افضل کون، مٹی کا پتلا یا آگ کا بت؟

مدیحہ ضرار  اتوار 10 جولائی 2016
یہی خصلت انسانوں نے بھی سیکھ لی۔ کرنا انہوں نے بھی ہر صورت انکار ہی ہوتا ہے، چاہے ایک سجدے کا ہو یا کسی دوسرے چھوٹے بڑے حکم کا۔

یہی خصلت انسانوں نے بھی سیکھ لی۔ کرنا انہوں نے بھی ہر صورت انکار ہی ہوتا ہے، چاہے ایک سجدے کا ہو یا کسی دوسرے چھوٹے بڑے حکم کا۔

میں اس سے افضل ہوں، مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے۔ آگ کے شعلوں کی چنگاڑ میں رعونت ہے، اسکی بھڑکتی لہلہاہٹ سے انسان تو انسان جانور پر بھی خوف و ہراس طاری ہوجاتا ہے، اور یہ ہیبت ہی اسکا غرور ہے۔ کہاں بیچاری حقیر سی لیپ دار، گارے والی مٹی جس میں نہ تو بھڑک ہے اور نہ ہی رعب۔

اس نے ایک منطقی دلیل دے کر اپنی صفائی پیش کی۔ صفائی اس ذات کے سامنے  پیش کی، جس کے رب، مالک، خالق ہونے میں اسے ذرہ برابر بھی شک و شبہ نہ تھا۔ منطقی اس ذات کے سامنے ہو رہا تھا، جس نے اس کو آگ سے پیدا کیا، جس طرح آج اس کے سامنے رکھے انسان کو مٹی سے، لیکن وہ اپنے آگ کے غرور میں آکر یہ سوچنے سے قاصر ہوگیا کہ آگ ہو یا مٹی تخلیق میں اسکی مرضی کس نے پوچھی؟

لیکن دل میں کونپل کسی اور شے کی پھوٹنی تھی، اور وہ تھی حسد

ایک عام رویہ ہے کہ جب کوئی کسی سے حسد محسوس کرتا ہے تو وہ نفرت کے لیے کبھی بھی حسد کو براہ راست بنیاد نہیں بنائے گا بلکہ کئی وجوہات کو بطور دلیل پیش کرکے نفرت کی ترویج کرے گا۔ ابلیس کو بھی حسد کی آگ بے چین کئے ہوئے تھی، جس نے اسکو دلیلیں دینے پر اکسایا۔ حسد اس کی بنیاد تھی اور غرور کی چادر اس کی دلیل۔

کرنا اس نے انکار ہی تھا دونوں صورتوں میں، لیکن اپنے انکار میں ٹھوس وزن ڈالنے کے لئے دلیل پیش کی اور اس دلیل کو وجہ بنا کر انکار کردیا، ایک سجدے سے۔

یہی خصلت انسانوں نے بھی سیکھ لی۔ کرنا انہوں نے بھی ہر صورت انکار ہی ہوتا ہے، چاہے ایک سجدے کا ہو یا کسی دوسرے چھوٹے بڑے حکم کا۔

لیکن اپنے انکار کو وہ ہمیشہ کئی دلیلوں میں ڈھال کر ایک عمارت اپنی سوچوں کی قائم کرلیتا ہے اور اپنی غلطیوں اور برائیوں پر دلیلیوں کو جواز بنا کر وہ اس کے نقش قدموں کی پیروی کرتا ہے جس نے کئی صدیوں پہلے اپنے افضل ہونے کا اقرار کیا۔ پھر اس کی اس سے بھی بڑی خصلت یہ تھی کہ اس نے رب کو الزام دیا کہ توں نے مجھے سیدھے راستے سے ہٹادیا، میرے انکار گناہ کا زمہ دار رب ہے۔ انسانوں میں بھی ایسے بڑے پیدا ہوئے ہیں جو اپنے گناہوں کی ذمہ داری کو بے شرمی سے رب پر عائد کر دیتے ہیں۔

ہم فرشتے نہیں جو ہر کام صحیح کریں، اللہ نہ چاہتا تو زمین پر اتنے گناہ نہ ہوتے۔ اگر اللہ چاہتا تو مجھے گناہ کرنے سے روک لیتا، لیکن اس نے نہیں کیا ایسا، اگر اللہ نے ہر چیز پہلے سے طے کرکے رکھی ہے تو پھر ہمیں کیوں ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے گناہوں کا اور ایسی بہت سی عقلی دلیلیں ہم جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

ایک فرق جو آدم اور ابلیس کے رویے میں مختلف تھا وہ یہ کہ گناہ تو دونوں سے سر زرد ہوئے، لیکن ایک نے اسکا ذمہ دار اللہ کو ٹھہرایا اور عقلی دلیلیں دیں اور دوسرے نے اپنی ذات کو سارا قصور وار ٹھہرا کر پستی اختیار کی اور معافی مانگ لی۔ اس نے مان لیا تھا کہ بے شک! کچھ ہوجائے رب کی ذات سے ناانصافی سرزد نہیں ہوسکتی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
مدیحہ ضرار

مدیحہ ضرار

مدیحہ ضرار ایک سوچ کا نام ہے جو ایک خاص زاویئے سے دیکھی گئی تصویر کے دوسرے رُخ کی عکاسی کرتی ہے۔ معاشرتی صورت حال کے پیش نظر انہیں مایوسیاں پھلانے سے سخت الرجی ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ قلم میں اتنی طاقت ہے کہ وہ سوچ اور امید کے ساتھ سمت کا بھی تعین کر دیتی ہے۔ ان کی سوچ کو فیس بک پر madhe.aden@ سے مزید پرکھا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔