نفرت کی دہلیز!

راؤ منظر حیات  ہفتہ 2 جولائی 2016
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

چارہزارسال پہلے یونان کے بالکل وسط میں ایک چھوٹاساشہرتھا۔یہی کوئی ایک لاکھ آبادی پرمشتمل۔ قدرت نے اس شہرکوہرطریقے سے نوازاتھا۔ مرد اور خواتین انتہائی وجیہہ اورخوبصورت تھے۔ سنہرے اور آنکھیں نیلی تھیں۔

وہاں ایوس(Evos)دیوتاکی حکومت تھی۔ایوس محبت کادیوتاتھا۔اس کی حکمرانی میں کوئی لڑائی یا رنجش نہیں تھی۔پورے شہرمیں صرف ایک قاضی تھااوراس کے پاس کسی قسم کاکوئی کام نہیں تھا۔کیونکہ لوگوں میں کسی قسم کاکوئی تنازع تھاہی نہیں۔ پانی وافر اور فصلیں بھرپور تھیں۔غلہ اس قدرزیادہ تھاکہ سنبھالنا مشکل ہوجاتاتھا۔یہ ایک جنت نماعلاقہ تھا۔ دوچارہزارلوگ تجارت کرتے تھے اورباہرکے ملکوں  سے سامان لاکر اپنے  شہرمیں فروخت کردیتے تھے۔

علم اورادب کی ترقی عروج پر تھی ۔فلسفی انتہائی دقیق مسائل پرگفتگوکرنے کااختیاررکھتے تھے اورانھیں ایوس کی طرف سے کسی پابندی یازبان بندی کاحکم نہیں ملتاتھا۔سائنسدان جدید طریقے سے تحقیق میں مصروف کاررہتے تھے۔ ہرسال کوئی نہ کوئی ایسی چیزایجادکرلیتے تھے جس سے لوگوں کی زندگی مزیدآسان ہوجاتی تھی۔ایوس کواپنی حکومت اور طرز حکمرانی پر فخرتھا۔

کیونکہ ایوس دیوتاتھا اس لیے اکثراس کے پاس، دوسرے دیوی دیوتاآتے رہتے تھے۔اس میں اریڈن اورلائسا(Eridan and Lyssa)بہت قابل ذکر تھیں۔اریڈن نفرت کی دیوی تھی اورایک آگ اگلنے والے اژدہے پرسوارہتی تھی۔کمال یہ تھاکہ جب چاہتی تھی کسی بھی انسان میں نفرت کے جذبات پیداکردیتی تھی۔ لائساکاوصف تھاکہ ہرانسان میں غصہ پیداکرنے کی قوت رکھتی تھی۔ ایک خطرناک قسم کے جادوئی رتھ پرسفرکرتی تھی۔ رتھ آگ کابناہواتھا۔ایک دن دونوں ایوس کے دربارمیں آئیں۔

ایوس حسب معمول کام میں مصروف تھا۔دونوں دیویوں کے سامنے بادشاہ نے کہاکہ شہری انتہائی مہذب اورپُرسکون لوگ ہیں۔اس کی حکومت میں امن اورچین ہے اورکسی قسم کاکوئی مسئلہ نہیں۔اریڈن اورلائسانے ہنسناشروع کردیا۔کہنے لگیں کہ تم ہم سے طاقتوردیوتاہو۔ہم تمہارے علاقے میں کبھی کوئی کام نہیں کرسکتیں۔ہمیں چندہفتے دواورپھردیکھو،تمہارادعویٰ بالکل غلط ثابت ہوجائیگا۔ایوس سوچنے لگا۔اس نے اپنے ملک پربہت محنت کی تھی۔یقین تھاکہ اس کے شہری کبھی بھی بھٹکیں گے نہیں۔چنانچہ اس نے نفرت اورغصے کی دیویوں کواپنے شہرمیں کام کرنے کی اجازت دیدی۔اریڈن جوکہ نفرت کی دیوی تھی،فوری طورپرانسانی روپ میں ظاہر ہوئی۔ ایک تاجرکے پاس پہنچی۔

کہنے لگی کہ تمہارے ساتھ والا تاجر،تمہی سے غلہ خریدتاہے اورپھرمہنگے داموں بیچ دیتا ہے۔تمہیں اپنافائدہ بڑھاناچاہیے کیونکہ تمہیں تواصل میں نقصان ہورہاہے۔تاجرکے دل میں اپنے دوسرے ساتھی کے متعلق شدیدنفرت پیداہو گئی۔ایک لمحہ میں اپنے دیرینہ ساتھی کے خون کے درپے ہوگیا۔اب لائساکی باری تھی۔ وہ غصہ پیداکرنے کے فن پرعبوررکھتی تھی۔کسانوں کے سردارکے پاس گئی۔انھیں بتایاکہ تاجرتم سے غلہ بہت کم قیمت پرخریدتے ہیں اورپھرمہنگے داموں فروخت کردیتے ہیں۔سارامنافع توان کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔

کسانوں کے اندرلائسانے شدیدغصہ اورارتعاش پیدا کردیا۔انھیں یقین ہوگیاکہ تاجران کے جائزحق پرڈاکہ ڈال رہے ہیں۔نتیجہ یہ نکلاکہ تاجرایک دوسرے سے لڑپڑے اورکسان تلواریں لے کرتاجروں کے درپے ہوگئے۔ ایک دوسرے سے حسداورغصہ کے جذبات اتنے بھرپور تھے کہ ان دوطبقوں نے ایک دوسرے کے بیسوں آدمی قتل کردیے۔ گھرجلاڈالے اوران کے بچوں اورخواتین کوتہہ تیغ کرڈالا۔بادشاہ خودمجبورتھا کیونکہ اسے اپنے لفظوں کاپاس تھا۔اس نے بذات خوداپنے عوام پریقین کرکے ان دونوں خوانخواربلاؤں کوکام کرنے کی اجازت دی تھی۔

اب حکومتی معاملات تیزی سے بگڑنے لگے۔ نفرت کی دیوی نے ایک اورکھیل کھیلا۔فوج کے سپہ سالارکے پاس گئی۔اسے بتانے لگی کہ اصل طاقت تو تمہارے پاس ہے۔بادشاہ توتمہارامرہون منت ہے۔اس کے پاس تواپنے دفاع کے لیے کوئی اورطاقت نہیںہے۔ بادشاہ تو صرف اورصرف تمہاری وجہ سے حکومت کررہا ہے۔ مشورہ دیاکہ تم خودبادشاہ بن جاؤ۔ سپہ سالارکے دل میں بادشاہ کے خلاف شدیدنفرت آگئی۔بادشاہ کوغاصب اوربے ایمان سمجھنے لگا۔مگروہ ایک موقع کی تلاش میں تھا۔اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ بادشاہ بذات خوددیوتاتھااوراس کی حفاظت کے لیے انتہائی مضبوط اورتوانامحافظ ہردم مستعدرہتے تھے۔اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ بادشاہ کونقصان پہنچاسکے۔اب غصہ کی دیوی کی باری تھی۔

اس نے ایک مختلف کھیل کھیلا۔ساتھ والی سلطنت کے سپہ سالارکے پاس گئی۔حسدکی دیوی ایک راہب کے روپ میں اس کے ساتھ تھی۔دونوں نے اس سپہ سالارکوسمجھایاکہ ساتھ والی سلطنت یعنی ایوس کی حکومت بہت کمزورہوچکی ہے۔وہاں کسانوں اور تاجروں میں دنگافسادہورہاہے اوروہاں کاسپہ سالاربھی اپنے بادشاہ کے خلاف ہے۔تم ایسے کرو،کہ فوری طور پران کی کمزوری کافائدہ اُٹھاؤاوران کی حکومت کوختم کرکے خودوہاں کے بادشاہ بن جاؤ۔  اس کے دل میں دونوں بادشاہوں کے خلاف شدیدنفرت اورغصہ کے جذبات پنپنے لگے۔ایک دن موقع پاکر رات گئے اپنے بیمار بادشاہ کے کمرے میں آگ لگوادی۔بادشاہ جل کرراکھ ہوگیا۔ اس نے ایک سلطنت پرقبضہ کرلیا۔دونوں دیویوں نے اس کو مزید اشتعال میں مبتلاکرڈالا۔اس نے اپنی فوج اکھٹی کی اور ایوس کے شہرپرحملہ کرڈالا۔ عوام میں نفرت اورغصہ کی دیویوں نے حددرجہ منفی جذبات پھیلارکھے تھے۔

تاجر، کسان،عوام،فوج اورسپہ سالار سب ایک دوسرے کے شدیدمخالف تھے۔ لہذا اس کی فوج بھرپور طریقے سے لڑنہیں پائی اورایوس کی سلطنت بھی ختم ہوگئی۔ ایوس آسمانوں پرشکایت لے کربڑے دیوتا،زیوس کے پاس گیا۔اسے ساری صورتحال بتائی۔زیوس نے جواب دیاکہ ایوس تم نے اپنے ہاتھ سے اپنے آپکوبرباد کیاہے۔تم نے نفرت اورغصے کی دیویوں کوآزادی سے کام کرنے کی اجازت دیدی۔یہ تمہاری سب سے پہلی غلطی تھی۔تم نے ان منفی جذبات کومسلسل پلنے دیا اوردرست وقت پرکوئی مثبت قدم نہیں اُٹھایا،یہ تمہاری دوسری غلطی تھی۔تم نے اپنی طاقت یعنی محبت کواستعمال نہیں کیا۔یہ تمہاری تیسری غلطی تھی۔تم شکایت لے کرمیرے پاس آئے اورحالات کوخودٹھیک کرنے کی جدوجہدنہیں کی۔یہ تمہاری چوتھی غلطی ہے۔

لہذااب میں تمہاری کوئی مددنہیں کرسکتا۔جاؤ،اورکوئی اورکام شروع کردو۔تم نے اپنے ہاتھ خودکاٹ ڈالے ہیں۔ لہذاتمہیں ہی اسکاخمیازہ بھگتناپڑیگا۔ایوس کی حکومت ختم ہوگئی۔اس کے بعد عوام ہروقت ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے۔آہستہ آہستہ تمام شہرایک دوسرے سے حسداورغصے کی وجہ سے جہنم سابن گیا اور پھردنیاکے نقشے سے ہی غائب ہوگیا۔

یونانی کہانی لکھتے وقت میرے ذہن میں اپناملک ہے۔اپنے اردگردسنجیدہ نظرڈالیے۔ہرشخص غصے سے بھراہوامعلوم ہوگا۔ایسے لگتاہے کہ اکثرپاکستانیوں نے غصے کی دیوی لائساکے آگ والاہالہ پہن رکھاہے۔یہی معاملہ حسدکاہے۔ہماراپورامعاشرہ مکمل منفی سوچ کی طرف جاچکاہے۔قتل عام،چوری،ڈاکہ،زمینوں پرناجائز قبضے اورانصاف کی عدم موجودگی ہرسطح پر موجودہے اورلوگوں کوزندہ درگورکررہے ہیں۔یہاں توایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ ماں نے اپنی بیٹی پرتیل چھڑک کر زندہ جلادیا۔سترہ سالہ زینت رفیق ابھی جل کرخاکسترہوئی ہے۔

اس کی ماں پروین چندہفتے قبل زینت کوبہلا کر گھر لے کر آئی۔زینت کاجرم واقعی بہت بڑاتھا۔یعنی پسندکی شادی۔ہماراعظیم مذہب پسندکی شادی پرکوئی پابندی عائدنہیں کرتا۔مگرپروین اپنی بیٹی کوواپس لائی۔اس کے سامنے قران پرقسم دی کہ اپنے گھرآجائے،اسے کچھ نہیں کہاجائیگا۔بلکہ اس کی رخصتی باقاعدہ طریقے سے کی جائے گی۔گھرلانے کے بعدپروین اپنی بیٹی کوچھت پرلے گئی۔جہاں اس پرتیل چھڑکاگیا۔آگ لگانے کے بعدماں نے گھرکادروازہ باہرسے بندکروادیا۔سترہ سالہ زینت چالیس منٹ تک جلتی رہی اورماں تماشہ دیکھتی رہی۔

یہ واقعہ لاہورکاہے۔بالکل اسی طرح،کراچی میں دوبیٹوںنے محسوس کیاکہ والدین انھیں خرچے کے پیسے نہیں دیتے۔ان کے خیال میں باپ کے پاس کافی رقم تھی مگروہ انھیں منتقل نہیں کررہاتھا۔غصہ اورلالچ میںدونوں بیٹوں کواس قدرمنتقم مزاج بناڈالاکہ ایک رات پستول سے والدکوقتل کرڈالا۔ماں نے جب شورمچایاتوبیٹوں نے اپنی ماں کوبھی ختم کردیا۔دونوں مثالیں عزیزترین رشتوں کی دی ہیں۔اس حصارسے باہرآئیے توآپکوہرجانب عذاب کی سی کیفیت نظرآئیگی۔ساٹھ سال سے ایک طبقہ چوبیس گھنٹے لوٹ مارمیں مصروف ہے۔

ان کے پیٹ لالچ کی مٹی سے بنے ہوئے ہیں۔بھرنے کانام ہی نہیں لیتے۔قبرکی مٹی بھی ان کی ہوس کوختم نہیں کر پاتی۔ مرتے ہیںتوان کی اولاداپنے بزرگوں سے بھی دوہاتھ آگے نکل جاتی ہے۔ کراچی توویسے ہی بدنام ہے۔پاکستان نے ہرشہرمیں ایک جیساحال ہے۔ روزانہ اَن گنت لوگ بے قصورہونے کے باوجودلقمہِ اجل  بن جاتے ہیں۔کبھی کبھی مجھے لگتاہے کہ یونانی کہانی کے دوکرداریعنی نفرت اورحسدکی دیویوں نے پورے ملک میں مضبوطی سے اپنے پنجے گاڑلیے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔