2050ء کے ایک بزرگ کا خط، اپنے دوست کے نام

علیم احمد  جمعرات 21 جولائی 2016
میں جب بچوں کو بتاتا ہوں کہ آج سے چالیس پینتالیس سال پہلے فیس بک اور ٹوئیٹر پر ہم لوگ اسٹیٹس اپ ڈیٹ، لائک اور شیئرنگ جیسے کام خود کیا کرتے تھے تو وہ حیران رہ جاتے ہیں۔

میں جب بچوں کو بتاتا ہوں کہ آج سے چالیس پینتالیس سال پہلے فیس بک اور ٹوئیٹر پر ہم لوگ اسٹیٹس اپ ڈیٹ، لائک اور شیئرنگ جیسے کام خود کیا کرتے تھے تو وہ حیران رہ جاتے ہیں۔

ذیل میں 2050ء کے ایک بزرگ کا خط، اپنے ہم عمر دوست کے نام پیش کررہا ہوں۔ اگرچہ یہ خط انتہائی گنجلک قسم کی ’’مستقبلیاتی زبان‘‘ (Futuristic Language) میں تھا، جو میرے ذہن نے کچھ عرصہ پہلے موصول کیا تھا۔ البتہ، اپنے پڑھنے والوں کی سہولت کے لئے میں نے اسے آج کی زبان میں ترجمہ کردیا ہے۔ پڑھ کر کیسا لگا؟ ضرور بتائیے گا۔

اے میرے دوست، آداب

جب سے ریٹائر ہوا ہوں، تب سے اپنے لڑکپن اور نوجوانی کی یادیں بڑی شدت سے آنے لگی ہیں۔ کیا دن تھے کہ جب ہم فیس بُک پر پوسٹیں شیئر کروایا کرتے تھے، موبائل کے ذریعے ایس ایم ایس کیا کرتے تھے، دن میں تین تین (بلکہ بعض مرتبہ تو دس پندرہ مرتبہ بھی) اپنا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کیا کرتے تھے۔ جب کوئی تصویر اچھی لگتی تو کرسر کو کمپیوٹر اسکرین پر حرکت دیتے ہوئے، یا پھر انگلی کو اسمارٹ فون اسکرین پر ہلکے سے پریس کرتے ہوئے ’’لائک‘‘ کردیتے تھے۔ تمہیں یاد ہے ناں! اکثر اوقات لڑکیوں کی معمولی سی اسٹیٹس اپ ڈیٹ پر بھی سینکڑوں کمنٹس اور لائکس آجایا کرتے تھے اور ہم لڑکے ان سے جلا کرتے تھے۔

مگر اب تو وہ سب باتیں خواب و خیال ہوگئی ہیں۔ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کی ترقی اور نت نئی ایجادات نے وہ سارا لطف ہم سے چھین لیا ہے۔ میں تو اپنے بچوں اور اُن کے بچوں کو دیکھ کر حیرت کرتا ہوں۔ ہوش سنبھالتے ہی ایک ننھی سی ڈیوائس، ان کے کان کے پاس لگادیتے ہیں جو اُن کی جسمانی حرکات سے لے کر دماغ میں ابھرنے والی ہر سوچ تک کو قریب ترین سوشل پروسیسنگ سینٹر تک بھیجتی رہتی ہے۔ سوتے جاگتے، حتیٰ کہ اپنے انتہائی خلوت کے لمحات میں بھی وہ سوشل سرویلینس نیٹ ورک کی نظروں میں رہتے ہیں۔

میں جب اپنے بچوں اور اُن کے بچوں کو بتاتا ہوں کہ آج سے چالیس پینتالیس سال پہلے فیس بُک اور ٹوئیٹر جیسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر ہم لوگ اسٹیٹس اپ ڈیٹ، لائک اور شیئرنگ وغیرہ جیسے کام خود کیا کرتے تھے، تو وہ حیران رہ جاتے ہیں، اور ان کی حیرانی بھی جائز ہے کیونکہ برسوں سے ان میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا ورچوئل بَوٹ (Virtual Bot) یہی کام کرتا آرہا ہے۔ یہ مجازی دنیا میں ان ہی کا ترجمان تو ہے جو اُن کی پسند نا پسند، رجحانات اور مشاغل کے بارے میں ایک ایک چیز جانتا ہے اور وہی چیزیں لائک اور شیئر کراتا ہے جو اِن کے مزاج سے مناسبت رکھتی ہیں۔

جب میں ان لوگوں کو موبائل فون اور ’’کی پیڈ‘‘ استعمال کرتے ہوئے ایس ایم ایس کرنے کے بارے میں بتارہا تھا تو وہ ایسے منہ کھول کر مجھے دیکھ رہے تھے جیسے میں خلائی مخلوق ہوں۔ ظاہر ہے کہ اب تو انہیں لکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، صرف بول کر ہی سب کام ہوجاتے ہیں اور کئی مرتبہ تو صرف دماغ میں تھوڑی سی تحریک بھی کافی رہتی ہے۔

لیکن یار ایک بات ماننا پڑے گی۔ اب سوچتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ کی پیڈ استعمال کرنا واقعی کتنی بڑی مہارت ہے۔ نئی نسل تو بالکل نکمی ہوتی جارہی ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ آپ اپنی پسند اور ناپسند تک کے اظہار کے لئے مشینوں کے محتاج ہوگئے ہیں۔ کی پیڈ پر اپنی انگلیاں گھستے ہوئے کوئی رائے لکھنا کسی پہاڑ کی طرح لگتا ہے۔ اسی لئے میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ کہیں سے پرانے اسمارٹ فونز جمع کروں اور نئی نسل کے لئے ’’کی پیڈ یوزر سرٹیفکیٹ کورس‘‘ جیسے کسی تربیتی منصوبے کا آغاز کروں۔ مجھے یقین ہے کہ اس سرٹیفکیٹ کورس میں شرکت کرنے سے نوجوانوں میں سستی اور کاہلی دور ہوگی اور ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا۔

کیا تم بھی میرا ساتھ دینا چاہو گے؟ میں جواب جاننے کےلئے منتظر ہوں۔

فقط، تمہارا دوست

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

علیم احمد

علیم احمد

بلاگر 1987ء سے سائنسی صحافت کررہے ہیں، ماہنامہ گلوبل سائنس سے پہلے وہ سائنس میگزین اور سائنس ڈائجسٹ کے مدیر رہ چکے ہیں، ریڈیو پاکستان سے سائنس کا ہفت روزہ پروگرام کرتے رہے ہیں۔ آپ ورلڈ کانفرنس آف سائنس جرنلسٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پہلے صحافی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔