شاید شہریارخان نے بھی اسی لیے پلٹا کھایا، اب وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد بظاہر وہ آئندہ ایک برس کیلیے پکے ہو گئے لیکن جیسے بادشاہوں کے موڈ مزاج کا علم نہیں ہوتا تھا،ویسا ہی جدید دور کے حکمرانوں کے ساتھ بھی ہے۔

شہریارخان اور نجم سیٹھی دونوں سے ان کے فیملی تعلقات ہیں لیکن اگر حقائق کا جائزہ لیں تو سیاسی طور پر مشکلات میں گھرے وزیر اعظم اس وقت نجم سیٹھی کی مخالفت بھی مول نہیں لے سکتے، فیوچر ’’وزیر اعظم‘‘ کو گروم کرنے میں ان کی ایک قریبی شخصیت ان دنوں اہم کردار ادا کر رہی ہے،چیئرمین پی سی بی کی تبدیلی کا پلان پہلے ہی میڈیا میں آنے سے شاید معاملہ خراب ہوا، ابھی اگست میں بہت وقت باقی ہے، کہانی میں کوئی اور ٹوئسٹ بھی آ سکتا ہے،ممکن ہے کہ اچانک جولائی کے آخر میں اطلاعات سامنے آئیں کہ بڑھتی عمر کے سبب صحت اجازت نہیں دے رہی اس لیے شہریارخان مستعفی ہو رہے ہیں، لیکن اگر حکومت تبدیل ہوئی تو دونوں کو ہی بورڈ سے جانا ہوگا، ویسے شہریارخان خود کئی بار کہہ چکے کہ وہ چھٹیوں پر برطانیہ جا رہے ہیں ۔

اب اچانک انھیں یاد آیا کہ وہ دراصل کام سے گئے ہیں، وہاں آئی سی سی میٹنگز میں شرکت کے بعد پاکستان اے ، ویمنز اور مینز ٹیموں کے میچز دیکھیں گے، بورڈ کا حالیہ پریس ریلیز اور شہریارخان کے غیرمکی میڈیا پر اچانک انٹرویوز سامنے آنا یہ سب کوئی اتفاق نہیں،بورڈ میں دو گروپس واضح ہیںاور دونوں کے وفادار اپنے اپنے باسز کی خوشنودی کیلیے کام کر رہے ہیں، اب دیکھنا ہوگا کہ نجم سیٹھی کیا کرتے ہیں۔

ان کی وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی تو معاملے کا کیا حل نکلتا ہے، بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ کسی نے ان کو بتایا ہے کہ وہ دوبارہ چیئرمین بنے تو شاید پھر عدالتی کیسز میں پھنس جائیں معاملات جیسے چل رہے ہیں ویسے ہی چلنے دیں، وہ ویسے ہی بورڈ کے کرتا دھرتا تو ہیں ہی، پی ایس ایل کو بھی الگ کمپنی بنایا جا رہا ہے وہاں توجہ دیں، بہرحال یہ سب صرف مفروضے ہی ہیں، اصل فیصلہ وزیر اعظم کو ہی کرنا ہے ، شہریارخان اور نجم سیٹھی اب ان کیلیے کسی ایک کو چننے کا وقت آ گیا، معاملہ اب اقتدار سے زیادہ اناکا بھی ہے، اگر کوئی ڈیل نہ ہوئی تو اب کوئی آسانی سے ہار نہیں مانے گا،شاید آئندہ کچھ ماہ میں میڈیا کو مزید ’’بریکنگ نیوز‘‘ بھی ملیں،البتہ ’’اقتدار کپ‘‘ فائنل کے پہلے ہاف میں بلاشبہ شہریارخان کو واضح برتری حاصل ہو گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔