اعتکاف اور لیلۃُ القدر؛ نیکیوں کا موسم بہار

محمد جاوید اقبال صدیقی  ہفتہ 2 جولائی 2016
لیلۃ القدر کو تلاش کرنے اور اس کی برکات سے مستفید ہونے اور اعتکاف میں بیٹھنے والے شخص کو معتکف کہتے ہیں۔:فوٹو : اے ایف پی

لیلۃ القدر کو تلاش کرنے اور اس کی برکات سے مستفید ہونے اور اعتکاف میں بیٹھنے والے شخص کو معتکف کہتے ہیں۔:فوٹو : اے ایف پی

رمضان المبارک تو آتا ہی اس لیے ہے کہ اﷲ کے  انعامات سے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کیا جائے۔ گناہوں سے توبہ کی جائے، برائیوں کے نہ کرنے کا عہد کیا جائے اور اﷲ سے اپنے لیے دینی و دنیاوی فلاح کی دعائیں کی جائیں۔ خالقِ کائنات ہماری جائز دعاؤں کو کبھی رد نہیں کرتا

رمضان شریف کا یہ تیسرا عشرہ ہے اور اس کی دعا یہ ہے

’’ اے اﷲ! ہم کو آگ کے عذاب سے بچا۔‘‘

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا سنت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ ’’ جب (رمضان المبارک کا آخری) عشرہ شروع ہو جاتا تو رسولِ اکرم حضرت محمد ﷺ شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار کرتے اور عبادت کے لیے کمر کس لیتے۔‘‘ (صحیح بخاری)

ویسے تو پورا رمضانِ کریم ہی نیکیوں کا موسمِ بہار اور اطاعت و عبادات کا خصوصی مہینہ ہے لیکن آخری عشرہ تو اس موسمِ عبادت کا مقام عروج ہے۔ اسی لیے ان دس دنوں میں نبی کریم ﷺ بھی اعتکاف کرنے کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔

اعتکاف سے مراد ہے کہ ماہِ رمضان کے آخری دس دنوں میں گھر چھوڑ کر مسجد کے اندر ہی قیام کیا جائے اور اﷲ کی عبادت میں مشغول رہا جائے۔ اس طرح بندہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کے قریب تر رہتا ہے۔

لیلۃ القدر کو تلاش کرنے اور اس کی برکات سے مستفید ہونے اور اعتکاف میں بیٹھنے والے شخص کو معتکف کہتے ہیں۔ اعتکاف میں بیٹھنے والوں کو مسجد سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی سوائے قضائے حاجات یا کسی اور بے حد ضروری کام کے۔ معتکف کو اپنا زیادہ تر وقت قرآنِ مجید کی تلاوت، ذکر و فکر، نوافل کی ادائی، تسبیح اور اﷲ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا میں گزارنا بے حد ضروری ہے۔

حضرت ابو سعید الخدریؓ سے روایت ہے کہ ’’ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا شب قدر کو آخری دس راتوں میں سے ہر طاق رات میں تلاش کرو۔‘‘

دنیا بھر کے مسلم ممالک میں اور بالخصوص پاکستان میں بھی لاکھوں فرزندانِ اسلام اعتکاف میں ہیں۔ اور اگر اﷲ تبارک و تعالیٰ توفیق عطا فرمائے تو ہر مسلمان کو اس سنت کی برکتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مسجدیں اﷲ تعالیٰ کا گھر ہیں اور اس دروازے پر سوالی بن کر بیٹھ جانا بہت ہی بڑی سعادت ہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ رمضانِ کریم کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنتِ کفایہ ہے، اگر محلے کے کچھ لوگ اس سنت کو ادا کریں تو مسجد کا حق جو تمام محلوں پر لازم و ملزوم ہے ادا ہو جائے گا۔

امام بخاریؒ کے بہ قول اگرچہ آخری عشرہ افضل ہے لیکن ضروری نہیں اس سے پہلے بھی اعتکاف کیا جاسکتا ہے۔ اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف تو مسنون ہے ہی ویسے مستحب یہ ہے کہ جب بھی آدمی مسجد میں جائے تو جتنی دیر مسجد میں رہنے کا ارادہ ہو اعتکاف کی نیت کرلینا چاہیے۔

عبادات دراصل دو طرح کی ہیں، ایک عبادت جسمانی ہے اور ایک مالی اور دونوں عبادتوں کے نمونے ہمارے سامنے موجود ہیں۔ نماز اور روزے کا شمار جسمانی عبادت میں ہوتا ہے۔ زکوٰۃ مالی عبادت کہلاتی ہے اور حج مالی اور جسمانی عبادت کا مجموعہ ہے۔ یہ تمام عبادتیں وہ ہیں جو اجتماعی اور انفرادی طور پر خاموشی اور قدرے سکون کے ساتھ انجام دی جاتی ہیں۔ اس عشرہ آخر کو جہنم سے نجات کا عنوان بتایا گیا ہے۔ اس آخری عشرہ میں ایک اہم عبادت اعتکاف ہی ہے، جو بیسویں روزے کے سورج غروب ہونے سے قبل شروع ہوتی ہے اور عید کا چاند دکھائی دینے کے بعد اس کا اختتام ہوتا ہے۔ اعتکاف کی عظمت اور فضیلت کا بیان تو احادیثِ نبی کریم ﷺ میں کئی جگہوں پر آیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشادِ پاک ہے رمضان کے دس دن کا اعتکاف دو حج اور دو عمروں جیسا ہے۔

ایک اور موقعے پر آپ ﷺ نے ارشادِ فرمایا کہ جس نے اﷲ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اخلاص و ایمان کے ساتھ اعتکاف کیا تو اس کے گزشتہ صغیرہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔

اس ماہِ مبارک کی فیوض و برکات سے جو لوگ واقف ہیں وہ رمضان المبارک میں عبادات کا کوئی موقع اور لمحہ ضایع نہیں کرتے۔ کیوںکہ رمضان شریف تو آتا ہی اس لیے ہے کہ اﷲ کے دیے ہوئے انعامات سے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کیا جائے۔ گناہوں سے توبہ کی جائے، برائیوں کے نہ کرنے کا عہد کیا جائے، اور اﷲ سے اپنے لیے دینی و دنیاوی فلاح کی دعائیں کی جائیں۔ وہ خالقِ کائنات ہے اور ہماری جائز اور ہر حلال دعا کو کبھی رد نہیں کرتا، تمام شرائط اور خاص کر خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں مانگی جائیں تو پروانۂ قبولیت عطا کردیا جاتا ہے۔

اﷲ رب العزت ہم سب کو رمضان المبارک کے فیوض و برکات سمیٹنے کا اور زیادہ سے زیادہ عبادات میں اپنا حصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔