کیا اردگان واقع انتقام کی آگ میں اندھے ہوچکے ہیں؟

نورالہدیٰ شاہین  جمعـء 22 جولائی 2016
اگر بغاوت کامیاب ہوجاتی تو ترک فوج اردگان اور اس کے حامیوں کا کیا حشر کرتی؟ اور یہ بھی تو بتائیے کہ اگر باغی کنعان ایورن کا راستہ اختیار کرلیتے تو ’’سوکالڈ‘‘ عالمی برادری کہاں کھڑی ہوتی؟

اگر بغاوت کامیاب ہوجاتی تو ترک فوج اردگان اور اس کے حامیوں کا کیا حشر کرتی؟ اور یہ بھی تو بتائیے کہ اگر باغی کنعان ایورن کا راستہ اختیار کرلیتے تو ’’سوکالڈ‘‘ عالمی برادری کہاں کھڑی ہوتی؟

ترکی میں فوج کی جانب سے بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سرکاری ملازمین کی معطلی، برطرفی اور گرفتاریوں نے دنیا بھر میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اردگان نے بغاوت کے اگلے روز بیک جنبش قلم 2700 ججوں کو فارغ کردیا۔ اس کے بعد برطرفیوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ مزید پھیلتا گیا اور اب تک کل ملا کر 50 ہزار افراد اس ردعمل کا نشانہ بنے ہیں جن میں برطرف، معطل اور گرفتار سب شامل ہیں۔

بغاوت کے دوران ہونے والی ہلاکتوں پر بھی اردگان اور عوام کو قصوروار ٹھہرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بعض تبصرہ نگاروں نے باغیوں پر عوامی تشدد کو داعش کی کارروائیوں سے بھی تشبیہ دے ڈالی اور اسے انسانیت سوز قرار دے دیا۔ حالانکہ بغاوت میں زیادہ ہلاکتیں سویلین کی ہوئیں جن کو ہیلی کاپٹر سے شیلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور یہ سب کچھ مختلف فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے، بلکہ ظلم کی انتہا تو یہ ہوئی کہ بہت سارے شہریوں کو بالکل سامنے سے گولیاں ماری گئیں جبکہ دوسری طرف سڑکوں پر پولیس گرفتار باغیوں کو عوامی غیض و غضب سے بچاتی نظر آئی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر مرنے والے عام شہریوں کے حق میں سب خاموش ہیں۔ صرف باغیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر واویلا مچایا جارہا ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ اردگان کے قتل کے منصوبے پر بھی سب خاموش ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ان کے نکلنے کے صرف 15 منٹ بعد ہوٹل پر فوج نے حملہ کیا؟ یہ تمام زمینی حقائق کیوں نظر انداز کیے جارہے ہیں؟ کم از کم میری تو سمجھ سے بالاتر ہے۔

اس تمام صورت حال میں مغربی میڈیا اور پاکستان کے اندر بعض حلقے اردگان کو جمہوریت کی آڑ میں آمریت کا الزام دے رہے ہیں اور ملازمین کی برطرفیوں اور پکڑ دھکڑ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔ اردگان نے عوامی مطالبے پر سزائے موت متعارف کرانے کا عندیہ دیا تو یورپی یونین نے خبردار کیا کہ یہ اقدام ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔ اردگان نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تو جرمنی نے شہریوں کے بنیادی حقوق کا رونا روکر دبے لفظوں میں اس کی مخالفت کردی۔ حالانکہ حالیہ دنوں میں فرانس کا ایک واقعہ ہوگیا اور وہاں کے صدر نے ملک میں 6 ماہ کیلئے ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔ اب یہ جرمنی ہی بتا سکتا ہے کہ فرانس میں انسان نہیں بستے یا پھر وہاں کی ایمرجنسی ذرا الگ قسم کی ہوگی۔

اب آتے ہیں اُس نقطے کی طرف کہ کیا واقعی اردگان انتقامی جذبے میں حد سے گزرہے ہیں؟ کیا ترکی میں انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں یا اردگان جمہوریت کی آڑ میں آمر مطلق بنتے جارہے ہیں؟ ان تمام سوالات کا جواب ڈھونڈنے کیلئے ذرا ترکی کی تاریخ پر نظر ڈال کر دیکھتے ہیں۔ ترکی میں 4 مرتبہ فوج نے جمہوری حکومتوں پر شب خون مارا اور ان تمام آمروں نے عوام پر کیا کیا ستم ڈھائے اس کیلئے ایک پوری کتاب درکار ہوگی۔ اِس لیے ہم سب کا ذکر کرنے کے بجائے آخری مارشل لا کا جائزہ لیتے ہیں۔

ترک آرمی چیف کنعان ایورن نے 12 ستمبر 1980ء میں جرنیلوں کے ایک گروپ سے مل کر سلیمان ڈیمرل کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اقتدار پر قبضہ کرکے ترکی میں سیاہ و سفید کے مالک بن گیا۔ ڈکٹیٹر کنعان ایورن نے ملک بھر میں کریک ڈاون شروع کردیا اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے 6 لاکھ 50 ہزار افراد کو گرفتار کرلیا۔ 16 لاکھ 30 ہزار افراد کو بلیک لسٹ کردیا گیا۔ 2 لاکھ 50 ہزار افراد پر مقدمات بنے اور 14 ہزار افراد سے شہریت چھین لی گئی جبکہ ہزاروں افراد 1980ء سے لیکر آج تک لاپتہ ہیں۔ پھر قیدیوں پر جیلوں میں خوفناک تشدد کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ لاتعداد قیدی جیلوں میں تشدد کے باعث ہلاک ہوگئے اور 50 افراد کو جعلی عدالتوں میں جعلی مقدمات کے ذریعے سزائے موت دی گئی۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ بائیں بازوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی کارکنوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ گرفتار اور ہلاک شدگان کے خاندانوں پر ظلم و ستم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس وجہ سے کنعان ایورن کا مارشل لا ترکی کی تاریخ کا خونی دور کہلاتا ہے۔

کنعان ایورن کس قدر سفاک اور ظالم تھا اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ 1984ء میں ایک تقریر کے دوران اس نے سیاسی کارکنوں کو پھانسی دیے جانے کے سوال کا فخریہ انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان قیدیوں کو کب تک جیلوں میں رکھیں گے۔ انہیں جلد از جلد لٹکانا چاہیے۔

پھر قانون قدرت کے عین مطابق اردگان نے اقتدار میں آکر اسی کنعان ایورن کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ عدالت نے اسے عمر قید کی سزا سنائی اور 2015ء میں وہ قید کے دوران ہی اسپتال میں چل بسا۔

اب ذرا اردگان کے ردِعمل اور اور کنعان ایورن کے انتقام کا موازنہ کرلیں پھر بتائیں ظالم کون ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کس نے کی؟

اب اگر اردگان جمہوریت کی آڑ میں آمر بنتا جارہا ہے تو انہیں جمہور نے ہی ووٹ دے کر منتخب کیا ہے اور اس کا زندہ و جاوید ثبوت حالیہ بغاوت میں سامنے آگیا ہے۔ جمہور نے اس کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے بغاوت کچل کر رکھ دی اور موجودہ ردعمل بھی جمہور کی مرضی کے مطابق ہورہا ہے۔ اگر جمہور اس ردِعمل سے مطمئن نہ ہوتے تو وہ جن سڑکوں پر اردگان کے حق میں نکلے ہیں وہیں اس کیخلاف بھی نکل سکتے ہیں۔

دوسری بات اگر مصر کی فوج منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر بغیر کسی جرم کے لاکھوں شہریوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دے، ہزاروں کو ٹینکوں کے نیچے کچل دے، سیکڑوں کو سزائے موت سنا دے، ہزاروں کو لاپتہ کردے تو مہذب دنیا کو انسانی حقوق اور جمہوریت یاد نہیں رہتی بلکہ الٹا اس فوجی حکومت کو مضبوط کرنے کیلئے امداد بھی دی جاتی ہے۔ اگر بنگلہ دیش کی حکومت نصف صدی قبل کے حادثے کو جواز بنا کر من گھڑت الزامات کے تحت معمر شہریوں کو پھانسیاں دیتی ہے تو بھی عالمی برادری کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔

اب ذرا تصور کریں اگر بغاوت کامیاب ہوجاتی تو ترک فوج اردگان اور اس کے حامیوں کا کیا حشر کرتی۔ میں تو یہ سوچ کر ہی کانپ اٹھتا ہوں۔ اور ہاں چلتے چلتے یہ تو بتائیں اگر موجودہ باغی کامیاب ہوکر کنعان ایورن کا راستہ اختیار کرلیتے تو ’’سوکالڈ‘‘ عالمی برادری کہاں کھڑی ہوتی؟ آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا۔

ترکی کے حالات سے بیان کیے گئے نکات سے کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارفکےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

نورالہدیٰ شاہین

نورالہدیٰ شاہین

بلاگر وفاقی جامعہ اردو میں صحافت کے طالب علم اور ایک قومی روزنامے سے وابستہ ہیں۔ سماجی و سیاسی موضوعات پر لکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ان سے ٹویٹر پر nh_shaheen@ کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔