عبدالستار ایدھی کو قوم کا سلام، اللہ آپ کو صحت کامل عطا فرمائے

ویب ڈیسک  منگل 28 جون 2016
عبدالستارایدھی کو ان کی خدمات پرکئی اعزازات سےبھی نوازاجاچکاہے،فوٹو:فائل

عبدالستارایدھی کو ان کی خدمات پرکئی اعزازات سےبھی نوازاجاچکاہے،فوٹو:فائل

 کراچی: عبدالستار ایدھی  پاکستان اور دنیا بھر میں خدمت خلق کے حوالے سے ایک جانی مانی شخصیت ہیں جو کہ پاکستان کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی سربراہ ہیں اور ان کا شمار بلاشبہ ان شخصیات میں ہوتا ہے جن پر پاکستانی قوم فخر کرسکتی ہے۔

آپ 28 مئی1928 میں بھارتی ریاست گجرات کےشہربانٹوامیں پیداہوئے ،آپ کے والد کپڑا کے تاجر تھے جو متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔آپ بچپن ہی سے دردمند دل رکھتے ہیں جب آپ کی والدہ اسکول جاتے وقت آپ کو 2 پیسہ دیتیں تو وہ ان میں سے ایک پیشہ خود رکھ لیتے تھے اور ایک پیسہ کسی ضرورت مند پر خرچ کردیتے تھے۔11 سال کی عمر میں آپ نے اپنی بیمار والدہ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سنبھالی اور یوں کم عمری میں ہی آپ نے  دیکھ بھال کرنا سیکھ لیا تھا۔

1947 میں عبدالستار ایدھی کاخاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا جہاں میٹھادرسےسماجی خدمت کانیادورشروع ہوا۔ 1951 میں آپ نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور وہاں ایک ڈاکٹر کی مدد سے ڈسپنسری کھول لی۔  1957 میں کراچی میں جان لیوافلو سے ہزاروں لوگ متاثرہوئےتوآپ  نےخدمات کادائرہ میٹھادرسے پورے کراچی میں پھیلا دیا اوران کی انتھک محنت دیکھ کرایک کاروباری شخص نےاُنہیں بیس ہزارروپےعطیہ دیاتو ایدھی نےپرانی گاڑی خریدکرلاوارث لاشوں کاکفن دفن بھی شروع کردیا۔ابتدائی دنوں میں جب عبدالستارایدھی نے ڈسپنسری شروع کی تھی تو وہ اسی ڈسپنسری کے باہر سوتے تھے اور جب کوئی ایمرجنسی ہوتی تو ایمبولینس لے کر دکھی لوگوں کی مدد کے لیے پہنچ جاتے تھے۔

1972 میں ایدھی بشام میں زلزلہ متاثرین کی خدمت کیلئے پہنچے،کراچی لوٹنے پرانہیں والد کےانتقال کا صدمہ برداشت کرناپڑا،اِسی سال ایدھی فاؤنڈیشن میں ٹریڈیونین کابکھیڑاپڑگیاجس پر1994 میں نئی رجسٹریشن کےساتھ ایدھی فاؤنڈیشن کی بنیاد دوبارہ رکھی گئی اور آج ایدھی فاؤنڈیشن کا شمار پاکستان کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم کے طور پر ہوتا ہے جب کہ ایدھی فاؤنڈیشن کی خدمات کو عالمی سطح پر بھی سراہا جاتا ہے اورعبدالستارایدھی کو ان کی خدمات پرکئی اعزازات سےبھی نوازاجاچکاہے۔

عبدالستار ایدھی نے سیاست میں بھی قسمت آزمائی کی جہاں انہیں کبھی کامیابی ملی تو کبھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایوب دور میں بنیادی جمہوریت کے انتخابات میں بلامقابلہ کامیاب ہوئے،1964میں انہوں نے ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔1970 کے انتخابات میں آزادامیدوارکی حیثیت سےقومی اور صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر ہارگئے۔1982 میں جنرل ضیا الحق نےانہیں مجلس شوریٰ کاممبربنایا مگر سادہ طبیعت کی وجہ سےانہیں یہ سب پسندنہ آیا اور وہ مجلس شوریٰ کےبہت کم اجلاسوں میں شریک ہوئےاورپھرسیاست کوہمیشہ کے لیئے خیربادکہہ دیا۔


آپ سرکاری عہدوں کے لالچ اورعیش وعشرت سے ہمیشہ دوررہے اوراربوں روپے کا فنڈ رکھنے کے باوجود ہمیشہ سادگی اور کفایت شعاری پرانحصار کیا اورہمیشہ قوم کو بھی سادگی کا درس دیا۔ عبدالستار ایدھی آج بھی سادہ زندگی بسر کررہےہیں اورمیٹھادر کے علاقے میں اپنی فاؤنڈیشن کی ایک عمارت کے ایک کمرے میں رہائش پذیر ہیں۔ چھوٹا سا کمرہ، معمولی بستر مگر کام اتنے بڑے کہ جس پر انسانیت کوفخرہے،ان کے کمرے کے ساتھ ہی ایک باورچی خانہ ہے۔ عبدالستار ایدھی نے ساری زندگی اسی کمرے میں گزاری۔ حتیٰ کہ بیماری کی حالت میں بھی وہ اس جگہ سے کہیں اور منتقل نہیں ہوئے۔ ان کا پلنگ بھی معمولی سا سے مگر بیماری کی وجہ سے ان کی صاحبزادی نے پلنگ بدل دیا۔

عبدالستارایدھی کی اہلیہ بلقیس ایدھی کا نام بھی سماجی خدمات کے شعبے میں کسی تعارف کا محتاج نہیں اور وہ ہمیشہ اپنے شوہر کے ہمراہ فلاحی خدمات میں پیش پیش رہتی ہیں۔وہ  16 سال کی عمر میں ایدھی صاحب کے قائم کردہ نرسنگ ٹریننگ اسکول میں داخل ہوئیں اور نرسنگ کی باقاعدہ پیشہ ورانہ تربیت حاصل کی۔ ان کی محنت، لگن اور جوش وجذبے کو دیکھتے ہوئے ایدھی صاحب نے نرسنگ کے اس ادارے کی ذمہ داریاں انہیں سونپ دیں، انہوں نے اس ادارے میں دو برس تک جانفشانی اور انتہائی لگن کے ساتھ کام کیا اور یہی محنت اور جذبہ ہی عبدالستار ایدھی کے دل میں بھی گھر کر گیا۔ یوں 1966ء میں بلقیس بانو، عبدالستار ایدھی کی رفیقہ حیات بن گئیں۔ شادی کے بعد ان دونوں سماجی شخصیات نے بہت سے نئے فلاحی کاموں کا آغاز کیا۔ بے گھر ہونے والی خواتین کو ادارے میں جگہ دینا ہو یا ایدھی میٹرنٹی ہوم میں زچہ وبچہ کی دیکھ بھال کرنا ہو، اس طرح کے خواتین سے متعلق تمام فلاحی کاموں کی نگرانی بلقیس ایدھی ہی کرتی ہیں اور انہیں قوم کی جانب سے مادر وطن کا خطاب بھی دیا گیا ہے۔

ساری عمردوسروں کی بےلوث خدمت کرنےوالے عبدالستار ایدھی آج قوم کی دعاؤں کےطلب گارہیں۔ گردوں کےعارضے میں مبتلاعبدالستارایدھی صرف پاکستان ہی نہیں ساری دنیاکے لئے ایک روشن مثال ہیں، انہوں نے لاتعداد پیشکش کے باوجود بیرون ملک علاج کرانے سے انکار کردیا اور اپنے ملک میں اپنے ہی لوگوں کے درمیان رہ کر علاج معالجہ کرارہے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔