- اردو یونیورسٹی کی پرنسپل سیٹ کی منتقلی کی جانب پہلا قدم، کراچی میں کیمپس انچارجز تعینات
- وزیراعظم کل چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کریں گے
- ججوں کے الزامات پر تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کی کمیٹی تشکیل دی جائے، پاکستان بار کونسل
- بشری بی بی خوش قسمت، بیڈ روم میں مزے سے شہد کھا کر قید کاٹ رہی ہیں، عظمیٰ بخاری
- جرمنی میں موٹروے پر بس کے خوفناک حادثے میں 5 افراد ہلاک
- کیجریوال کی گرفتاری سے متعلق امریکی بیان پر بھارت کا شدید ردعمل
- سندھ میں اسمگل شدہ اسلحے کے لائسنس جاری ہونے کا انکشاف
- چائنیز انجینئروں کی بس پر خودکش حملے کا مقدمہ سی ٹی ڈی میں درج
- وزیراعلیٰ بلوچستان کا غیر حاضر سرکاری ملازمین کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کا حکم
- کراچی میں ڈاکو فیکٹری ملازمین سے ایک کروڑ 82 لاکھ روپے چھین کر فرار
- پاکستان میں دہشت گردی کا منبع افغانستان میں ہے، وزیر دفاع
- پنجاب: شہریوں کو دھاتی ڈور سے بچانے کے لیے موٹرسائیکلوں پر حفاظتی وائرز کی تنصیب
- اسمارٹ فون صارفین جعلسازیوں کی نئی لہر سے ہوجائیں ہوشیار!
- چینی انجینئروں کی بس پر خودکش حملے کی فوٹیج ’’ایکسپریس نیوز‘‘ نے حاصل کرلی
- شانگلہ خودکش حملہ؛ تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی ، چینی وزارت خارجہ
- پیپلز پارٹی نے جے یو آئی سے آنیوالے طلحہ محمود کو سینیٹ ٹکٹ سے نواز دیا
- چینی شہریوں کی سیکیورٹی کیلئے تمام ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے، صدر
- آئی ایم ایف نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کی تجاویز پیش کردیں
- بچے کو زیادہ ہوم ورک کیوں دیا؟ باپ اسکول اور پولیس والوں کی جان کو آگیا
- بھارت: کرپشن کے ملزم سیاست دان کی کرنسی نوٹ پھیلا کر سونے کی تصویر وائرل
2050ء کے ایک بزرگ کا خط، اپنے دوست کے نام
ذیل میں 2050ء کے ایک بزرگ کا خط، اپنے ہم عمر دوست کے نام پیش کررہا ہوں۔ اگرچہ یہ خط انتہائی گنجلک قسم کی ’’مستقبلیاتی زبان‘‘ (Futuristic Language) میں تھا، جو میرے ذہن نے کچھ عرصہ پہلے موصول کیا تھا۔ البتہ، اپنے پڑھنے والوں کی سہولت کے لئے میں نے اسے آج کی زبان میں ترجمہ کردیا ہے۔ پڑھ کر کیسا لگا؟ ضرور بتائیے گا۔
اے میرے دوست، آداب
جب سے ریٹائر ہوا ہوں، تب سے اپنے لڑکپن اور نوجوانی کی یادیں بڑی شدت سے آنے لگی ہیں۔ کیا دن تھے کہ جب ہم فیس بُک پر پوسٹیں شیئر کروایا کرتے تھے، موبائل کے ذریعے ایس ایم ایس کیا کرتے تھے، دن میں تین تین (بلکہ بعض مرتبہ تو دس پندرہ مرتبہ بھی) اپنا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کیا کرتے تھے۔ جب کوئی تصویر اچھی لگتی تو کرسر کو کمپیوٹر اسکرین پر حرکت دیتے ہوئے، یا پھر انگلی کو اسمارٹ فون اسکرین پر ہلکے سے پریس کرتے ہوئے ’’لائک‘‘ کردیتے تھے۔ تمہیں یاد ہے ناں! اکثر اوقات لڑکیوں کی معمولی سی اسٹیٹس اپ ڈیٹ پر بھی سینکڑوں کمنٹس اور لائکس آجایا کرتے تھے اور ہم لڑکے ان سے جلا کرتے تھے۔
مگر اب تو وہ سب باتیں خواب و خیال ہوگئی ہیں۔ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کی ترقی اور نت نئی ایجادات نے وہ سارا لطف ہم سے چھین لیا ہے۔ میں تو اپنے بچوں اور اُن کے بچوں کو دیکھ کر حیرت کرتا ہوں۔ ہوش سنبھالتے ہی ایک ننھی سی ڈیوائس، ان کے کان کے پاس لگادیتے ہیں جو اُن کی جسمانی حرکات سے لے کر دماغ میں ابھرنے والی ہر سوچ تک کو قریب ترین سوشل پروسیسنگ سینٹر تک بھیجتی رہتی ہے۔ سوتے جاگتے، حتیٰ کہ اپنے انتہائی خلوت کے لمحات میں بھی وہ سوشل سرویلینس نیٹ ورک کی نظروں میں رہتے ہیں۔
میں جب اپنے بچوں اور اُن کے بچوں کو بتاتا ہوں کہ آج سے چالیس پینتالیس سال پہلے فیس بُک اور ٹوئیٹر جیسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر ہم لوگ اسٹیٹس اپ ڈیٹ، لائک اور شیئرنگ وغیرہ جیسے کام خود کیا کرتے تھے، تو وہ حیران رہ جاتے ہیں، اور ان کی حیرانی بھی جائز ہے کیونکہ برسوں سے ان میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا ورچوئل بَوٹ (Virtual Bot) یہی کام کرتا آرہا ہے۔ یہ مجازی دنیا میں ان ہی کا ترجمان تو ہے جو اُن کی پسند نا پسند، رجحانات اور مشاغل کے بارے میں ایک ایک چیز جانتا ہے اور وہی چیزیں لائک اور شیئر کراتا ہے جو اِن کے مزاج سے مناسبت رکھتی ہیں۔
جب میں ان لوگوں کو موبائل فون اور ’’کی پیڈ‘‘ استعمال کرتے ہوئے ایس ایم ایس کرنے کے بارے میں بتارہا تھا تو وہ ایسے منہ کھول کر مجھے دیکھ رہے تھے جیسے میں خلائی مخلوق ہوں۔ ظاہر ہے کہ اب تو انہیں لکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، صرف بول کر ہی سب کام ہوجاتے ہیں اور کئی مرتبہ تو صرف دماغ میں تھوڑی سی تحریک بھی کافی رہتی ہے۔
لیکن یار ایک بات ماننا پڑے گی۔ اب سوچتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ کی پیڈ استعمال کرنا واقعی کتنی بڑی مہارت ہے۔ نئی نسل تو بالکل نکمی ہوتی جارہی ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ آپ اپنی پسند اور ناپسند تک کے اظہار کے لئے مشینوں کے محتاج ہوگئے ہیں۔ کی پیڈ پر اپنی انگلیاں گھستے ہوئے کوئی رائے لکھنا کسی پہاڑ کی طرح لگتا ہے۔ اسی لئے میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ کہیں سے پرانے اسمارٹ فونز جمع کروں اور نئی نسل کے لئے ’’کی پیڈ یوزر سرٹیفکیٹ کورس‘‘ جیسے کسی تربیتی منصوبے کا آغاز کروں۔ مجھے یقین ہے کہ اس سرٹیفکیٹ کورس میں شرکت کرنے سے نوجوانوں میں سستی اور کاہلی دور ہوگی اور ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا۔
کیا تم بھی میرا ساتھ دینا چاہو گے؟ میں جواب جاننے کےلئے منتظر ہوں۔
فقط، تمہارا دوست
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔