ویلیو ایشن اور ٹیکس قوانین میں ترمیم ؛ ملک کے بڑے شہروں میں جائیدادوں کے سودے معطل

کاشف حسین  پير 18 جولائی 2016
انکم ٹیکس آرڈیننس میں ترمیم  معیشت کی شہ رگ کاٹنے کے مترادف ہے, رکن  ریئل اسٹیٹ سیکٹر  فوٹو : فائل

انکم ٹیکس آرڈیننس میں ترمیم معیشت کی شہ رگ کاٹنے کے مترادف ہے, رکن ریئل اسٹیٹ سیکٹر فوٹو : فائل

 کراچی: جائیداد کی قدر کے ازسرنو تعین اور مارکیٹ ویلیو کے مطابق ٹیکسوں کی وصولی کے لیے انکم ٹیکس آرڈیننس میں ترمیم کے بعد کراچی سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں ریئل اسٹیٹ کے سودے معطل ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں مقامی شہریوں کے ساتھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے کی جانے والی اربوں روپے کی سرمایہ کاری بھی پھنس کر رہ گئی ہے۔

ریئل اسٹیٹ کا کاروبارکرنے والوں اور بلڈرز اینڈ ڈیولپرز کا وفد آج (پیر کو) اسلام آباد میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں حکام کے سامنے اس ترمیم کی وجہ سے مارکیٹ پر پڑنے والے منفی اثرات کا جائزہ پیش کرنے کے ساتھ درمیانی راستہ نکلوانے کیلیے تجاویز پیش کریگا۔ اجلاس میں شرکت کیلیے ریئل اسٹیٹ اور بلڈرز اینڈ ڈیولپرز کے وفود اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ ملک کی سب سے مہنگی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کراچی کے علاقے کلفٹن اور ڈیفنس سمیت کراچی کے دیگر اہم علاقوں میں پراپرٹی کے تمام سودے معطل ہوگئے ہیں۔ متعدد خریداروں نے ٹیکس کی پکڑ سے بچنے کے لیے سودے منسوخ بھی کردیے ہیں اور ریئل اسٹیٹ مارکیٹ میں افراتفری پھیل گئی ہے۔

اسلام آباد میں پیر کو ہونے والے مذاکرات میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی نمائندگی کرنے والے ڈیفنس اینڈ کلفٹن ریئل اسٹیٹ ایسوسی ایشن کے سینئر رکن دلدار احمد نے ایکسپریس کو بتایا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس میں ترمیم کے اعلان کے بعد سے ریئل اسٹیٹ کا کاروبار معطل ہوگیا ہے تمام سودے روک دیے گئے ہیں جس سے اربوں روپے کی سرمایہ کاری خطرے میں پڑگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریئل اسٹیٹ کمپنیاں ٹیکس دینا چاہتی ہیں لیکن مشاورت کے بغیر راتوں رات کسی قانون کے اطلاق سے مارکیٹ میں افراتفری کی صورتحال ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیر کو ہونے والے اجلاس میں ایک درمیانی راستہ نکالنے کیلیے تجاویز دی جائیں گی  تاکہ حکومت کو بھی اضافی ریونیو حاصل ہو اور ریئل اسٹیٹ کا کاروبار اور تعمیراتی صنعت بھی ترقی کرتی رہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈیفنس اینڈ کلفٹن ریئل اسٹیٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے حکومت کو ریئل اسٹیٹ سیکٹر کیلیے پانچ سال کی ایمنسٹی اسکیم کی تجویز دی جائیگی جس کے تحت پراپرٹی کی ویلیو میں سالانہ 20 فیصد اضافہ کیا جائے اور مارکیٹ ویلیو کے حساب سے ڈیل کی باقی رقم نصف یا ایک فیصد انکم ٹیکس وصول کرکے سفید کرنے کی سہولت دی جائے۔ اس طرح پانچ سال کے دوران پراپرٹی کی ویلیو میں 100فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے جس سے حکومت کو اربوں روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوگا ساتھ ہی ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے بھی خود کو ایڈجسٹ کرتے ہوئے کاروبار جاری رکھنے میں مدد ملے گی اور معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت سے اپیل کی جائیگی کہ اس ترمیم پر عمل درآمد فی الفور معطل کیا جائے اور مارکیٹ کو چند سال کی مہلت دی جائے تاکہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کی وجہ سے سرمایہ کاری کے لیے ملنے والی سازگار فضا سے ملک کی معیشت کے لیے فوائد حاصل کیے جاسکیں۔ دریں اثنا انکم ٹیکس آرڈیننس میں ترمیم کے بعد ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کی صورتحال پر غور کے لیے ایک ہنگامی اجلاس ریئل اسٹیٹ اینڈ بلڈرز کے دفتر میں منعقد ہوا جس میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی نمائندہ شخصیات نے شرکت کی۔

اس موقع پر ریئل اسٹیٹ سیکٹرکے سینئر رکن کلیم خان نے کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس میں ترمیم  معیشت کی شہ رگ کاٹنے کے مترادف ہے۔ ریئل اسٹیٹ سیکٹر حقیقی ویلیو ایشن کے تعین کے لیے تیار ہے تاہم اگر صوبے ڈی سی ویلیو ایشن کو مارکیٹ کے مطابق کردیتے ہیں تو پھر اس قانون میں ترمیم کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔کلیم خان نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے پیر کو حقیقی اسٹیک ہولڈرز کو اجلاس میں طلب کیا جانا قابل تعریف ہے۔ رئیل اسٹیٹ کمپنیاں اور تعمیراتی صنعت ٹیکس ریونیو بڑھانے کی ضرورت اور حکومت کے عزم سے پوری طرح متفق ہے صرف اس کے طریقہ کار سے اختلاف ہے۔ اگر حکومت اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور اتفاق رائے کے ساتھ ویلیو ایشن میں بتدریج اضافہ کرے گی تو پانچ سے سات سال کے دوران رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے ملنے والے محصولات میں چار گنا اضافہ ممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔