پاک بھارت ’سانجھی عقیدت‘

آصف محمود  ہفتہ 2 جولائی 2016
ہندوؤں کا ماننا ہے کہ بابا دلیب سنگھ ہندو تھے اور سکھ انہیں خود کا ہم مذہب سمجھتے ہیں، جبکہ مسلمانوں کے نزدیک بابا چملیال صوفی بزرگ تھے.

ہندوؤں کا ماننا ہے کہ بابا دلیب سنگھ ہندو تھے اور سکھ انہیں خود کا ہم مذہب سمجھتے ہیں، جبکہ مسلمانوں کے نزدیک بابا چملیال صوفی بزرگ تھے.

پاکستان اور بھارت کے بارڈر پر تناؤ معمول کی بات ہے، لیکن دونوں ممالک کی سرحد پر ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں سرحد کے آرپار بسنے والے سانجھی عقیدت کا اظہارکرتے ہیں۔ پنجاب کے سرحدی علاقہ سیالکوٹ سے چند کلومیٹر دور چار واہ سیکٹر کا سرحدی علاقہ سید والا ہے جس سے چند فرلانگ کے فاصلے پر بابا دلیپ سنگھ منہاس المعروف بابا چملیال کی درگاہ ہے۔ یہ درگاہ دونوں ممالک کو تقسیم کرتی نو مین لائن کے درمیان میں ہے۔ ورکنگ باؤنڈری کی دوسری طرف بھارت کا ضلع سانبھا کا علاقہ رام گڑھ ہے۔ ہرسال دیسی مہینے ہاڑ کے پہلے ہفتے میلے کی تقریبات شروع ہوتی ہیں جو ایک ہفتے تک جاری رہتی ہیں۔

ہم لوگ اس میلے میں شرکت کے لئے لاہور سے سیالکوٹ پہنچے اور پھر چناب رینجرز کی میزبانی میں ہمیں اس جگہ لے جایا گیا جہاں میلے کا انعقاد کیا گیا تھا۔ مقامی صحافی کلیم چشتی نے بتایا کہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ سے پہلے دونوں طرف سے ہزاروں عقیدت مند اس سانجھے میلے میں شریک ہوتے تھے لیکن جنگ کے بعد جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھی تو پھر درگاہ تک رسائی کو بھی محدود کردیا گیا۔ 2003ء میں ہونیوالے فائر بندی معاہدے کے بعد اس میلے کو خاص اہمیت ملی ہے۔

اس درگاہ کا انتطام بھارت کے کنٹرول میں ہے تاہم پاکستانی زائرین بھی میلے میں شریک ہوسکتے ہیں، لیکن انہیں نو مین لائن عبور کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہم لوگ چناب رینجرز کے سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئر وسیم بھٹی کی میزبانی میں اس جگہ پہنچے جہاں رینجرز اور بی ایس ایف کی طرف سے مشترکہ تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ دونوں سرحدی فورسز نے اپنے اپنے قومی جھنڈوں کے رنگوں سے ہم آہنگ غبارے فضا میں چھوڑے۔ ڈی سی او سیالکوٹ اور پاکستانی زائرین کی طرف سے درگاہ پر پھولوں کی چادر چڑھائی گئی، درگاہ پر بھارت کی مختلف ریاستوں سے عقیدت مندوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ اس موقع پر رینجرز اور بی ایس ایف کی طرف سے ایک دوسرے کو مٹھائی کا تحفہ بھی دیا گیا۔

بابا دلیب سنگھ المعروف بابا چملیال کی درگاہ 321 سال پرانی ہے، تاہم اس کی درست تاریخ کسی کو معلوم نہیں ہے، البتہ ان کے عقیدت مندوں میں مسلمان، سکھ اور ہندو سبھی شامل ہیں۔ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ بابا دلیب سنگھ ہندو تھے اور سکھ انہیں خود کا ہم مذہب سمجھتے ہیں، جبکہ مسلمانوں کے نزدیک بابا چملیال صوفی بزرگ تھے یہی وجہ ہے کہ ہر سال ہونیوالے ان کے میلے کی تقریب میں تینوں مذاہب کے لوگ شریک ہوتے اور اپنی سانجھی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔

بابا چملیال کی درگاہ سے بہت سی روایات وابستہ ہیں۔ ان میں سب سے اہم یہاں کا پانی اورمٹی ہے جسے عقیدت مند تبرک اور پرشاد کے طور پر لیکر جاتے ہیں۔ عقیدت مند درگاہ کے مخصوص حصے سے لی جانیوالی مٹی کو شکر جبکہ پانی کو شربت کہتے ہیں۔ عقیدت مندوں کا ماننا ہے کہ اس شکر اور شربت سے کئی جلدی امراض بالخصوص کوڑھ کا مرض ختم ہوجاتا ہے۔

اس میلے میں عام عقیدت مندوں کے ساتھ دونوں ممالک کے سرکاری حکام بالخصوص بھارت کے زیر تسلط جموں سے اہم شخصیات میلے میں شریک ہوتی ہیں اور اپنی عقیدت کا اظہار کرتی ہیں۔ کئی لوگ میلوں کا سفر پیدل اور موٹر سائیکلوں پر طے کرکے یہاں پہنچتے ہیں۔ دونوں ممالک کو تقسیم کرتی زیرو لائن پر واقع بابا چملیال کی درگاہ کا فیض سرحد کے دونوں جانب جاری ہے۔ ورکنگ باؤنڈری کا یہ علاقہ جہاں سال کے اکثر مہینوں میں گولیوں کو گونج گرج سنائی دیتی ہے۔ یہ درگاہ امن کا مرکز مانی جاتی ہے جہاں دو روایتی دشمن اکھٹے ہوکر اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
آصف محمود

آصف محمود

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ 2000 سے شعبہ صحافت جبکہ 2009 سے ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاک بھارت تعلقات، بین المذاہب ہم آہنگی اورسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں۔ بلاگر سے اِس ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔